تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     09-04-2021

جن کی تلاش تھی

فقیروں‘ سادھوئوں‘ سادے دیہاتی استادوں کو نہ خزانوں کی تلاش ہے‘ نہ ہم مسندِ اقتدار کے خواہاں ہیں۔ تنہائی‘ کوئی کونہ‘ شوروغل سے دور کوئی سایہ دار درخت مل جائے اور ہم وہاں بیٹھ کر جمع شدہ کتابوں کے اوراق پلٹیں۔ یہی خواہش ہے۔ جیسے کہتے ہیں کہ کسی کا خط آنے سے آدھی ملاقات ہو جاتی ہے‘ ایسے ہی کتاب کا سرورق‘ دیباچہ‘ کچھ تعارف‘ اولین ابواب‘ بنیادی نکتہ‘ کوئی اچھوتی دلیل یا زبان و بیان رنگین ہو تو دل لگا رہتا ہے۔ دقیق علمی کتابیں ہم کب کی چھوڑ چکے۔ بہت ہی قریب سے دیکھ لیا کہ سیاسی و سماجی علوم کے شعبوں میں اصطلاحی شعبدہ بازی کے سوا کچھ نیا نہ سامنے آیا ہے‘ نہ حدود اور گہرائیوں میں کوئی وسعت دکھائی دیتی ہے۔ ایک ہی مشروب کو رنگ اور بوتلیں بدل کر پیش کیا جا رہا ہے۔ میں اپنے ہی مضمون سیاسیات سے اچاٹ ہو چکا ہوں کہ اس کے کلاسیکی ادب نے جو فلسفے کی صورت میں بنیاد فراہم کی تھی‘ اس کو چھوڑ کر جب حساب کتاب اور شماریات کے ماہر شواہد کی تلوار لہراتے میدان میں اتر آئے تو منطق‘ دلیل اور ابلاغ کے لئے جگہ سکڑتی گئی۔ میں نے سیاسی دانشوری کے اس دور میں آنکھ کھولی جب فلسفہ‘ تاریخ اور قانون سیاسیات کے بنیادی ستون تھے۔ انہیں کے وسیع میدانوں میں سیاسی نظام‘ ان کے مقابل جمہوریت‘ نظریے‘ جنگیں‘ امن‘ سفارت کاری اور عالمی نظاموں کا عروج تھا اور پھر زوال‘ ان موضوعات پر بحثیں کرتے‘ پڑھتے اور پڑھاتے تھے۔ یہ چند جہتیں صرف تعارف کے لئے پیش کی ہیں‘ ورنہ سیاسیات کے زمرے میں مضامین سینکڑوں میں ہیں۔ میری موجودہ جامعہ کے ایک چھوٹے سے شعبے میں اندازاً پچاس سے کہیں زیادہ ہیں۔ میں ابھی تک روایت پسند ہوں‘ سماج اور سیاست کو اعدادوشمار کے حوالے سے دیکھنا پسند نہیں کرتا۔ مشاہدے‘ تاریخ اور فلسفے کی روشنی میں رویوں کو پرکھا جائے تو کچھ سمجھ میں آ جاتا ہے۔
اعدادوشمار میں جکڑے ماہرین سوال کرتے ہیں: کیا ثبوت ہے کہ ریاستی طاقت میں جبر ہوتا ہے‘ یا بڑی طاقتیں دوسری ریاستوں میں مداخلت اپنا حق سمجھتی ہیں‘ اور دھونس دھاندلی سے کام لینا ان کا شیوہ ہے۔ جب تاریخ کا حوالہ پیش کرتے ہیں تو اعدادوشمار کا مطالبہ کرتے ہیں۔ سیاست میں حقیقت پسندی کی جامع تشریح پروفیسر ہینز مارگھنتھائو نے چھ ابدی اصولوں کی صورت میں کی تو ہمارے علم کی نئی سرحدیں متعین ہونے لگیں‘ کیا ریاستیں طاقت کا حصول اولین مقصد خیال کرتی ہیں۔ اپنے مفادات کا تحفظ مقدس فریضہ سمجھتی ہیں۔ طاقت کے سامنے اخلاقی دلیل کمزور ہے‘ اور طاقت کو مفادات سے علیحدہ آپ نہیں دیکھ سکتے۔ انہوں نے تاریخ‘ فلسفے اور ریاستوں کے رویوں اور دو عظیم جنگوں کا مطالعہ کیا تو سیاست کا حقیقی رنگ و روپ نکھر کر سامنے آ گیا۔ خیر مقصد آپ کو علمی مباحث میں الجھانا نہیں‘ یہ بتانا مقصود ہے کہ علم کا کوئی دھارا ہو‘ ریاضت‘ مطالعہ اور کتاب کے بغیر اس کے اندر رہنا اور سفر کی منازل طے کرنا ممکن نہیں۔
ایک عرصے سے میرا ذاتی رجحان اب اردو ادب‘ آپ بیتی‘ تاریخ اور فلسفے کی طرف ہے۔ آپ سوچتے ہوں گے کہ ادب اور سیاست کا کیا رشتہ بنتا ہے؟ سیاست ادب سے اور ادب سیاست سے‘ یعنی دونوں ایک دوسرے سے عہدِ قدیم سے وابستہ ہیں۔ یونانی فلسفے اور ادب کو پڑھے بغیر ایسا ہی ہے جیسے بغیر بنیادوں کے اپنا گھر تعمیر کرنے کی ناکام کوشش کریں۔ پینتالیس سال پہلے کیلیفورنیا یونیورسٹی سانتا باربرا میں طالب علم ہونے کے ساتھ معاون معلم اور پھر ایک سال معلم بھی رہا۔ میرے عظیم اساتذہ میں سے پروفیسر راگھاون ایئر ایک تھے۔ ان کی ایک کلاس 'ادب اور سیاست‘ پر ہوا کرتی تھی۔ میں تین سال اس کورس میں معاون رہا۔ تقریباً دو سو کے قریب انڈر گریجویٹ یہ کورس لیتے‘ ہم چار معاونین ان کی مدد کرتے۔ لیکن سارے ادب کو سیاست کے حوالے سے پڑھنا زیادتی ہوگی۔ ادب کے کئی رنگ ہیں‘ سب اپنے جلووں میں جاذب نظر اور دل میں اترنے کی راہیں بنانے کے حامل۔ ابھی تک اردو ادب کے کناروں تک ہی پہنچ سکا ہوں۔ سفر زیادہ طے نہیں کر سکا‘ کہ ماضی میں علمی اور پیشہ ورانہ منزلیں کچھ اور رہیں۔ تاریخ اور سیاسی فلسفہ کے علاوہ جذبوں میں گرمی پیدا کرنے والی کوئی کتاب مل جائے تو دھیان اس طرف اٹھ پڑتا ہے۔
زیادہ تر کتابیں امریکہ میں ہی خریدیں‘ اب زیادہ تر ایک جامعہ کی لائبریری میں رکھوا دی ہیں کہ ہم فیض پا چکے‘ اب کوئی اور استفادہ کرے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ کتابیں کچھ عرصہ ساتھ رہیں‘ تو جذباتی وابستگی کسی کو مستعار دینے کی بھی اجازت نہیں دیتی۔ پھر بھی اس غلطی کا ارتکاب کئی مرتبہ کیا‘ کم ہی کسی نے کتاب واپس کی ہو گی۔ اب سانپ کی طرح پہرا دینا پڑتا ہے۔ پاکستان میں عصری موضوعات پر آئے روز کتابیں آتی رہتی ہیں‘ لیکن ایک تو وہ مہنگی ہیں‘ اور دوسرے ان کی اہمیت بس اتنی ہے کہ پڑھنا ضروری ہے‘ مگر سنبھال کر رکھنا سوائے تعداد میں اضافے کے کچھ اور نہیں۔ کئی سال پہلے ایک اکیڈمی کی شائع کردہ ایک دو کتابیں اسلامی فلسفے اور روحانیات پر خریدیں‘ تو مزہ ہی آ گیا۔ یہ وہ ایڈیشن ہیں جو مغرب میں شائع ہوئے مگر پاکستان میں دستیاب نہیں تھے۔ تصوف کے موضوع پر پروفیسر سید حسین نصر کی کتاب ان چند کتابوں میں سے تھی۔ سیاست اور سیاسی فلسفے کا کوئی بھی سنجیدہ طالبعلم سید حسین نصر کے علمی ذخیرے سے استفادہ کئے بغیر بالائی منزلیں شاید طے نہ کر سکے‘ اگر علمی میدان اسلام‘ سیاست اور مشرق وسطیٰ کے معاشرے ہوں۔ پروفیسر اعجاز اکرم انکے شاگردوں میں سے ہیں۔ آج کل وہ بھی اپنے ویرانے‘ کوٹ مومن کے قریب آبائی زمینوں پر رہتے ہیں۔ چین کی جامعات میں یا کہیں اور لیکچر دینا ہو‘ وہیں سے کرتے ہیں۔ انکی لائبریری وہاں دیکھی‘ تو سب کچھ لاہور اور اسلام آباد سے منتقل ہو چکا۔ ایک جیسی سینکڑوں کتابوں پر نظر پڑی تو سب اسی اکیڈمی کے خوبصورت جلدوں میں ری پرنٹ تھے۔ پہلی بار معلوم ہوا کہ اس اکیڈمی نے تقریباً دو سو چالیس کتابیں منتخب کرکے ان کے جملہ حقوق حاصل کرنے کے بعد یہاں طبع کرائیں‘ اور ایسی قیمت رکھی کہ اگر باہر کے کسی ملک میں خریدیں تو بلا مبالغہ دس گنا زیادہ ادا کرنا پڑے۔
کچھ کھوج لگایا تو اس بڑے کام کے پیچھے مشہور و معروف سہیل عمر صاحب نکلے جو تقریباً تیس سال تک اقبال اکیڈمی میں رہے اور ان کو اس ادارے کی سربراہی کا اعزاز بھی حاصل رہا۔ ان سے ملاقات تو دو عشرے پہلے سے ہے‘ جب میں نے انہیں طنز میں ایک کورس پڑھانے کی دعوت دی اور کئی برس وہ ہماری جز وقتی اعانت کرتے رہے۔ ان سے درخواست کی کہ سب کتابیں اس خاکسار کے پتے پر روانہ کر دیں۔ یہ کتابیں سامنے دیکھیں تو بس دیکھتا ہی رہ گیا۔ سید حسین نصر کی تقریباً آٹھ کتابیں‘ مارٹن لنگز کی سب کتابیں اور رینے گوئینون کا سب علمی ذخیرہ اپنے سامنے موجود پایا۔ اس کے علاوہ شاہ ولی اللہ‘ جمال الدین افغانی‘ منصور بن حلاج‘ ابن العربی‘ ابنِ خلدون اور امام غزالی پر تصانیف‘ جو انگریزی زبان میں یہاں عام طور پر دستیاب نہیں‘ ایک ساتھ مل گئیں۔ سہیل صاحب نے بتایا کہ یہ اکیڈمی ان کی نہیں‘ بلکہ ایک اور سہیل صاحب ہیں‘ جو گزشتہ چالیس برسوں سے عربی اور فارسی کے کلاسیکی ادب کو چھاپتے رہے ہیں۔ ان کتابوں کا انتخاب‘ حقوق کا حصول اور تدوین کا کام سہیل عمر صاحب نے ہی کیا‘ اپنا سرمایہ لگایا‘ اور مقصد نفع کمانا نہیں‘ بلکہ پاکستان میں رہتے‘ کام کرتے اساتذہ اور طالب علموں کیلئے کم قیمت میں یہ کتابیں فراہم کرنا تھا۔ ان میں اکثر کتابوں کی ایک عرصہ سے تلاش تھی‘ کتنا خوش قسمت ہوں کہ سہیل عمر صاحب کی مہربانی اور کاوش سے دو سو پینتیس کتابیں گھر بیٹھے موصول ہو گئیں۔ کاش ہمارے سرکاری ادارے بھی ایسے ہی کام کرتے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved