حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ پچھلے ایک سال میں بیرونی کمرشل بینکوں سے لیے گئے 3 ارب ڈالر قرضوں پر سود کی ادائیگی کے وقت ٹیکس نہیں کاٹا جائے گا۔ پچھلے دو ماہ میں وفاقی کابینہ نے 5.5 ارب ڈالر قرضوں پر ٹیکس ریلیف دیاہے جو معمول کی شرحِ سود سے زیادہ شرح پر حاصل کیے گئے تھے۔ ان میں اڑھائی ارب ڈالرز یورو بانڈز کے ہیں۔ اس پروگرام کی شروعات اڑھائی ارب ڈالر کے یورو بانڈز کو جاری کرنے سے ہوئی تھی۔ وزارتِ خزانہ نے کابینہ کو بتایا ہے کہ اگر ٹیکس چھوٹ نہیں دی جائے گی تو سرمایہ کار دلچسپی نہیں لیں گے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پچھلے ایک سال کے قرضوں کے منافع پر ٹیکس چھوٹ کس وجہ سے دی گئی ہے؟ یہ قرض تو وصول ہو چکے ہیں۔ اگر کوئی منصوبہ بندی کرنا بھی تھی تو آنے والے قرضوں کے لیے آفر دی جا سکتی تھی۔ کیا یوروبانڈز سے شروع ہونے والے اس ریلیف کا مقصد من پسند لوگوں کو فائدہ پہنچانا اور مستقبل میں مزید قرض حاصل کرنے کی راہ ہموار کرنا تو نہیں؟ پہلے ہی انتہائی بلند شرحِ سود پر قرض حاصل کیے گئے ہیں، پوری دنیا میں قرض کی شرح اعشاریہ پانچ فیصد سے ایک فیصد تک ہے جبکہ پاکستان میں چھ سے آٹھ فیصد تک شرح پر سود دیا جاتا ہے۔ اس منافع پر ٹیکس اچھی آمدن کا ذریعہ تھا لیکن اب ایک طرف شرح سود زیادہ ہے اور دوسری طرف منافع یعنی ٹیکس بھی وصول نہیں ہو گا مطلب دو طرفہ نقصان۔
اگر کمرشل بینکوں کی طرف نظر دوڑائیں تو ان میں چائنا ڈویلپمنٹ بینک، بینک آف چائنا، انڈسٹریل اینڈ کمرشل بینک آف چائنا، کریڈٹ سویز بینک، ایمریٹس این بی ڈی،اجمان بینک،ایکو ٹریڈ اینڈ ڈویلپمنٹ بینک اور دبئی اسلامک بینک شامل ہیں۔ اس وقت ایکو بینک سے 40 ملین ڈالرز، اجمان بینک سے 110 ملین ڈالرز، بینک آف چائنا سے 500 ملین ڈالرز، چائنا ڈویلپمنٹ بینک سے 1 بلین ڈالرز، انڈسڑیل کمرشل بینک آف چائنا سے 500 ملین ڈالرز، دبئی اسلامک بینک سے 405 ملین ڈالرز، کریڈٹ سویز سے 115 ملین ڈالرز اور ایمریٹس این ڈی بی سے 370 ملین ڈالرز قرض لے رکھا ہے۔ اس کے علاوہ مزید بینکوں سے قرض لینے کے لیے درخواستیں جمع کروا رکھی ہیں۔ ان قرضوں کی بدولت پاکستان کے ڈالر ذخائر میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ آئی ایم ایف سے پانچ سو ملین ڈالرز موصول کرنے کے بعد ڈالر ذخائر تیرہ اعشاریہ سات ارب ڈالر ہو گئے ہیں۔ یوروبانڈز کے اڑھائی ارب ڈالرز اگلے ہفتے موصول ہو جائیں گے جس کے بعد ڈالرز ذخائر 16 ارب ڈالرز سے زیادہ ہو جائیں گے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کو ان قرضوں کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ دراصل سعودی عرب کو تین ارب ڈالرز کی ادئیگی کے بعد ڈالرز ذخائر 10 ارب سے کم رہ گئے تھے۔ حکومت کی کوشش تھی کہ کسی بھی حالت میں ڈالرز کے ذخائر ڈبل ڈیجیٹ میں رہیں تا کہ روپے پر زیادہ زور نہ پڑ سکے۔ اسی لیے دو ارب ڈالر چین سے لے کر سعودی عرب کو قرض واپس کیا گیا۔ یاد رہے کہ دو ارب ڈالرز چین سے براہ راست قرض لیا گیا جبکہ ڈیڑھ ارب ڈالر جو چین کو واجب الادا تھا‘ اس کی مدت ایک سال کے لیے مزید بڑھا دی گئی جسے سعودی عرب کو مزید ایک ارب ڈالر دینے کے لیے استعمال کیا گیا۔ یعنی ایک ارب ڈالر کا آوٹ فلو ایکسٹرا ہوا۔ اس کے بدلے میں نئے ڈالرز نہیں ملے تھے۔ ابھی ایک ارب ڈالر سعودی عرب ا ور ایک ارب ڈالر متحدہ ارب امارات کا قرض نہیں چکانا پڑا کیونکہ ان کی مدت ایک سال کے لیے بڑھا دی گئی ہے۔اگر ایسا ہو جاتا تو مزید قرض لینا پڑتا جو عمومی سود پر نہیں مل سکتا تھا۔ اس طرح کے قرضوں کی شرائط زیادہ سخت ہو سکتی تھیں۔ سعودی عرب کا پہلا ایک ارب ڈالر واپس کرنے کے لیے چین نے جو قرض دیا تھا وہ انتہائی مناسب ریٹ پر تھا لیکن جب دوسرے قرض کی ادائیگی کے لیے مزید ایک ارب ڈالر قرض مانگا گیا تو اس کی شرحِ سود پہلے کی نسبت زیادہ تھی۔ اسی تناسب کو مدنظر رکھ کر یہ خدشہ پیدا ہو چلا تھا کہ تیسرے قرض کی شرائط زیادہ سخت ہو سکتی ہیں۔فی الحال مدت بڑھائے گئے قرض پر وہی شرائط لاگو ہو رہی ہیں جو قرض لیتے وقت طے کی گئی تھیں۔ ان حقائق کے باوجود چین سے درخواست یہ کی گئی تھی کہ مزید ایک ارب ڈالر قرض دے دیں اور واجب الادا قرض کی مدت بھی ایک سال کے لیے بڑھا دیں لیکن تاحال منظوری نہیں مل سکی۔
میں یہاں پر یہ ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ تصویر کا صرف ایک رخ نہ دکھایا جائے‘یہ دعویٰ کر دینا کہ عوام تسلی رکھیں‘ قرضوں سے ڈالر ذخائر میں اضافہ ہو رہا ہے‘ کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ ڈالرز ذخائرایک مدت تک اپنی جگہ پر قائم رہیں لیکن اس دوران سود کی مد میں ایک بھاری رقم کا بھی اضافہ ہو جائے گا۔ وزیراعظم صاحب پہلے ہی تقریروں میں سود کے بوجھ کو معیشت کی ترقی میں بڑی رکاوٹ قرار دے چکے ہیں۔اس کے باوجود قرضوں پر زیادہ انحصار کرنا تشویش ناک امر ہے۔ دسمبر تک مجموعی عوامی قرض سینتیس اعشاریہ پانچ ٹریلین روپے تک بڑھ چکا ہے جو پاکستانی معیشت کے کل حجم کا بیاسی اعشاریہ دو فیصد ہے۔ورلڈ بینک نے پیش گوئی کی ہے کہ جون تک یہ شرح 94 فیصد سے بھی بڑھ جائے گی۔ ذہن نشین رکھیے کہ کہ اس میں بیرونی قرض 35 فیصد سے زائد ہے۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق‘ موجودہ مالی سال کے پہلے چھ مہینوں میں عوامی قرض 1.1 ٹریلین روپے بڑھا ہے جس کی وجہ سود کی رقم میں اضافہ ہے۔البتہ موجودہ مالی سال کے پہلے آٹھ مہینوں میں پاکستان کا کرنٹ اکائونٹ سرپلس رہا ہے۔ اس کی وجہ بیرونِ ملک پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلاتِ زر میں اضافہ ہے لیکن درآمدات اور برآمدات کے فرق سے پیدا ہونے والا تجارتی خسارہ جولائی2020ء سے مارچ 2021ء تک 20 ارب ڈالر ہو گیا ہے۔ درآمدات میں اضافہ برآمدات سے دو گنا بڑھ گیا ہیاس کی وجہ لارج مینوفیکچرنگ سکیل کی پیداوارمیں سات فیصد اضافہ ہے یعنی صنعتوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے جن کی مشینری اور خام مال بیرونِ ملک سے درآمد کرنا پڑتا ہے۔
ایک طرف قرض بڑھ رہے ہیں اور دوسری طرف مہنگائی پچھلے نو ماہ کی بلند ترین سطح پر آگئی ہے۔ مارچ میں مہنگائی کا سکیل 9.05 ریکارڈ کیا گیا ہے۔فروری میں یہ 8.7 جبکہ جنوری میں 5.7 تھا۔ ویسے یہ جو کچھ ہو رہا ہے‘ معاشی اصولوں کے عین مطابق ہے، اس میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے کیونکہ جب قرض بڑھتے ہیں تو مہنگائی بھی بڑھتی ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے لیکن عوام اس فارمولے کو سمجھنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ بین الاقومی معاشی اصول کیا ہیں اور حساب کتاب میں کس طرح جیت‘ ہار کا تعین کیا جاتا ہے عام آدمی کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ اس کے لیے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے زیادہ وہ چار پانچ لوگ اہم ہیں جو اس کے زیرِ پرورش ہیں۔ اربوں ڈالر آئیں، چین مدد کرے یا سعودی عرب قرض واپس مانگ لے‘ اس سے ملکی اور عالمی معاشیات تو اثر انداز ہوتی ہے لیکن گھر کی معیشت پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ گھر کی معیشت پر مہنگائی اثر انداز ہوتی ہے۔ پچھلے ستر سالوں کی تاریخ سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ملک شاید عام آدمی کے لیے نہیں بلکہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے عالمی اداروں کے لیے بنایا گیا ہے کیونکہ پالیسی بظاہر انہیں دیکھ کر ہی طے کی جاتی ہے۔ حکومت سے گزارش ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں کا خیال ضرور کرے لیکن مہنگائی کو کم کرنے کے لیے بھی اقدامات کرے تا کہ عوام میں یہ تاثر مضبوط ہو سکے کہ حکومت عوام کی پریشانیوں سے واقف ہے اورعام آدمی کو ریلیف دینے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔