تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     06-04-2021

صلاحیت سے کئی قدم آگے

ہم سب کی زندگی کا کوئی بھی معاملہ، کوئی بھی پہلو مسابقت سے آزاد نہیں۔ ہر انسان کو کسی نہ کسی سطح پر مسابقت کا سامنا رہتا ہی ہے۔ جن کے حصے میں زیادہ مادّی وسائل نہیں آئے اور جنہیں عسرت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے وہ اس گمان میں مبتلا رہتے ہیں کہ جن کے پاس بہت دولت ہے اُن کی زندگی میں کوئی غم ہے نہ پریشانی۔ عام تصور یہ ہے کہ بڑے گھروں میں آسائشوں کے ساتھ جینے والے زندگی سے بھرپور لطف کشید کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے! مسائل سب کے لیے ہیں، پریشانیوں میں حصہ سب کو ملتا ہے۔ ہاں! ہر انسان کے لیے مسائل اور پریشانیوں کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ ضیاءؔ جالندھری نے خوب کہا ہے ؎
اُفتادِ طبیعت سے اِس حال کو ہم پہنچے
شدت کی محبت میں شدت ہی کے غم پہنچے
ہر انسان کو اپنے مسائل حل کرنے کے لیے اور اپنی پریشانیوں سے نجات پانے کی خاطر کچھ نہ کچھ ایسا کرنا پڑتا ہے جو صورتِ حال کے مطابق ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی کے مسائل خود بخود حل ہو جاتے ہیں اور کسی کو بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ مسائل حل کرنے کے لیے ذہن پر زور دینا پڑتا ہے، حکمتِ عملی ترتیب دینا پڑتی ہے اور پھر اُس کے مطابق میدانِ عمل میں آنا پڑتا ہے۔ ہر انسان کے لیے مسائل حل کرنے کا یہی معقول ترین طریقہ ہے۔آج ہر معاشرے میں تفریق نمایاں ہے۔ معاشرے کئی طبقوں میں منقسم ہیں۔ سوال صرف وسائل کا نہیں، سوچ کا بھی ہے۔ یکساں مالی حیثیت کے حال افراد کے درمیان بھی سوچ کا فرق نمایاں ہے اور یوں اُن کے مسائل کی نوعیت بھی مختلف ہے۔ یہ سب اِس قدر عام ہے کہ بالکل فطری سطح پر ہے اور ہمیں کچھ سوچنے کی تحریک نہیں دیتا۔ عام آدمی کے معاملات تبدیل ہونے کا نام نہیں لیتے۔ وہ مسائل میں گھرا رہتا ہے اور دن رات ایک کرنے پر بھی اُس کی زندگی میںکوئی ایسا فرق واقع نہیں ہوتا جو واضح طور پر محسوس ہو اور جس کی بنیاد پر اُسے سکون کا سانس لینے کا موقع ملے۔ کیا محنت کا صلہ نہیں ملتا؟ کیا محنت سے مسائل حل نہیں ہوتے؟ کیا باصلاحیت ہونے پر بھی انسان اپنے حالات نہیں بدل سکتا؟ کیا زمانہ ہر باصلاحیت انسان کی قدر کرتا ہے؟ کیا ہماری دنیا کسی کو مثبت تبدیلی کی طرف بڑھتا ہوا دیکھ کر اُس کی مدد کرتی ہے؟ یہ اور ایسے ہی بہت سے سوالات ہر اُس انسان کے ذہن میں گردش کرتے رہتے ہیں جو مسائل میں گھرا ہوا ہو اور اپنے حالات میں بہتری لانے کے لیے سرتوڑ جدوجہد کر رہا ہو۔ درحقیقت قدرت نے ہر انسان کو متعدد صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ صلاحیتیں نہ ہوں تو انسان کچھ بھی نہ کر پائے، یہ صلاحیت ہی تو ہے جو انسان کو کچھ کرنے کی تحریک دیتی ہے، آگے بڑھنے کا حوصلہ عطا کرتی ہے۔ تو پھر کیا سبب ہے کہ معاملات درست نہیں ہوتے اور بظاہر بہت کوشش کرنے پر بھی ہم کچھ زیادہ نہیں کر پاتے؟ کم ہی لوگ ہیں جو اس نکتے پر غور کرتے ہیں کہ انتہائی باصلاحیت ہونا بھی کسی کام کا نہیں اگر ہم صلاحیت کو بروئے کار لانے پر متوجہ نہ ہوں۔ عام آدمی میں صلاحیتیں بھی عمومی نوعیت کی ہوتی ہیں۔ اِن صلاحیتوں کا معیار بلند کرنا پڑتا ہے اور نئی صلاحیتیں پروان چڑھانے کے لیے بھی انسان کو بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ اور پھر اس حقیقت پر بھی کم لوگ غور کرتے ہیں کہ زیادہ صلاحیتوں کا حامل ہونا انتہائی پریشان کن ثابت ہوتا ہے اگر عمل پسند رویہ پروان نہ چڑھایا جائے۔کسی بھی صلاحیت کو بارآور بنانے کے لیے عمل پسند رویہ اپنانا پڑتا ہے۔ جب انسان متحرک ہوتا ہے تبھی کچھ ہو پاتا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں آگے وہی جا پاتے ہیں جو دوسروں سے ہٹ کر جیتے ہیں یعنی اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے پر متوجہ ہوتے اور عمل کی کسوٹی پر خود کو پرکھنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔بامقصد اور بارآور زندگی بسر کرنے کا معقول ترین طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنی ہر صلاحیت کو پروان چڑھائے، بروئے کار لائے اور مزید صلاحیتوں کا حصول یقینی بنانے کی کوشش کرے۔ آپ انہی کو آگے بڑھتا ہوا پائیں گے جو دوسروں سے بلند ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسروں سے بلند ہونے کی کوشش کرنے کا مطلب ہے اُن سے زیادہ باصلاحیت ہونا اور اُن سے زیادہ کام کرنا۔ عمومی سطح پر رہتے ہوئے کام کرنے کی صورت میں آپ کچھ خاص نہیں کر پاتے۔
حالات ہر انسان پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ حالات کا سب سے بڑا منفی اثر یہ ہے کہ یہ سب کو ایک سطح پر لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی کبھی آپ بہت کچھ کرنے کا سوچتے ہوں گے اور کوشش بھی کرتے ہوں گے مگر پھر کچھ وقت گزرنے پر آپ کے جوش و خروش کے دریا کی سیلابی کیفیت دم توڑنے لگتی ہوگی اور آپ عام افراد جیسے ہو جاتے ہوں گے۔ یہ حقیقت حیرت انگیز ہے نہ مایوس کن۔ حالات کے خاموش اور قدرے غیر محسوس جبر کا سامنا سبھی کو کرنا پڑتا ہے۔ اِسی مرحلے میں انسان کو کچھ سوچنا پڑتا ہے، حکمتِ عملی ترتیب دینا پڑتی ہے اور پھر میدانِ عمل میں آکر خود کو ثابت کرنا پڑتا ہے۔کسی بھی شعبے میں بھرپور کامیابی یقینی بنانے کے لیے انسان کو صلاحیتوں سے کئی قدم آگے جاکر کچھ کرنا پڑتا ہے۔ صلاحیت اس سفر کا محض پہلا پڑاؤ ہے۔ جس میں صلاحیت ہوتی ہے وہ کچھ کرنے کا سوچتا ہے، فیصلے کرتا ہے، ارادے باندھتا ہے اور پھر کچھ کر دکھانے کی راہ پر گامزن ہو جاتا ہے۔ کامیاب ترین افراد کے حالاتِ زندگی کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ انہوں نے حالات کے جبر کو شکست دینے کے لیے اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھایا یعنی اُن کی اَپ گریڈیشن پر توجہ دی، محنت کو شعار بنایا اور دن رات ایک کرکے اپنے لیے کچھ فرق پیدا کرنے کی کوشش کی۔ گویا صلاحیت کو بروئے کار لانے کی کوشش کیے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔ جس میں صلاحیت ہو اُسے محنت پر بھی متوجہ ہونا چاہیے۔مگر سوال یہ بھی ہے کہ کیا محض اِتنا کرلینے سے بات بن جاتی ہے؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہے، صلاحیت کو بروئے کار لانے کے لیے کی جانے والی محنت بھی کسی کام کی ثابت نہیں ہوتی اگر آپ منصوبہ سازی نہ کریں، معاملہ فہمی کا مظاہرہ نہ کریں۔ پھر بھرپور کامیابی کا فارمولا کیا ہے؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ انسان میں غیر معمولی صلاحیت یا صلاحیتیں پائی جاتی ہوں۔ پھر وہ صلاحیتوں کو پروان چڑھانے اور نکھارنے پر بھی متوجہ رہے۔ تیسرے یہ ہے کہ محنت کرنے پر یقینی رکھتا ہو کیونکہ ایسا کیے بغیر کچھ بھی ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ پھر یہ بھی سوچنا ہے کہ جو کچھ کرنا ہے وہ کس طور کیا جائے اور اس حوالے سے منصوبہ سازی کی نوعیت کیا ہو۔ منصوبہ سازی کے بغیر کیے جانے والے کام زیادہ بارآور ثابت نہیں ہوتے اور کبھی کبھی تو منفی نتائج بھی پیدا کردیتے ہیں۔ اور پھر یوں بھی ہے کہ محض منصوبہ سازی بھی کام نہیں آتی۔ صلاحیت کو محنت سے مزین کرنے اور منصوبہ سازی کے ذریعے کچھ کرنے کا بھی کوئی مثبت نتیجہ اُسی وقت برآمد ہوسکتا ہے جب ہم ٹائمنگ کے حوالے سے واضح ذہن رکھتے ہوں یعنی موقع کی نزاکت کا درست اندازہ ہو۔ کامیابی کسی ایک معاملے کے درست کرلیے جانے کا نام نہیں۔ کسی بھی انسان کو بھرپور کامیابی اُسی وقت مل پاتی ہے جب وہ ہر اعتبار سے نمایاں حد تک توازن کی حالت میں۔
اگر کسی ایک معاملے پر زیادہ توجہ دی اور دوسرے معاملات کو نظر انداز کیا تو سمجھ لیجیے اپنی راہ میں خود ہی گڑھا کھودا۔ عام آدمی کا یہی المیہ ہے۔ وہ کسی ایک معاملے پر توجہ دے کر مطمئن ہو رہتا ہے۔ وہ کامیاب ہونا تو چاہتا ہے، لگن بھی رکھتا ہے، صلاحیت بھی کم نہیں ہوتی اور محنت کرنے کی سکت بھی اُس میں ہوتی ہے مگر کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتا کہ حقیقی اور بھرپور کامیابی کس طور یقینی بنائی جاتی ہے، اُس کے ناگزیر اجزائے ترکیبی کیا ہوتے ہیں۔باصلاحیت ہونے کو کافی سمجھ لینا سادہ لوحی ہے۔ جو بہت آگے جانا چاہتے ہیں وہ اُن سے کچھ معلوم کریں اور سیکھیں جو بہت آگے جاچکے ہیں۔ اُن کی کہانیاں بہت کچھ سکھاتی ہیں۔ کامیابی کے لیے کوشاں ہونے سے پہلے ذہن سازی ناگزیر ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved