میں اکثر لکھتا اور کہتا رہتا ہوں کہ فرعونوں کے زمانے سے حسنی مبارک تک‘ مصر میں حکومت کرنے کا ایک ہی طریقہ رائج رہا ہے اور وہ ہے آمریت۔ جس ملک نے ہزاروں سال سے جمہوریت نہ دیکھی ہو‘ وہاں اچانک جمہوری نظام نافذ بھی ہو جائے‘ تو اسے چلانے والے کہاں سے آئیں گے؟ صدر محمدمورسی ‘ مصر کی تاریخ میں پہلے منتخب صدر تھے۔ لیکن وہ‘ جس جماعت کی نمائندگی کر رہے تھے‘ وہ بنیادی طور پر ایک مذہبی جماعت ہے اور مولوی حضرات کے اسلام میں جمہوریت کی گنجائش نہیں ہوتی۔ گزشتہ روز بھی عرض کیا تھا کہ دنیا کے ہر مسلم ملک میںیہ تضاد موجود رہتا ہے۔ مولوی حضرات ‘ مذہبی نظام حکومت کا جو خاکہ پیش کرتے ہیں‘ اس میں جمہوری اصولوں کی گنجائش نہیں ہوتی۔ مذہب کے نام پر شخصی آزادیوں کو سلب کیا جاتا ہے۔ جبکہ جمہوریت کی بنیاد ہی فرد کی آزادی ہے اور مصر جیسا ملک‘ جو ہمیشہ آمریت کے تسلط میں رہا ہو‘ وہاں پر جمہوریت کا تجربہ اور وہ بھی ایک ایسی جماعت کی قیادت میں‘ جو شخصی آزادیوں پر یقین نہ رکھتی ہو‘ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ صدر مورسی نے اقتدار سنبھالتے ہی تصادم کا راستہ اختیار کر لیا تھا۔ سب سے پہلے انہوں نے حکومت چلانے کے لئے اپنی جماعت پر انحصار بڑھانا شروع کر دیا اور مختلف نظریات رکھنے والوں کونظرانداز کرنے کی پالیسی اختیار کی۔ یہاں تک کہ آمریت کے خلاف جدوجہد میں‘ جن دوسری جماعتوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا‘ انہیں بھی ساتھی نہیں بنایا گیا۔ مخالفین کی سرگرمیاں محدود کرنے کے لئے ریاستی مشینری کا استعمال کیا گیا۔ میڈیا پر پابندیاں لگائی گئیں۔ عوام کے مسائل حل کرنے پر توجہ نہ دی جا سکی۔ روٹی اور پٹرول کا راشن کیا گیا‘ جس کا عوام کو تو کوئی فائدہ نہ پہنچا البتہ چوربازاری کرنے والوں نے خوب ہاتھ رنگے۔ امن و امان کی حالت خراب سے خراب تر ہوتی گئی۔ قاہرہ جیسے شہر میں بھی راہزنی اور لوٹ مار کے واقعات میں اضافہ ہو رہا تھا۔ جس حکومت کو ایک متذبذب انتظامیہ ‘ شکوک میں مبتلا فوج اور متحرک سیاسی مخالفین کا سامنا ہو‘ اسے محاذآرائی سے گریز کرنا پڑتا ہے۔ ہمارا حال کافی حد تک مصر سے ملتا جلتا ہے۔ ہم بھی طویل عرصے تک آمریتوں کے تجربات سے گزرے ہیں اور ہمارے ہاں بھی جمہوریت کبھی استحکام حاصل نہیں کر سکی۔ تھوڑے تھوڑے وقفوں کے لئے بحال بھی ہوئی ‘ تو اس کے سر پر خطرات منڈلاتے رہے اور خود سیاستدان ہی جمہوری حکومتوں کے خاتمے میں مددگار اور معاون بنتے رہے۔ موجودہ جمہوری دوربھی خطرات سے محفوظ نہیں رہا۔ سابقہ منتخب حکومت نے اقتدارمیں آتے ہی‘ بنیادی پالیسیوں پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ مگر صدر زرداری کو جلد ہی سمجھ آ گئی کہ وہ نصف صدی سے زیادہ عرصے میں پختگی حاصل کرنے والے مائنڈسیٹ کو تیزرفتاری سے تبدیل نہیں کر پائیں گے اور نہ ہی ان مفادات پر ضرب لگا سکیں گے‘ جن کی جڑیں برسوں نہیں بلکہ عشروں کے دوران گہری اور مضبوط ہوئی ہیں۔ میرا اشارہ پاک بھارت تعلقات کی طرف ہے‘ جو ہماری حکومتی پالیسیوں میں بنیادی پتھر کی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے بھارت سے تعلقات میں تبدیلی لانے کی جو ابتدائی کوششیں کیں‘ ان سے حکومت کے لئے خطرات پیدا ہونے لگے تھے۔ لیکن وہ جلد ہی سنبھلے اور انہوں نے حالات کے ساتھ سمجھوتہ کر کے‘ تمام سیاسی قوتوں کو اس بات پر قائل کر لیا کہ باہمی سیاسی کشمکش ایک بار پھر غیرجمہوری قوتوں کو واپسی کے مواقع مہیا کرے گی۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ ایسا کوئی بحران پیدا نہ کیا جائے‘ جس کا فائدہ اٹھا کر‘ غیرجمہوری قوتیں پھر سے مسلط ہو جائیں۔ پاکستان کی تمام پارلیمانی جماعتوں نے سمجھداری کا ثبوت دیتے ہوئے سیاسی محاذ آرائی کی صورتحال پیدا نہیں ہونے دی۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان میں کسی منتخب حکومت کو 5سال تک اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا موقع ملا۔ اس کے لئے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں تحسین کی مستحق ہیں۔ خصوصاً حزب اختلاف کے سب سے بڑے لیڈر نوازشریف نے تمام ترغیبات کو مسترد کرتے ہوئے‘ جمہوریت کو غیرمستحکم کرنے کی ہر کوشش اور سازش کو ناکام بنایا۔ صدر مورسی نے بھی دوراقتدار کا آغاز‘ صدرزرداری کی طرح کیا مگر وقت پر سنبھلنے میں ناکام رہے۔ وہ مصری اسٹیبلشمنٹ کی دیرینہ پالیسیوں میں تبدیلی لانے کے خواہش مند تھے۔ انہوں نے بھی خارجہ پالیسی میں تیزرفتاری سے قدم اٹھانے کی کوشش کی۔ سٹیٹس کو کی قوتوں نے ناپسندیدگی کا اظہار بھی کیا۔ مگر وہ کسی کی پروا کئے بغیر اپنے قدم آگے بڑھاتے رہے۔ خصوصاً انہوں نے نہ تو مصر کے دیرینہ مددگار امریکہ کی پروا کی اور نہ ہی عرب دنیا کے سب سے بااثر مالیاتی طاقت رکھنے والے ملک سعودی عرب کے ساتھ روایتی تعاون کی پالیسی کا خیال رکھا۔ وہ یہ بھی بھول گئے کہ انہیں 52فیصد ووٹ ملے ہیں جبکہ 48فیصد نے ان کی پارٹی پالیسیوں کے خلاف ووٹ دیا ہے اور پارٹی کے مخالفین میں کم و بیش تمام حکمران طبقے شامل ہیں اور ریاستی طاقت کے بڑے حصے پر ان کا قبضہ ہے۔ انہوں نے خصوصاً خارجہ پالیسی کو پارٹی پالیسی کے تحت تبدیل کرنے کی کوششیں کیں۔ اخوان المسلمون نے بغیرکسی تیاری کے آزادانہ طرزعمل اختیار کیا اور امریکہ کے ساتھ سابقہ مودبانہ طرزعمل کو خیرباد کہہ کر‘ آنکھیں دکھانا شروع کر دیں۔ وہ تہران جا کر غیرجانبدار ملکوں کی کانفرنس میں شریک ہوئے۔ اس موقع پر انہوں نے شامی حکومت کے ساتھ ایک چار رکنی کانفرنس کرنے کا فیصلہ بھی کر ڈالا۔ اس کانفرنس میں شام کے علاوہ ترکی‘ ایران اور سعودی عرب کو مدعو کیا گیا۔ ظاہر ہے ایسی کانفرنس میں سعودی عرب کو مدعو کرنا ہی غیرمنطقی تھا۔ وہ ایک طرف شام کے باغیوں کا حامی اور مددگار ہے۔ دوسری طرف ایران اور سعودی عرب کے مابین مدت سے محاذآرائی جاری ہے اور پورے خطے میں یہ دونوں ملک‘ ایک دوسرے سے متصادم رہتے ہیں۔ سعودی عرب نے نہ صرف اس منی کانفرنس میں شرکت سے انکار کیا بلکہ قطر کے ساتھ مل کر مورسی حکومت کی مخالفت شروع کر دی۔ یہ دونوں ملک مصر کو مالی امداد دینے میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔ ایران کے ساتھ تعلقات بڑھانے کے عمل سے امریکہ میں بھی تشویش پیدا ہوئی۔ خطے میں امریکہ اور سعودی عرب مضبوط اتحادی ہیں۔ سعودی عرب کے تیور بدلے‘ تو امریکہ نے بھی مٹھی بند کر لی۔ ظاہر ہے جب مالی امداد کرنے والے تین سرکردہ ملکوں نے ہاتھ کھینچ لیا‘ تو مصری معیشت کا دبائو میں آنا ناگزیر تھا۔ بیرونی دوستوں اور مددگاروں نے آنکھیں بدلیں اور اندر سے فوج کے تیور بدلتے نظر آئے‘ تو صدر مورسی‘ ہڑبڑاہٹ میں ایران اور شام سے رخ موڑنے لگے۔ قاہرہ اور تہران کے درمیان براہ راست پروازوں کا معاہدہ منسوخ کر دیا۔ ایرانی سیاحوں کے لئے مصر کے ویزوں میں دی گئی سہولتیں واپس لے لیں اور شامی حکومت کے بجائے‘ وہاں کے باغیوں کی حوصلہ افزائی شروع کر دی تاکہ سعودی عرب کی ناراضی میں شدت نہ رہے۔ حتیٰ کہ قاہرہ میں شام کا سفارتخانہ بھی بند کر دیا۔ صدر مورسی نے آتے ہی کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی پابندی کا اعلان کیا تھا لیکن عملی طور پر فلسطینیوں کو سہولتیں دینے لگے۔ وہ اپنے ماضی کی وجہ سے‘ امریکہ اور اسرائیل کے اعتماد سے پہلے ہی محروم تھے۔ جب انہوں نے صدر مورسی کو فلسطینیوں کی طرف جھکتے دیکھا‘ تو یہ اندیشہ پیدا ہو گیا کہ وہ کیمپ ڈیوڈ معاہدے سے منحرف ہونے کا راستہ اختیار کر سکتے ہیں اور ایک خودمختار علاقائی طاقت کی حیثیت سے‘ امریکہ مخالف بلاک بنانے کی طرف مائل ہیں۔ علاقائی سیاست میں شام اور ایران کے ساتھ ان کے بڑھتے ہوئے تعلقات پر بھی امریکیوں کو تشویش تھی۔ بظاہر تو شیعہ سنی دوستی کا تصور مسلمانوں کے لئے ایک اچھی بات لگتا ہے۔ لیکن مقامی سیاست میں یہ امریکہ مخالف قوتوں کو تقویت دے سکتا ہے۔ مورسی صاحب نے بری گورننس اور عوامی مسائل حل کرنے میں ناکام ہو کر‘ اندرونی حمایت گنوائی اور خارجہ پالیسی میں بغیرکسی تیاری کے بنیادی تبدیلیوں کے جو عزائم ظاہر کئے‘ ان کا اندازہ کر کے‘ انہیں مدد دینے والے ملکوں میں بھی تشویش پیدا ہو گئی۔ یہ تھے وہ حالات جن میں مصری معاشرے کے اندر گہرے اثرات رکھنے والوں کو جلد بازی میں فیصلہ کن اقدام کرنا پڑا۔ دیکھتے ہی دیکھتے مخالفانہ مظاہرے شروع ہو گئے اور ایک ہفتے کے دوران ساری کہانی ختم کر دی گئی۔ تیسری دنیا کے رومانویت پسند انقلابیوں کو پھر سے ایک سبق ملا ہے۔ بھٹو صاحب نے بھی جلدی جلدی فیصلے کر کے‘ امریکیوں کو ناراض کیا تھا۔ جمال عبدالناصر نے عرب قوم پرستی کو ہوا دے کر‘ مغربی بلاک کے غیظ و غضب کو دعوت دی۔ سوئیکارنو اور بن بیلا نے باغیانہ طرزعمل اختیار کیا۔ مگر یہ سارے لیڈر یہ بنیادی بات فراموش کرتے رہے کہ ترقی پذیر ملکوں کے معاشروں میں جہاں حکمران طبقوں نے ہر شعبے میں اپنی گرفت مضبوط کر رکھی ہو‘ وہاں ان کے مفادات کو چھیڑنے سے پہلے‘ انقلابی طاقت کو منظم اور متحرک کرنا پڑتا ہے۔ عوام کو مزاحمت اور قربانیوں کے لئے تیار کرنا پڑتا ہے۔ ایک فرد یا اس کے چند ساتھی‘ مہم جوئی کے ذریعے دفعتاً بنیادی تبدیلیاں نہیں لا سکتے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved