پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ اپنے داخلی معاملات میں الجھ کررہ گئی ہے۔ اے این پی اسے چھوڑنے کا اعلان کرچکی، جبکہ پیپلزپارٹی سے کھینچا تانی جاری ہے۔ پیپلزپارٹی بآسانی اس اتحاد کا ساتھ چھوڑتی نظر نہیں آتی، جسے اُس کے اپنے بقول اسی کی دعوت پر تشکیل دیا گیا۔ مولانا فضل الرحمن مدظلہ العالی اور محترمہ مریم نواز شریف کی طبیعت ناساز ہے۔ دونوں کی سرگرمیاں معطل ہیں۔ مولانا کی طرف سے تو نہ کچھ سنائی دے رہا ہے، نہ دکھائی دے رہا ہے، جبکہ مریم بی بی ٹویٹر پراپنے وجود کا ثبوت دینے لگی ہیں۔ ان کے پیغامات کا سلسلہ ٹوٹ کر پھر جڑگیا ہے۔ ڈسکہ میں دوبارہ نتخاب ہورہا ہے، پیپلزپارٹی نے اپنا وزن مسلم لیگ(ن) کے پلڑے میں ڈالے رکھنے کا اعلان کرکے داد وصول کرلی ہے۔ فریقین کی طرف سے جیت کے دعوے کیے جارہے ہیں۔ یہ سطور لکھے جانے تک پولنگ جاری ہے‘ جب یہ پڑھی جا رہی ہوں گی تو دودھ اور پانی الگ الگ ہوچکے ہوں گے۔ پولنگ امن و سکون کے ساتھ جاری ہے۔ الیکشن کمیشن نے معاملات کو شدت سے ہاتھ میں لے رکھا ہے۔ پہلے کاسا جوش و خروش نظر نہیں آ رہا، لیکن دونوں امیدواروں کے حامی اپنی اپنی جگہ پکے ہیں۔ نتیجہ آنے کے بعد بھی الزامات ختم نہیں ہوں گے کہ خوش دِلی سے اپنی شکست تسلیم کرنے کا حوصلہ ابھی ہمارے اہلِ سیاست میں پیدا نہیں ہوا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ گزرتے وقت کے ساتھ بیتابی میں اضافہ ہورہا ہے، اور قوتِ برداشت مسلسل کم ہوتی جارہی ہے۔ اہلِ سیاست کواس کمزوری پرقابو پانا ہو گا کہ جمہوریت ایک دوسرے کو تسلیم کرنے سے فروغ پاتی، اور اپنے مثبت اثرات دکھاتی ہے۔ پاکستان ایک دستوری مملکت ہے۔ یہاں نہ تو کسی کی بادشاہت قائم ہوسکتی ہے، نہ ہر شے کو زیروزبر کرنے کے نعرے لگانے والے کوئی خدمت کرسکتے ہیں۔ یہ جو دن رات نظام کوصلواتیں سنائی جاتی ہیں، اور انتظامیہ کوالٹ پلٹ کرنے کی کوششیں زوروں پر دکھائی دیتی ہیں، یہ سب دستوراور اپنے کردارکو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ دستور کے مطابق حکومت پانچ سال کیلئے قائم ہوتی ہے، اور اسے ایک مخصوص دائرے میں اپنا اختیار استعمال کرنا ہوتا ہے۔ صوبائی حکومتیں اپنے دائرے میں آزاد ہیں تووفاقی حکومت اپنے دائرے میں۔ مقامی حکومتیں اپنے دائرے میں اپنا کردارادا کرنے کی مجاز ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں مقامی حکومتوں (بلدیاتی اداروں) کی اہمیت کا احساس نہیں کیا جا سکا، اہلِ سیاست نے اس حوالے سے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ارکان اسمبلی کی حرص و ہوس نے بلدیاتی اداروں کو حریف کے طور پر دیکھا ہے، معاون کے طور پر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دستور میں اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے جہاں صوبوں کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا‘ وہاں بلدیاتی اداروں کو تحفظ دینے اور ان کی معاشی و انتظامی حیثیت کو مستحکم بنانے کیلئے کوئی اہتمام نہیں کیا گیا۔ نتیجتاً جو اختیارات صوبوں کو منتقل ہوئے وہ وہیں منجمد ہوکر رہ گئے۔ صوبائی حکومتیں اپنے راجواڑے بنانے پر بضد ہو گئیں۔ پاکستانی سیاست کی بے راہروی کا یہ عالم ہے کہ یہاں صوبائی وزیر اور اہلکار وزیراعظم اور وفاقی حکومت پر تنقید کرنے، اور طعن و تشنیع کے تیر برسانے کو اپنا حق سمجھتے ہیں، جبکہ وفاقی حکام صوبائی حکومتوں کے لّتے لینے پر بضد رہتے ہیں۔ نظم وضبط اور آداب واخلاق کا تقاضا ہے کہ کسی صوبائی عہدیدار کو وزیراعظم اور کسی وفاقی عہدیدار کو کسی وزیراعلیٰ کو نشانہ بنانے کی اجازت نہ دی جائے۔ سیاسی مشاعرے سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کیلئے مختص رہنے چاہئیں، وہ اپنی اپنی غزلیں اور دو غزلے بلکہ سہ غزلے وہاں پڑھ کر سناتے رہیں۔ انتظامی عہدیدار آئینی منصب داروں کو نشانہ بنانے کی جسارت نہ کر پائیں۔ صدر، وزیراعظم‘ وزیراعلیٰ سب کو ادارہ جاتی احترام کی روایت پختہ بنانی چاہیے۔
پنجاب کے بلدیاتی اداروں کو تحریک انصاف کی حکومت نے تہ تیغ کر ڈالا، سپریم کورٹ نے اس اقدام کو غیرقانونی اور غیرآئینی قرار دے دیا، لیکن ابھی تک بلدیاتی اداروں کو کام کرنے کا موقع نہیں دیا جارہا۔ دفاتر ان کیلئے بدستور بند ہیں۔ ہرروز کہیں نہ کہیں ان اداروں کے ارکان دروازہ کھٹکھٹاتے دکھائی دیتے ہیں، لیکن انہیں کھول نہیں پاتے۔ عدالت کا حکم ہوا میں اڑا دیا گیا ہے۔ توہین عدالت کی درخواست دائر ہوگی تو خدا معلوم کب اور کیا اقدام ہوگا۔ بات پی ڈی ایم کی زبوں حالی سے شروع ہوئی تھی، اس نے حکومت کو سنبھلنے کا ایک اور موقع دے دیا ہے، لیکن وہ اس سے فائدہ اٹھا نہیں پا رہی۔ اس کے داخلی تضادات ابھر کرسامنے آ رہے ہیں۔ احتساب کے نام پرہونے والی کارروائیوں پر اپنے بھی چیخ اٹھے ہیں۔ جہانگیر ترین کہ شوگر انڈسٹری میں جن کا حصہ 20 فیصد کے قریب ہے، ایف آئی اے کی زد میں ہیں، ان پراور ان کے بیٹے پر مقدمات قائم کیے جا رہے ہیں۔ بینک اکائونٹس منجمد کردیے گئے ہیں، وہ عدالتوں سے ضمانتیں حاصل کرنے میں لگے ہیں، لیکن ساتھ ہی ساتھ تحریک انصاف کے اندر اپنی طاقت کا مظاہرہ بھی کرتے جارہے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے بائیس اور قومی اسمبلی کے آٹھ ارکان انکے کندھے سے کندھا ملاکر کھڑے ہیں، اور حکومت کے اندر موجود بعض غیر منتخب افراد کو ملزم قراردے رہے ہیں۔گویا تحریک انصاف کی وفاقی اور پنجاب حکومت کی عددی اکثریت شدید خطرے میں ہے؛ اگرچہ ابھی تک وزیر اعظم کے خلاف بغاوت کا پرچم نہیں لہرایا گیا، اختلاف کرنے والے ان کواپنا لیڈر تسلیم کرتے اورانہی سے توقعات وابستہ کرتے نظرآتے ہیں، لیکن سیاست کی اپنی زبان ہوتی ہے، یہ زبان بہت کچھ ایسا کہہ رہی ہے جسے سننے اور سمجھنے کیلئے کسی افلاطونی بصیرت کی ضرورت نہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے معاونین اور مصاحبین اپنے سابق سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین کے خلاف اقدامات کو میرٹ کا کرشمہ قراردے رہے ہیں۔ قانون سب کیلئے ایک ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے، لیکن معاملہ اتنا سادہ اور آسان نہیں۔ جہانگیر ترین ہوں، یا اٹھارہ، انیس دوسری شوگر ملیں، احتساب کا ایسا طریقہ دُنیا میں کہیں رائج نہیں۔
حکومت کے مخالف ہوں یا حامی، برسوں پرانے، اور طے شدہ معاملات کی کرید پڑتال کرکے اگر اب مقدمات بنائے جائیں گے تواس سے نہ سیاست چلے گی نہ بزنس چل سکے گا۔ پاکستانی ریاست پہلے ہی وسائل کی کمی کا شکار ہے، اس کی صنعتی استعداد بہت محدود ہے، اس کی جی ڈی پی پھیلی نہیں سکڑی ہے، اسے کاروبار کے مواقع وسیع کرنے اور سرمایہ کاروں کے حوصلے بلند کرنے کی ضرورت ہے کہ اس کے بغیر دولت پیدا نہیں کی جا سکتی۔ دولت پیدا نہیں ہوگی تو ٹیکس وصولیوں میں کیسے اضافہ ہوگا؟ یہ اضافہ نہیں ہوگا تو ریاست اپنے اخراجات پورے کرنے کے قابل نہیں ہوگی، اس کا کشکول بڑا ہوتا جائے گا۔ اس لیے صنعتی شعبے میں جس اصلاح کی، اور جس تبدیلی کی ضرورت ہے، وہ سٹیک ہولڈرز کا اعتماد حاصل کیے بغیر ممکن نہیں ہوگی۔ پاکستانی صنعتکاروں کو فیصلہ سازی میں شریک کیے اور ان کا اعتماد حاصل کیے بغیر پاکستان کو خوشحال نہیں بنایا جا سکتا۔ یہ بات ہراُس شخص کو کان کھول کر سن لینی چاہیے، جو پاکستان کی حفاظت کا دعویٰ رکھتا، اوراس کے محفوظ مستقبل کی خاطر جان کی بازی لگانے کو تیار رہتا ہے۔ منفی سوچ کے حامل غیرذمہ دار تو وقت آنے پر بریف کیس اٹھا کر بھاگ جائیں گے، 22کروڑ عوام کو یہیں رہنا ہے، ان کی زندگی آسان بنائیے۔ چینی کی قیمت پرجو جھگڑا شروع ہوا ہے، تفتیشی اداروں کی مداخلت نے اسے بگاڑا ہے۔ گنے اور چینی دونوں کو آزاد مارکیٹ کے سپرد کردیجیے، یا دونوں کی قیمت کا منصفانہ تعین کرنے کا انتظام کیجیے۔ ڈنڈا گھمانے سے سر تو پھٹ سکتے ہیں، دِل نہیں جیتے جا سکتے اور ترقی بھی نہیں ہو سکتی۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)