تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     11-04-2021

سُرخیاں، متن،’’ شعری دانش کی دھن میں‘‘ اور ابر ار احمد

حکومت کو اپوزیشن نہیں، اپنی
پارٹی سے خطرہ ہے: رانا تنویر
نواز لیگ کے سینئر رہنما اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین رانا تنویر حسین نے کہا ہے کہ ''حکومت کو اپوزیشن نہیں، اپنی پارٹی سے خطرہ ہے‘‘ اس لئے حکومت کو چاہیے کہ اس خطرے سے جلد از جلد نمٹنے کی کوشش کرے کیونکہ اپوزیشن تو پہلے بھی نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے، اگر حکومت بھی خطرات میں گھر گئی تو ملک کیسے چلے گا جبکہ اپوزیشن کو اپنی قیادت اور اس کے بیانیے سے زبردست خطرہ لاحق ہے کیونکہ باہر بیٹھ کر وہ جو کچھ کر رہی ہے اگر ملک کے اندر موجود ہوتی تو یہ اپنے ہاتھوں ہی تمام ہو جاتی۔ آپ اگلے روز جہانگیر ترین کے حوالے سے حکومتی مؤقف پراظہارِ خیال کر رہے تھے۔
ڈسکہ کے غیور عوام ووٹ کو عزت اور عملے
کے تحفظ کیلئے بھی پہرہ دیں گے: مریم نواز
مستقل نااہل سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''ڈسکہ کے عوام ووٹ کو عزت اور عملے کے تحفظ کیلئے پہرہ دیں گے‘‘ اگرچہ یہی کچھ اُنہیں پچھلی بار بھی کرنا چاہیے تھا لیکن انہوں نے سستی سے کام لیا اور سارا کام خراب ہو گیا تاہم اب امید ہے کہ وہ پھرتی کا مظاہرہ کریں گے اور اگر ہم پھر ہار گئے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ انہوں نے کچھ ضرورت سے زیادہ ہی پھرتی سے کام لے لیا ہے کیونکہ جہاں تک ووٹ کو عزت دینے کا سوال ہے تو وہ اس کی حقیقت اچھی طرح سے جان چکے ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک بیان جاری کر رہی تھیں۔
بعض لوگ جہانگیر ترین کو ڈی
ٹریک کر رہے ہیں: ندیم قریشی
ترجمان حکومت پنجاب ندیم قریشی نے کہا ہے کہ ''بعض لوگ جہانگیر ترین کو ڈی ٹریک کر رہے ہیں‘‘ حالانکہ وہ پہلے ہی کافی ڈی ٹریک ہو چکے ہیں اور حکومت انہیں دوبارہ ٹریک پر لانے کی کوشش کر رہی ہے اگرچہ یہ عمل اُنہیں کافی مہنگا پڑے گا لیکن وہ اتنا پیسہ کما چکے ہیں کہ ان کیلئے ہر مہنگی چیز بھی سستی ہے کیونکہ یہ انہی مواقع کیلئے اکٹھا کیا جاتا ہے اگرچہ سوال یہ بھی ہے کہ آیا وہ خود بھی ٹریک پر آنا چاہتے ہیں یا نہیں یا وہ اب تک اپنے آپ کو ٹریک پر موجود ہی سمجھتے ہیں ، امید ہے کہ وہ اس سلسلے میں سارے شکوک و شبہات خود ہی رفع کر دیں گے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
ڈاکٹروں نے کچھ دن مزید گھر
میں رہنے کا مشورہ دیا: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''ڈاکٹروں نے ابھی کچھ دن اور گھر میں رہنے کا مشورہ دیا ہے‘‘ بلکہ ان کا اصل مشورہ تو یہ ہے کہ اگر مجھے اپنی صحت مطلوب ہے تو کبھی بھی گھر سے باہر نہ نکلوں کیونکہ جو کچھ خاکسار کے ساتھ ہو چکی ہے اس کا تقاضا تو یہ ہے کہ میں گھر سے نکلنے کا نام تک نہ لوں کیونکہ اتحاد تو پہلے ہی پارہ پارہ ہو چکا ہے اور اگر پیپلز پارٹی اتحاد سے باہر نکل گئی تو یہ اس کے تابوت میں آخری کیل ہو گا جبکہ اے این پی اپنے حصے کا کیل پہلے ہی ٹھونک چکی ہے اور اب اس اتحاد کی شکل تک پہچانی نہیں جاتی۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
شعری دانش کی دُھن میں
یہ جلیل عالی کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے جسے راولپنڈی کے ایک ادارے کی جانب سے حال ہی میں شائع کیا گیا ہے۔ انتساب کچھ اس طرح سے ہے:''اُستا ذی المکرّم ڈاکٹر برہان احمد فاروقی کے نام جنہوں نے مجھے'' صوفی مجاہد‘‘ کے تصور سے آشنا کیا‘‘۔اس کا دیباچہ محمد حمید شاہد نے تحریر کیا ہے۔ پسِ سرورق مصنف کی اپنی تحریر تصویر کے ساتھ چھپی ہے جو اس طرح سے ہے۔ ''شعر ی ادب معاشرے کی وہ تہذیبی قوت ہے جو انسان کو مایوسی سے بچاتی ہے، جو امید کا چراغ بجھنے نہیں دیتی اور مشینوں کی حکومت میں احساس ِمروّت کو کچلے جانے سے محفوظ رکھتی ہے۔ شاعروں کے کلام میں خواب کا استعارہ اسی اُمید، اسی عشق، اسی آدرش یا نصب العین،اسی شہرِ مطلوب اور اسی جہانِ ناآفریدہ کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کی دُھن اور لگن انسانی شخصیت میں ایک برتر سطح کا توازن اور ارتباط پیدا کرنے کا وسیلہ بنتی ہے‘‘۔
اور اب آخر میں ڈاکٹر ابرار احمد کی یہ نظم:
ہم کہ اک بھیس لئے پھرتے ہیں
جانے کس دیس کی بابت پوچھے
در و دیوار سے لپٹی یہ خنک، سرد ہوا
کیسی آہوں سے بھری آتی ہے
کن صداؤں سے لدی آتی ہے
کن زمانوں کی یہ مدفون مہک
بد نما شہر کی گلیوں میں اُڑی پھرتی ہے
اور یہ دُور تلک پھیلی ہوئی
جبر کے رنگ میں گہنا ئی ہوئی
اعتبار اور یقیں کی منزل
جس کی تائید میں ہر نوع کی ظلمت ہے
فسوں کاری ہے
اپنے منظر کے اندھیروں سے پرے
ہم خنک سرد ہوا سُن بھی سکیں
ہم کہ کس دیس کی پہچان میں ہیں
ہم کہ کس لمس کی تائیدمیں ہیں
ہم کہ کس زعم کی توفیق میں ہیں
ہم کہ اک ضبطِ مسلسل ہیں
زمانوں کے ابد سے لرزاں
وہم کے گھر کے مکیں
اپنے ہی دیس میں پردیس لئے پھرتے ہیں
ہم کہ اک بھیس لئے پھرتے ہیں
آج کا مقطع
ظفر کس کس کودکھلاتے پھریں گے اور پھر کب تک
کہ یہ زخم ِتماشا کوئی دن میں بھرنے والا ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved