شہر کے ایک بہت بڑے شاپنگ مال کے باہر گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی نہ ختم ہونے والی طویل قطاریں دیکھ کر آگے بڑھنے کا ارادہ ملتوی کرتے ہوئے واپس جانے کا فیصلہ کیا گیا لیکن اب مشکل یہ پیش آ رہی تھی کہ گاڑی کو کس طرف سے واپس موڑا جائے۔ میرے دوست نے گاڑی اپنے ڈرائیور کے حوالے کرتے ہوئے پیدل ہی شاپنگ مال کی جانب جانے کا فیصلہ کیا۔ ہجوم اور بے ترتیب ٹریفک میں سے گزرتے ہوئے ہم جیسے ہی شاپنگ مال کے داخلی دروازے کے قریب پہنچے تو اندر داخل ہونے کیلئے مردوں اور عورتوں کی علیحدہ علیحدہ طویل قطاریں دیکھتے ہی چکرا کر رہ گئے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ شہر کے تمام مرد و خواتین اس شاپنگ مال میں امڈ آئے ہیں۔ ایک طویل اور صبر آزما انتظار کے بعد جب سکیورٹی کے تمام مراحل طے کرتے ہوئے شاپنگ مال کے اندر پہنچے تو ایسے لگا جیسے کہ ابھی اس کے دروازے بند کر دیے جائیں گے کیونکہ وہاں تاحدِ نظر انسانی سروں کا سمندر دکھائی دے رہا تھا۔ تل دھرنے کو بھی جگہ نہیں تھی۔ ابھی ہم اس رش کی جانب دیکھ ہی رہے تھے کہ اچانک ایک جانب سے زبردست ہڑبونگ اور چیخ و پکار کی آوازوں نے سب کو اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ شاپنگ مال کی سکیورٹی پر مامور افراد جلدی سے اس جانب لپکے، ہم نے بھی دیکھنے کی کوشش کی تو یقین جانیے کہ سامنے نظر آنے والے منا ظر دیکھتے ہی ایسا لگا جیسے ''شرافت بال کھولے ناچ رہی ہے‘‘۔ اچھے گھرانوں کی بظاہر تعلیم یافتہ خواتین ایک دوسرے کو دھکے دیتے ہوئے ایک مشہور برانڈ کے آئوٹ لیٹ کے اندر داخل ہونے کیلئے زور آزمائی کر رہی تھیں، کسی کا دوپٹہ نیچے گرا ہوا تھا تو کوئی اپنے بے ترتیب لباس سے بے خبر تھی۔ ایک جگہ سے اپنی پسند کے لباس خرید کر دوسرے برانڈ کی جانب لپکتی ان خواتین کو کسی چیز کا ہوش نہیں تھا۔ دیدہ زیب ملبوسات پسند کرنے کے بعد دوسرا بڑا مرحلہ کیش کائونٹر پر رقم کی ادائیگی کا تھا اور وہاں بھی لمبی لمبی قطاریں تھیں، کائونٹر تک پہنچنے کیلئے بھی طویل انتظار کا سامنا تھا۔
اس شاپنگ مال میں دیکھا جانے والا یہ منظر کسی ایک برانڈ تک مخصوص نہیں تھا بلکہ اس کے اندر ہر جانب اور وہاں موجود تمام سٹورز میں یہی منا ظر دیکھنے کو مل رہے تھے اور افسوس اس بات کا تھا کہ اپنے آپ کو خود سرعام رسوا کیا جا رہا تھا‘ کس لیے؟ صرف اور صرف محض چند سو رعایتی قیمت پر فروخت ہونے والے لباس کیلئے؟ لباس تو اپنا ستر چھپانے کیلئے خریدا جاتا ہے لیکن یہاں یہ منظر تھا کہ دھکم پیل میں لباس اپنا کام بھی ٹھیک طرح سے کرنے سے قاصر تھا۔ افسوس، صد افسوس... بے حسی اور بے شرمی پر مبنی یہ مناظر محض اسی ایک شاپنگ مال تک یا صرف ایک شہر تک محدود نہیں ہیں۔ پاکستان بھر کے بازاروں، مارکیٹوں اور شاپنگ مالوں میں اس طرح کے مناظر دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایسی لا تعداد وڈیوز موجود ہیں جن میں خواتین کو چند سو روپے کے سوٹ کے لیے ایک دوسرے سے گتھم گتھا دیکھا جا سکتا ہے، کچھ پہلے سوٹ حاصل کرنے کی تگ و دو میں ایک دوسرے کو پرے دھکیل رہی ہوتی ہیں۔ ان منا ظر کو دیکھ دیکھ کر یہی سوچ بے چین کئے جاتی ہی کہ ہماری قوم کس جانب چل نکلی ہے۔
گزشتہ سال رمضان المبارک میں جب کورونا لاک ڈائون کے بعد عید سے پہلے کچھ دنوں کے لیے بازار کھولنے کی اجازت دی گئی تو شاپنگ کے لیے لوگوں نے اپنی جانوں کو بھی خطرے میں ڈال دیا اور ایس او پیز کی پابندی کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے جس طرح بازاروں میں بھیڑ پیدا کی گئی اور غیر ضروری طور پر مارکیٹوں، شاپنگ مالز اور بازاروں کا رخ کیا گیا، اس کو دیکھ کر پوری دنیا دنگ رہ گئی تھی۔ ایسا ہی منظر یومِ آزادی اور دیگر دنوں کے مواقع پر بھی دیکھنے کو ملا، حالانکہ اس وقت پوری دنیا کورونا کے باعث لاک ڈائون تھی لیکن ہمارے ہاں معاشی سرگرمیاں بالخصوص شاپنگ سرگرمیاں پورے عروج پر نظر آ رہی تھیں۔ ایسے مواقع پر کچھ برانڈز کی جانب سے ''سیل‘‘ کے اعلانات نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ میگا سیل کہہ لیں، بلیک فرائیڈے کہیں یا اسے کوئی بھی نام دے لیں‘ اس پر معاشیات اور مارکیٹنگ کے چند ماہرین سے جب بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان بھر میں سیل کی آڑ میں مقامی اور غیر ملکی برانڈز کے نام پر محض ملبوسات بیچنے والے اربوں روپوں کا کاروبار کرتے ہیں۔ ایسے مواقع پر اپنی پسند کا لباس سب سے پہلے حاصل کرنے کیلئے خواتین کی دھینگا مشتی اور ان کے ہاتھوں میں موجود پانچ پانچ ہزار کے نوٹ دیکھتے ہوئے مجھے فورٹ عباس کے مروٹ سے کچھ کلومیٹر دور واقع صحر ا میں اونٹ چرانے والا وہ لڑکا یاد آ گیا جسے یہ پتا ہی نہیں تھا کہ سو روپے کا نوٹ بھی ہوتا ہے۔ قریب ڈیڑھ دہائی قبل مروٹ کے ارد گرد اپنی پیشہ ورانہ مشقوں پر آئے ہوئے ایک فوجی افسر نے پھٹے پرانے کپڑے پہنے مفلوک الحال اونٹ چرانے والے اس لڑکے کو پاس بلا کر پوچھا کہ اگر تمہیں سو روپے دے دیے جائیں تو تم اس کا کیا کرو گے؟ اس افسر کے ذہن میں تھا کہ شاید وہ کہے کہ وہ اپنے لئے جوتے یا لباس خریدے گا۔ جب صاحب نے سو روپے کے نوٹ والی بات کی تو سامنے کھڑا وہ بارہ سالہ لڑکا کچھ چونک سا گیا، ایسے لگا کہ اسے بات شاید صحیح طریقے سے سمجھ نہیں آئی، یا شاید وہ اس بے یقینی کی کیفیت میں تھا کہ کوئی اس جیسے غریب بچے سے اس پیار بھرے لہجے میں ایسی بات بھی کر سکتا ہے۔ وہ یہی سمجھ رہا تھا کہ وہ افسر صاحب کسی اور سے بات کر رہے ہیں، اس لئے وہ خاموش رہا، جس پر اس سے دوبارہ پوچھا گیا کہ اگر تمہیں سو روپے مل جائیں تو اس کا کیا کرو گے؟ اس پر وہ اونٹ چرانے والا لڑکا کہنے لگا ''چاچا جی! میں سو کا نہیں‘ دس کا نوٹ لوں گا‘‘۔ اس افسر نے حیران ہو کر کچھ سوچا اور پھر اپنی جیب سے پرس نکالتے ہوئے پوچھا: اچھا یہ بتائو کہ اگر تمہیں دس روپے مل جائیں تو تم اس سے کیا خریدو گے؟ اس ننھے چرواہے نے کہا کہ وہ ان دس روپوں سے اپنے لئے ڈھیر سار ی سرخ مرچیں خریدے گا۔وہاں موجود لوگ اس لڑکے کی جانب حیرانی سے دیکھنے لگے، ان میں سے ہی کسی نے سوال کیا کہ سرخ مرچیں کس کیلئے خریدو گے؟ لڑکے نے اپنے ایک اونٹ کی گردن کے ساتھ بندھی ہوئی پوٹلی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ صبح اپنے گھر سے اونٹ لے کر صحرا میں نکلتا ہے تو روٹی اور نمک اس کے پاس ہوتا ہے‘ جب بھی اسے بھوک لگتی ہے تو وہ اونٹنی کا دودھ مٹی کے پیالے میں نکال کر اس میں نمک ملا کر ساتھ لائی ہوئی روٹی کو اس میں ڈبو کر کھا لیتا ہے۔ اگر اسے دس روپے مل جائیں تو وہ سرخ مرچیں خریدے گا اور پھر دودھ، نمک اور مرچوں سے وہ ''لسن پلائو‘‘ بنائے گا اور مزے سے روٹی کھا سکے گا۔
آج جب کراچی، اسلام آباد، لاہور، ملتان، بہاولپور کے شاپنگ مالز اور بڑی بڑی مارکیٹوں کو سیل کے خوش کن بینرز اور بورڈز سے سجا ہوا دیکھتا ہوں تو فوراً اونٹ چرانے والے اس لڑکے کے الفاظ یاد آ جاتے ہیں۔ ایک جانب پاکستان کے نجانے اس چرواہے جیسے کتنے بچوں نے سو روپے کا نوٹ دیکھا ہی نہیں‘ انہیں یہ علم ہی نہیں کہ سو روپے اور دس روپے میں کیا فرق ہوتا ہے۔ انہیں صرف یہی معلوم ہے کہ ان کے گائوں کی چھوٹی سی دکان سے دس روپے کی مرچیں ملتی ہیں اور وہ ہوش سنبھالتے ہی اپنا پیٹ بھرنے اور ''لسن پلائو‘‘ کھانے کیلئے دس روپے کی لال مرچیں خریدنے کا خواب دیکھتے ہیں۔ دوسری جانب چند سو روپے بچانے والی وہ خواتین ہیں جو جگہ جگہ دھکے کھاتی ہوئی آپس میں لڑتی جھگڑتی ہیں تاکہ من پسند لباس خرید سکیں۔
اپنے دوست کے ساتھ شاپنگ مال میں گھومتے ہوئے میری نظروں کے سامنے کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہونے والے اشرف مستری کی بیوہ اور اس کے چار ماہ سے بارہ سال تک کے چار بچے گھوم گئے جو اپنے 70 سالہ بوڑھے بیمار دادا کے ساتھ ایک وقت کی روٹی کیلئے ترستے رہتے ہیں اور سر پر کھڑا گرمی کا موسم ان کی جان نکال رہا ہے کہ اب انہیں پنکھا چلانے پر بھی ہزاروں روپے کا بجلی کابل بھی دینا پڑے گا۔