اگر کوئی شخص مہنگائی کے معنی گھنٹے بھر کیلئے انٹرنیٹ پر تلاش کرنا شروع کردے تو اسے علم ہوجائے گا کہ مہنگائی دراصل علامت ہے ‘مسئلہ بازار میں رسد ہے۔ کوئی بھی چیز مہنگی اسی وقت ہوتی ہے جب منڈی میں اس کی قلت ہوجائے اور لینے والوں کی تعداد میں کمی نہ آئے۔ یہ اتنا سیدھا اصول ہے کہ بازار میں جیسے ہی مال پہنچنے لگتا ہے قیمت نیچے کی طرف کھسکنا شروع کردیتی ہے۔ رابطے کے موجودہ وسائل سے یہ فرق پڑا ہے کہ بازار میں کسی بھی چیز کی قلت کی خبر ہی قیمت بڑھا دیتی ہے اور وافر مقدار میں دستیابی کی امید پر ہی قیمتیں نیچے آنے لگتی ہیں۔ منڈی کا یہ نظام صدیوں سے ایسے ہی چلتاآرہا ہے اور ابد تک یونہی چلتا رہے گا۔ دنیا نے بڑے بڑے طرم خان حکمران دیکھے‘ ماہرین معاشیات نے بڑی بڑی دانشوریاں بگھاریں‘ مگرمنڈی پر قابو نہ پاسکے۔ صدیوں پرمحیط انسانی تجربے نے آخر یہ نتیجہ نکالا کہ بازار کو فطری انداز میں چلنے دیا جائے البتہ حکومت اس پر یوں نظر رکھے کہ طلب و رسد کا توازن خراب نہ ہونے پائے۔ مہنگائی ہو تو حکومت رسد کیلئے دوڑے مگرقیمتیں منڈی پر ہی چھوڑدے۔ اگر ہماری پیاری حکومت گزشتہ پونے تین سالوں میں معیشت کے اس بنیادی اصول کی سمجھ چکی ہوتی تو اس کا رویہ کم ازکم یہ نہ ہوتا جواَب ہے۔ غالباً اس کا سبب نالائقی ہے کیونکہ طلب و رسد کا یہ معاملہ سمجھنے کیلئے تو صرف ایک گھنٹہ اور اوسط سے بھی کم عقل درکار ہے۔ اتنی عقل اگر میسر ہوتی تین برس ان مسائل کو حل کرنے کیلئے کافی ہیں۔
بات سمجھنے کیلئے گندم کی مثال لیتے ہیں۔ تحریک انصاف کی صورت میں اسلام آباد‘ لاہور اور پشاور پر ناگہانی طور پرنازل ہونے والے کھلنڈروں کے اس گروہ میں استعداد ہوتی تو انہیں معلوم ہوتا کہ پاکستان میں دوکروڑ ساٹھ لاکھ ٹن گندم استعمال ہوتی ہے۔ اگست میں ان لوگوں کو حکومت ملی تھی گویا گندم کی کاشت سے چار مہینے پہلے۔ ان میں سے کوئی ایک بھی صرف اخبارات کے تجارتی صفحوں پر نظر رکھتا تو اسے علم ہوجاتا کہ آئندہ سال کی بوائی بہتر بنانے کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔ مگر ہوا کیا کہ انہیں کچھ پتا ہی نہ چلا اور شاید اسی وجہ سے ہم نے مناسب مقدار میں گندم پیدا کرلی۔ دو چار لاکھ ٹن ہماری ضرورت سے کم تھی جو پچھلے سال کے سٹاک میں موجود تھی۔ ان افلاطونوں کی حکمت عملی دیکھیے کہ نئی گندم آنے سے پہلے پہلے پچھلی گندم بیچ ڈالی اور ملک میں خواہ مخواہ ایسا بحران پیدا کردیا جو اب تک حل ہونے کا نام نہیں لے رہا۔
چینی کو دیکھ لیجیے۔ ان لوگوں نے سبسڈی کو اپنی کوتاہ فہمی کی وجہ سے مسئلہ بنایا‘ پھراس ٹکٹکی پر جہانگیر ترین کو باندھا اور درّے مارنے کیلئے اپنے جیسے نالائق بیوروکریٹوں کو انکوائری ٹیم کی صورت میں چھوڑ دیا۔ یہ ٹیم جہانگیرترین کا تو کچھ نہ بگاڑ پائی مگر چینی کی صنعت کو تباہ کر گئی۔ غلط اعدادوشمار‘ جھوٹ اور غیر حقیقی الزامات کو قانونی زبان میں لکھوا کر یہ لوگ چینی بنانے والوں اورتاجروں کو مافیا قرار دے کے ان پر چڑھ دوڑے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پالیسی بدلی جاتی۔ اعلان کردیا جاتا کہ آئندہ چینی پر کوئی سبسڈی نہیں دی جائے گی۔ اس کے بعد حکومت کاشت کاروں اور شوگر مل والوں کے ساتھ مل کر گنے اور چینی کی قیمت کے درمیان ایک مستقل نسبت طے کردیتی‘ لیکن یہ تبدیلی حکومت ہے‘ اس لیے معقولیت کی امید اس سے نہیں کی جاسکتی۔ یہ آج بھی چینی کے معاملے میں وہی غلطی دہرا رہی ہے جو اس نے پہلے دن کی تھی۔ منڈی کی طلب و رسد کا حساب کیے بغیر یہ بلاوجہ چینی کبھی باہر سے منگواتے ہیں کبھی انتظا می طاقت کے زور پر بازار کو اپنی مرضی کے تابع کرنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں اور نتیجہ یہ کہ منڈی سے چینی غائب اور قیمتیں اوپر سے اوپر۔ گندم اور چینی کے ذیل میں اس حکومت نے جو کچھ کیا ہے اس کی قیمت ہے تین ارب ڈالرجو ہم اسے درست کرنے میں لگائیں گے۔
بجلی پرآجائیے۔ یہ درست ہے کہ پچھلی حکومتوں نے مہنگے معاہدے کیے ہیں‘ یہ بھی ٹھیک ہے کہ بیس فیصد سے زائد بجلی چوری ہوجاتی ہے اور دس فیصد کا سرے سے بل ہی نہیں بھیجا جاتا۔ پچھلی حکومتیں تو چور تھیں‘ یہ بھی مان لیا کہ یہ سب انہی کا کیا دھرا تھا۔ مگر یہ حکومت تو ایماندار تھی تو کیوں نہ روکی بجلی چوری؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ بجلی چوری پکڑنے کیلئے کام کرنا پڑتا ہے۔ دن رات کھمبے‘ میٹر اور تار گننے پڑتے ہیں۔ ان کے پاس کوئی ڈھنگ کاآدمی ہوتا اس کام کیلئے تو صرف پانچ فیصد چوری کم کرلیتا اور نوے کی بجائے پچانوے فیصد کا بل بھیج کر وصول کرلیتا توآج بجلی کا وہی ریٹ ہوتا جو 2018 ء میں تھا۔ انہیں سمجھ اس وقت آئی جب گردشی قرضہ بڑھنے لگا اورآئی ایم ایف نے آنکھیں ماتھے پررکھ لیں۔ اب یہ اندھادھند بجلی کی قیمت بڑھانے چلے ہیں اور اگر یہ اضافہ ہوجاتا ہے تو یہ سن کر شایدآپ کو ''خوشی‘‘ ہوگی کہ آپ کی بجلی کا بل امریکہ سے بھی اوپر چلا جائے گا اورآمدنی کے اعتبار سے پاکستان بنگلہ دیش سے بھی نیچے رہے گا۔
آپ کو یاد ہوگا‘ پچھلی حکومت میں تیل کی قیمتیں بڑھیں تھیں تو اسد عمر نے انگلیوں پر گن گن کر ٹیکس بتائے تھے۔آج ایک لیٹر پٹرول پر ٹیکس دو گنا ہیں اور یہ حکومت ہر سال ڈھائی سو ارب روپے صرف پٹرول پرلگے ڈویلپمنٹ لیوی کے ذریعے اکٹھا کرتی ہے۔ جو حکومت اس طرح کی بنیادی ضروریات پر ٹیکس لگا کرضروریات پوری کرنے کی کوشش کرے دراصل اس کے نکمے پن کا ثبوت ہے۔ اگراس حکومت کو عقل فہم ہوتی تو یہ اپنے منشور کے مطابق آٹھ ہزار روپے ٹیکس اکٹھے کرنے کیلئے زور لگاتی مگر ابتدا میں ایک دو اقدامات کے بعد اس نے بھی ٹیکس چوروں کیلئے معافی کی سکیمیں شروع کردیں۔ دوسرے لفظوں میں پہلی حکومتوں کی طرح تبدیلی حکومت نے بھی چوری شدہ ٹیکس کے عوض پٹرول پر ٹیکس لگا کر ان لوگوں سے یہ کمی پوری کرنا شروع کردی جو ٹیکس دے رہے ہیں۔ یہ ہے نیا پاکستان جہاں ایمانداری سے ٹیکس دینے کی سزا ہے مزید ٹیکس۔ پاکستان میں مہنگائی ایسا مسئلہ ہے جو صرف منڈی میں رسد اور مال پر حکومتی ٹیکسوں کے ساتھ جڑا ہے۔اس حکومت نے اپنی بے وقوفی سے مہنگائی پیدا کی ہے اور الزام دوسروں کے سر پر دھرتی ہے۔ تحریکِ انصاف سے توقع تھی کہ وہ پچھلی حکومتوں کے پٹے ہوئے راستے پر چلنے کی بجائے پیداوار بڑھانے کی طرف توجہ کرے گی لیکن یہ نالائقی کا ایسا تلخ لطیفہ بن کر سامنے آئی جوآنے والی کئی دہائیوں تک یاد رکھا جائے گا۔ اس نے اس بازار کا بھی ستیا ناس کرکے رکھ دیا جو پاکستان میں کاروبار کے نام پر ہونے والے فراڈ کی کوکھ سے فطری طور پر ابھرا تھا۔ ہماری تجارتی منڈی پاکستان کا واحد کاروبار ہے جسے چلانے کیلئے کسی بڑے افسر کو اپنا حصہ دار بنانا ضروری ہے نہ سیاستدانوں سے تعلق۔ یہ بازار گزشتہ پچاس برسوں میں معاشی میدان میں پاکستان کی واحد کارکردگی ہے کہ یہاں کسی نہ کسی درجے میں منڈی کی طلب و رسد کا ایک نظام پیدا ہوا تھا۔ اس حکومت نے بازار کے لوگوں کی پکڑ دھکڑ کرکے اس نظام کو توڑ دیا ہے۔ کرنے کا کام یہ تھا کہ بازار میں کاروبار کو بہتر بنانے کیلئے پالیسیاں وضع کی جاتیں۔ ریاست اورکاروبار کا تعلق شفاف بنایا جاتا۔ چینی پر انکوائری بٹھا دینا‘ پٹرول پر کمیشن بنا دینا‘گندم پررپورٹ بنوا لیا یہ ایسے اقدامات ہیں جو کہنے کوآسان ہیں لیکن سوائے تباہی کے ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ اتنی محنت اگر پالیسیاں بنانے اور انہیں لاگو کرنے پر کر لی جاتی تو مہنگائی کا جو عالم آج ہے‘ وہ نہ ہوتا۔
اور ہاں ایک تجربے کی بات یاد رکھیے‘ جب بھی کوئی حکومتی عہدیدار یا وزیراعظم یہ کہنے لگے کہ جی کھیت میں تو ٹماٹر دس روپے کلو ہوتا ہے لیکن مڈل مین کی وجہ سے پرچون میں پچاس روپے کلو بکتا ہے تو سمجھ لیجیے کہ مثال دینے والے کو منڈی‘ کھیت‘ مڈل مین‘ پرچون یا معیشت کا کچھ پتا نہیں۔