تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     04-07-2013

اللہ خیر کرے!

حالات کی بپھری ہوئی لہروں میں پاکستانی سیاست ہچکولے کھا رہی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ تسبیح ٹوٹ چکی اور موتی بکھر رہے ہیں ۔ جنرل مشرف کے خلاف کارروائی اور الطاف حسین کی تقریر کے درمیان جنرل کیانی کا انتباہ کسی نے سنا ہی نہیں : خطے میں طاقت کا توازن اور استحکام چاہتے ہیں اور کسی کی بالادستی قبول نہیں ۔ جنرل صاحب کی مراد بھارت سے تھی ، کرسی سر پہ اٹھائے جو دوحہ مذاکرات میں گھسنے کو بے تاب ہے ۔ 11ستمبر2001ء کے بعد بھارت نہیں ، یہ پاکستان تھا ، جس نے امریکہ کے ہمراہ ایک گہری کھائی میں چھلانگ لگادی تھی اور آج تک گرتا ہی چلا جا رہا ہے ۔ جنگ کے اختتام پر \"انصاف پسند\"اور\"غیر جانبدار \"تجزیہ نگار بتارہے ہیں کہ افغانستان فتح کرنے کی کوشش سے ہمیں باز آنا چاہئیے ۔وہ بھول جاتے ہیں کہ یہ سویت یونین اور امریکہ تھے، جنہوںنے افغانستان پر چڑھائی کی ۔ 100بلین ڈالر کا نقصان اور 50000 لاشیں پاکستانیوں کی گریں اور دیوانگی بھارت پہ طاری ہے ۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی جب بھارتی بالادستی کی مزاحمت کا اعلان کر رہے تھے ، عین اسی وقت وزیر اعظم نواز شریف نے بتایا کہ پاک چین دوستی کسی ملک کے خلاف نہیں۔ یہ بھی کہ بھارت کے ساتھ دوستی اور تعاون کی پالیسی جاری رہے گی۔بے شک یہ دونوں طرف کے سیاستدانوں اور میڈیا کی ذمے داری ہے کہ خوشگوار تعلقات استوار کریں۔ صورتِ حال لیکن یہ ہے کہ افغانستان میں ایک خفیہ پاک بھارت جنگ جاری ہے ۔ دوستی کہاں اورامن کی \"بھاشا\"کہاں ، فی الحال ماحول بہتر بنانے کی ایک ذرا سی کوشش کی جا سکتی ہے ۔ا من تب قائم ہوگا جب نشہ اترے گا، جب \"سپر پاور\"بننے کا جنون اُترے گا۔ ؎ خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا خدا بنے تھے یگانہؔ ، بنا نہ گیا دو بے حد اہم سوال ہوا میں معلّق ہیں ۔ جنرل مشرف کے خلاف کارروائی کیا فوجی آمر تک محدود رہے گی یافوج، سیاستدانوں اور دوسرے اداروں میں ان کے مددگاربھی جلد یا بدیر کٹہرے میں کھڑے ہوں گے ۔ دوسرا سوال الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے مستقبل کا ہے ، جن سے کراچی کی قسمت جڑی ہے ، ہماری معاشی شہ رگ کی۔ دونوں معاملات پاکستانی سیاست کو تہ بالا کرسکتے ہیں ۔ لندن کی پولیس اور عدالت انصاف کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہیں ۔ امید بھی ان سے یہی ہے ۔ادارے وہاں مضبوط ہیں اور اپنے دائرہ کار میں پوری آزادی سے کام کرتے ہیں ۔ یہاں تو عمریں بیت جاتی ہیں، مخلوق مٹ جاتی ہے اور حشر اٹھانا تودور کی بات ، کانوں پہ جوں تک نہیں رینگتی۔ فی الحال صبر سے بیٹھیے اور عمران فاروق کے لہو کو قاتل ڈھونڈنے دیجئے۔ 3نومبر 2007ء کی ایمرجنسی کوذرا یاد کیجئے۔ جولائی میں جسٹس خلیل الرحمٰن رمدے کی سربراہی میں 13رکنی بنچ نے معزول چیف جسٹس کو بالآخر بحال کر دیا تھا۔ افتخار محمد چوہدری اب پہلے سے زیادہ طاقتور تھے اور بلا جھجک فیصلے سناتے تھے۔ 6اکتوبر 2007ء کو صدارتی الیکشن منعقد ہونا تھا اور جنرل مشرف مزید پانچ برس چاہتا تھا۔ قاف لیگ بری طرح نا مقبول تھی ۔ شریف برادران کو پاکستان قد م رکھنے اجازت نہ تھی ۔ صدارتی الیکشن کے چند ماہ بعد عام انتخابات ہونا تھے ۔چہار سو بے یقینی تھی۔ سوال بہت اور جواب ایک بھی نہیں ۔ اپوزیشن جماعتیں ایک منصوبہ بنا رہی تھیں ۔ ۔۔پرویز مشرف کو نکال باہر کرنے اور اس کی موجودگی میں الیکشن کا بائیکاٹ ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کا اپنا ایک منصوبہ تھا ۔ اپنا کہاں ، افغانستان میں جھک مارتے امریکہ نے ان کے ذہن میں انڈیل دیا تھا۔ قاف لیگ اور پیپلز پارٹی کی مشترکہ حکومت ۔قوم آمریت سے حالتِ جنگ میں تھی اور بے نظیر بھٹو کی سربراہی میں پیپلز پارٹی سودا طے کرتی تھی۔ سب سے ابتر صورتِ حال شریف برادران کی تھی ۔ ان کے پاس کوئی منصوبہ نہ تھا۔ عرشِ بریں کا مالک مسکرا رہا تھا۔ اس کی چال سب سے عمدہ تھی ۔ اپوزیشن کے صدارتی امیدوار جسٹس وجیہ الدین احمد نے الیکشن کمیشن سے باوردی پرویز مشرف کو نا اہل کرانے کی ناکام کوشش کے بعد سپریم کورٹ کا رخ کیا۔ چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری جرات مندی سے فیصلے صادر کرر ہے تھے لیکن ان کے پاس فوج تھی اور نہ ٹینک۔ جنرل مشرف کو کیسے وہ نا اہل قرار دیتے ؟انہوںنے حکم جاری کیا کہ جنرل مشرف صدارتی الیکشن لڑ سکتے ہیں لیکن سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے تک الیکشن کمیشن نتائج کا اعلان نہیں کر سکتا ۔ بے نظیر مشر ف مذاکرات کامیاب رہے۔ مخدوم امین فہیم کو صدارتی امیدوار نامزد کیا گیا کہ الیکشن کو ساکھ عطا کی جا سکے ۔ 5اکتوبر 2007ء کو پرویز مشرف نے این آر او جاری کیا۔6اکتوبر کے صدارتی الیکشن میں جیت وہ گیا لیکن الیکشن کمیشن نے فتح کا اعلان نہ کیا۔ پرویز مشرف کی نا اہلی کا مقدمہ عدالت میں تھا ۔ ججوں کو کوئی جلدی نہ تھی لیکن پرویز مشرف کا سانس توحلق میں اٹکا تھا۔ ایک جج نے سارا مزہ کرکرا کر ڈالا تھا۔ 5نومبر2007ء کو سماعت ہونا تھی لیکن 3نومبر کو جنرل نے ایمرجنسی لگا دی ۔ پی سی او جاری ہوا اور جج فارغ ہوگئے ۔ جنرل کسی سے \"ڈرتا ورتا\"نہ تھا! بروقت ایمرجنسی کی بھنک پا کر جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سات رکنی بنچ نے ایک عبوری حکم جاری کیا ۔ مسلّح افواج کو حکم دیا گیا کہ غیر قانونی حکم کی اطاعت نہ کریں ۔ ایسا نہ ہو سکا۔ 111بریگیڈ سپریم کورٹ میں داخل ہوئی او رمعزز جج گرفتار کر لیے گئے۔ آمریت قہقہے لگا رہی تھی۔ انصاف شرمندہ تھا! 24نومبر2007ء کو ڈوگر کورٹ نے صدارتی الیکشن ،ایمر جنسی اور پی سی او، سب پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی ۔ 28نومبر 2007ء کو پرویز مشرف نے آرمی کی کمان جنرل کیانی کے سپرد کی اوراگلے دن صدر بن بیٹھا۔یہ 2007ء کا اختتام تھا، جب ایمر جنسی ختم کر دی گئی ۔ سب مقاصد حاصل کیے جا چکے تھے کہ بے نظیر بھٹو کو قتل کر دیا گیااور پاکستانی سیاست ایک نیا موڑ مڑ گئی۔عجیب یہ کہانی ہے ۔ بہت سی باتیں ہیں ، جو لکھی جا نہیں سکتیں ۔ عروج و زوال کا صرف ایک قصہ ختم ہو اہے ، دوسراجاری و ساری ہے ۔ہاں ، کردار بدل گئے ہیں اور انہیں اپنی کامیابی کا اتنا ہی یقین ہے ، جتنا پچھلوں کو تھا۔ اللہ خیر کرے !

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved