وزیر اعظم کو اب شاید شدت سے اس بات کا احساس ہو رہا ہے کہ اُنہیں غلط پٹری پر چلایا جا رہا تھا۔ اگر واقعی اُنہیں یہ احساس ہو گیا ہے تو یہ بھی مقامِ تشکر ہے۔ اب بھی اُن کے پاس کم و بیش ڈھائی سال ہیں۔ اِس مدت میں وہ بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ بہت کچھ سے مراد کسی انقلاب کا برپا کیا جانا نہیں بلکہ یہ ہے کہ وہ بہبودِ عامہ یقینی بنانے کی سمت کچھ قدم تو چل ہی سکتے ہیں۔ جہاں گھپ اندھیرا ہو‘ وہاں کوئی ایک دِیا بھی جلادے تو دور سے دکھائی دیتا ہے۔ انہیں یہ بات بہت پہلے سمجھ لینی چاہیے تھی کہ کرپشن کے اندھیرے میں جلایا ہوا شرافت و دیانت کا ایک دِیا بھی بہت دور سے دکھائی دے گا۔ گزشتہ روز حکومت اور پارٹی کے ترجمان کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعظم نے ترجمانوں کو ہدایت کی کہ وہ پی ڈی ایم میں شامل اپوزیشن جماعتوں کی ہر بات کا جواب دینے کے بجائے اپنی کارکردگی بہتر بنانے اور حکومتی کارکردگی اجاگر کرنے پر توجہ دیں۔ ہدایت معقول ہے کیونکہ اپوزیشن کا‘ پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں‘ بنیادی کام یہی ہے کہ حکومت کو غیر متعلق اور لایعنی باتوں میں الجھاکر اس قابل ہی نہ چھوڑا جائے کہ وہ ملک و قوم کے لیے کچھ کرنے کی پوزیشن میں رہے۔ پی ٹی آئی کی سربراہی میں قائم کی جانے والی حکومت کا بھی یہی معاملہ ہے۔ مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین آفاق احمد نے ایک بار اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ملک کی دو بڑی جماعتوں کو بدعنوان ثابت کرکے اور تیسری قوت کو ناکام بنانے کی صورت میں قوم کے ذہنوں میں یہ بات راسخ کی جا رہی ہے کہ تمام سیاست دان یا تو بدعنوان ہیں یا پھر ناکام۔ اور یوں صدارتی نظام کی راہ ہموار کی جارہی ہے جو آمریت ہی کے خطوط پر استوار ہوگا۔ پارلیمانی سیاست میں کچھ کہنے اور تنقید کے ذریعے اصلاح کی گنجائش بہرحال رہتی ہے۔ صدارتی نظام محض ون مین شو ہوتا ہے جس میں دوسروں کے لیے کچھ کرنے کی زیادہ گنجائش نہیں چھوڑی جاتی۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ سیاست دانوں نے بدعنوانیاں کی ہیں اور اُنہیں ہر اعتبار سے پارسا قرار نہیں دیا جاسکتا مگر حقیقت یہ ہے کہ اس وقت صرف سیاستدانوں کو ہی مطعون کیا جا رہا ہے، اُنہیں بدعنوان ہی نہیں بلکہ اہلیت سے عاری بھی ثابت کیا جا رہا ہے، نتیجتاً لوگوں کا سیاست پر سے اعتماد مکمل طور پر اٹھتا جا رہا ہے اور وہ کسی اور نظام کے قبول کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار رہیں۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ کہ سیاست دانوں نے اپنی خامیوں اور کوتاہیوں سے اپنے معاملے کو خود خراب کیا ہے مگر یہ تسلیم کیے بغیر بھی چارہ نہیں کہ نادیدہ قوتوں نے بہت عمدگی سے اپنے آپ اس کھیل سے بچا لیا اور عوام کے ذہنوں میں یہ تصور راسخ کر دیا ہے کہ اِس ملک کو چلانے والی مشینری میں اگر کوئی بُرا ہے تو وہ صرف سیاستدان ہیں۔ یہ بحث پھر کبھی سہی کہ کون کتنا بدعنوان ہے اور کون کتنا بدنام۔ ہم بات کر رہے ہیں وزیراعظم کے بیان کی۔ وزیراعظم نے نہ صرف غلط ڈگر کا ادارک کیا بلکہ بگڑتے ہوئے معاملات کا نوٹس بھی لیا جس سے قوم کی تھوڑی سی ڈھارس بندھی ہے۔ وزیر اعظم نے قوم سے حالیہ خطاب میں کہا ہے کہ وہ (حکومت چلانے کے نام پر) جہاد کر رہے ہیں اور قوم اُن کا ساتھ دے۔ اُن کے سامنے سب سے بڑا چیلنج مہنگائی کا ہے۔ یہ وہ سیلاب ہے جس کا درجہ روز بروز بڑھتا ہی جارہا ہے۔ ملک بظاہر کسی ٹھوس جواز کے بغیر ابھرنے والی مہنگائی کی زد میں دو چار دن سے نہیں‘ یہ تو کم و بیش دو عشروں کا قصہ ہے۔ اکتوبر 1999ء میں جب پرویز مشرف نے اقتدار کی لگام تھامی تھی تب معاملات بہت حد تک قابو میں تھے۔ مہنگائی ایسی نہ تھی کہ عام آدمی ڈھنگ سے سانس بھی نہ لے پائے۔ تنخواہیں کم تھیں تو لوگوں پر گھر بار چلانے کے حوالے سے بوجھ بھی کم تھا کیونکہ مہنگائی کا جن بوتل سے باہر نہیں آیا تھا۔ پلاٹس اور مکانات کی قیمتیں معقول تھیں۔ عام آدمی تھوڑی بہت محنت کے ذریعے ذاتی چھت کا حصول یقینی بنانے میں کامیاب ہو جاتا تھا۔ معاملہ آج کی طرح نہیں تھا کہ اب عام آدمی اپنا مکان بنانے یا خریدنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ مارکیٹ کے سٹّہ بازوں نے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے زمین کی قیمتوں کو ہوا دی۔ بہت سے مکانات اور اپارٹمنٹس کی قیمتیں بڑھیں تو مالکان نے کرایہ داروں کو پریشان کرنا شروع کیا کہ کرایہ بڑھائیں۔ حالانکہ تنخواہ کی سوئی تو وہیں پر رکی ہوئی تھی، اب بھلا تنخواہ دار طبقہ زیادہ کرایہ ادا کرے تو کیونکر؟ وزیراعظم اور اُن کی ٹیم کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ زندگی بسر کرنے کی لاگت قابو میں رکھنے کا ہے۔ عام آدمی کے لیے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا دشوار تر ہوتا جارہا ہے۔ ایسے میں ذاتی گھر کا خواب دیکھنا تو محض دیوانے کا خواب کہلائے گا۔ حکومت عوام کو کوئی بھی ایسا راگ نہ سُنائے جس کی تان محض اضافی پریشانی پر ٹوٹے۔
ریاستی مشینری کی خامیاں اور خوبیاں اپنی جگہ‘ حکومتی مشینری کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ انہیں پانچ سالہ مینڈیٹ صرف اس لیے ملتا ہے کہ عوام کے مسائل حل کرنے پر پوری توجہ دیں اور آئندہ کے لیے اپنی راہ ہموارکریں۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ کہنا آسان ہے، کرنا مشکل۔ جہاں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہو وہاں خونیں انقلاب پر یقین نہ رکھنے کی صورت میں صرف ایک آپشن رہ جاتا ہے ... کہ رگِ جاں سے خون نچوڑ لینے والے تحمل سے کام لیتے ہوئے لوگ اپنے اپنے حصے کا کام کرتے جائیں اور نتیجہ اللہ کی رضا کے تابع کردیں۔ وزیراعظم اور اُن کی ٹیم کو اپنے مینڈیٹ کی باقی مدت انتخابی مہم کے سے انداز سے پوری کرنی چاہیے۔ توجہ صرف ایک نکتے پر مرکوز رہے کہ عوام کو کسی نہ کسی صورت چند بنیادی معاملات میں ریلیف مل جائے۔ کسی بھی حکومت کی ساکھ بہتر بنانے والی سب سے اہم بات یہ ہوتی ہے کہ نچلے طبقے کو کچھ مل جائے، اُس کے آنسو پونچھے جائیں۔ اہلِ پاکستان کے لیے ہر وہ شخص نجات دہندہ ہے جو اُنہیں یومیہ بنیاد پر جاں سوز قسم کی، اذیت ناک محنت سے نجات دلادے۔ محنت سے جی چرانا مجموعی طور پر اس قوم کی عادت نہیں مگر ہاں! محنت کے نام پر پورے وجود کو داؤ پر لگانے والے حالات کا سامنا کرنا کسی کے لیے بھی کوئی خوش کُن بات نہیں۔ لوگ چاہتے ہیں کہ بہت کچھ نہ سہی، تھوڑا بہت تو ملے۔
یہ تھوڑا بہت کیا ہے؟ ہر شعبے میں در آنے والے مافیاز کو ختم کرنے پر توجہ دی جائے۔ آج پاکستان کے تمام بڑے شہروں کا حال یہ ہے کہ ماس ٹرانزٹ سسٹم یا پبلک ٹرانسپورٹ کا پورا نظام نجی شعبے کی جھولی میں ڈال دیا گیا ہے۔ نجی ٹرانسپورٹرز من مانی کر رہے ہیں۔ لاہور جیسے شہر میں تھوڑے سے فاصلے کے لیے بھی لوگوں کو اچھی خاصی رقم کرائے کی مد میں ادا کرنا پڑتی ہے۔ یہ صریح لوٹ مار ہے۔ حکومت ٹرانسپورٹ سمیت تمام بنیادی سہولتوں کے معاملے میں کچھ نہ کچھ ریلیف دینے کا اہتمام کرنے پر توجہ دے تو اُس کی کشتی پار اُتر جائے گی۔ اس وقت پاکستانی سیاست گھوم پھر کر ایک بار پھر الزام تراشی اور طعن و تشنیع کے چوک پر آگئی ہے۔ اہلِ سیاست ایک دوسرے کو بے نقاب کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اہلِ وطن حیران و پریشان یہ تماشا دیکھنے پر مجبور ہیں۔ اہلِ سیاست کو اپنے اپنے معاملات درست کرنے کی پڑی ہے۔ ایسے حالات میں کسی انقلاب کی تو کیا، نمایاں تبدیلی کی توقع بھی نہیں رکھی جاسکتی۔ اب ایک ہی آپشن بچا ہے کہ جو کچھ کیا جاسکتا ہے‘ وہی کرلیا جائے۔ وزیراعظم اپوزیشن کے پیدا کردہ بکھیڑوں میں پڑنے کے بجائے بہبودِ عامہ پر متوجہ رہیں‘ یہی حکومت کی بہتری اور عوامی فلاح کی شاہ کلید ہے۔