ہمیں کیا ہو گیا ہے کہ ان سے اکتسابِ نور نہیں کرتے ؟ کیوں نہیں ؟ ان سے رہنمائی کیوں طلب نہیں کرتے ۔ افسوس کہ اہلِ ایمان کو خلوت ہی میسر نہیں ۔ وہ نگیں جو خاتمِ زندگی سے پھسل گیا تو وہی جو میرے غلام تھے، مجھے کھا گئے کیا چیز ہے جو مسلمانوں کی سیاست میں سے گم ہو گئی ہے اور انہیں ثمر بار ہونے نہیں دیتی ۔ یہ شجر سایہ کیوں نہیں کرتا اور پھل اس پہ کیوں نہیں لگتا؟ کیا کوئی سوال اس سوال سے بھی زیادہ اہم ہے ؟ پھر ہم اس پر غور کیوں نہیں کرتے ؟ اس لمحے تک سوچ بچار کہ جب شرحِ صدر ہوجائے ۔ دریائے نیل کی سرزمین سے یہ استفسار ایک بار پھر پھوٹا اور ایک سانپ کے پھن کی طرح لہراتا ہے۔ وہ سانپ ، جسے ہم ہلاک نہیں کر سکتے او رنظر انداز بھی نہیں ۔ کیا فقط یہ کہ اولین پچاس سو برس کے بعد اللہ کی کتاب سے اہلِ ایمان کا سچا تعلق باقی نہ رہا یا کچھ اس کے سوا بھی ۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ یہ ماجرا ہم ایسے لوگوں کی استعداد سے بہت زیادہ ہے ۔ اس پر اہلِ علم کو بات کرنی چاہیے مگر وہ کیوں نہیں کرتے؟ فقط وعظ پہ کیوں اکتفا کرتے ہیں ، فقط ایمان کی چنگاریوں کو بھڑکا کر شعلہ بنانے میں کیوں لگے رہتے ہیں ۔ کیا محض جذبات کو ہوا دینے سے مراد حاصل کی جا سکتی ہے ؟ اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے : سب سے اچھا زمانہ میرا، پھر اس کے بعد کا‘ پھر اس کے بعد کا ۔ پورے وثوق اور یقین سے یہ بات مانی جاتی ہے اور کوئی اس سے اختلاف نہیں کرتا۔ کربلا کے میدان میں سیدنا امام حسینؓ نے کہا تھا : روشنی ختم ہوئی ، اب صرف تلچھٹ باقی ہے مگر بعد کے زمانوں میں عمر بن عبدالعزیزؒ اٹھے ، قائد اعظمؒ جیسے کردار نمودار ہوئے۔ اگرچہ اس بات کا موضوع سے براہ راست زیادہ تعلق نہ ہو مگر چیز حیران کن ہے ۔ انسانی زندگی کس کس امتحان اور آزمائش سے گزرتی ہے۔ ’’ہم تمہیں آزمائیں گے ، خوف سے ، بھوک سے ، مال ، جان اور کھیتی کے ضیاع سے‘‘۔ بار بار آدمی کشمکش کی بھٹی میں ڈالا جاتاہے ۔ اندیشے ، تنہائی ، تنگ دستی ، فاقہ کشی اور تباہ کرنے پر تلے ہوئے دشمن۔ کربلا تاریخ کا نادر ترین واقعہ ہے کہ امامؓ اور ان کا خاندان ، تاریخِ انسانی کا سب سے جیّد ، معزز ، معتبر اور محترم خاندان اپنے سچے سردار کی قیادت میں ان چند ایام کے دوران ان سب امتحانوں سے بیک وقت دوچار ہو ااو ردفعتاً۔ واعظ اور مورخ ، ذاکر اور اہلِ بیت کی محبت میں گریہ کرنے والے اس پہلو کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ امامؓ کے خطبات پڑھو اور غور کرو تو آدمی ششدر رہ جاتاہے ۔ ایک ذرا سا ہیجان بھی نہیں ، خوف، وحشت، اضمحلال (Depression)اور نہ بے یقینی۔ محکم اور استوار لہجہ ۔ آواز میں وہی استقامت اور کاٹ ۔ مبالغے سے پاک ، جوہری کی ہتھیلی پر رکھے ہیروں کی طرح۔ ایک ایک صداقت کا کھرا اظہار۔ خطابت کی فسوں کاری‘ نہ خود ترحمی کا زخم ، غیر ضروری انکسار‘ نہ ریا۔ کوئی دعویٰ‘ نہ دھمکی۔ ایسے ہولناک امتحان میں ، جس کی جزئیات بیان کرتے ہوئے قلم اور کلیجہ کانپ اٹھتا ہے ، خیرہ کن اعتدال اور توازن وہ کیسے قائم رکھ سکے ؟ بخدا یہی اسلام تھا، یہی قرآنِ کریم کی اس درخشاں آیات کی تفسیر تھی ۔ قسم ہے زمانے کی بے شک انسان خسارے میں ہے مگر وہ جو ایمان لائے اور جنہوںنے اچھے عمل کیے حق کی نصیحت کی اور صبر کی صداقت کو انہوںنے پالیا تھا۔ صحابہ کرامؓ اور اہلِ بیت نے ۔ ان کے طرزِ عمل اور طرزِ احساس کا کبھی نہ الگ ہونے والا حصہ بن گیا تھا، ان کی شخصیات کا ۔ یہ راز ان پر کھلا اور ان کی روحوں میں گھل گیا کہ آدمی کا کام اپنا فرض ادا کرنا ہے ۔ ملکوں اور معاشروں کا وہ ٹھیکیدار نہیں۔ اس کا فرض فقط یہ ہے کہ اپنی ذمہ داری پوری سلیقہ مندی کے ساتھ نبھا دے کہ ضمیر اورپروردگار کی بارگاہ میں سرخرو ہو ۔ علمائِ کرام کے ادراک میں نہ آسکا مگر اس شخص نے بظاہر جو زہد کی علامت نہ تھا، یہی تو کہا تھا ، محمد علی جناح نے: اب اس کے سوا میں کوئی آرزو نہیں رکھتا کہ جب اس دنیا سے اُٹھوں تو میرا ضمیر گواہی دے کہ جناح ، تم نے مسلمانوں کی خدمت کا حق ادا کر دیا ۔ حق اور فرض ادا کرنے کا تہیہ ، بس یہی ایک نکتہ ۔ برطانیہ کے پچھلے انتخاب میں وزیر اعظم گارڈن برائون نے اپنی لیبر پارٹی کے لیے عمران خان سے مدد کی درخواست کی ۔ اس کا جواب تھا \"What for?\"۔ قائد اعظم ہوتے تو کیا کرتے ؟ کیا وہ اپنی قوم کے لیے کچھ شرائط نہ منواتے ؟ اواخر مئی میں عمران نے پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر ایڈم تھامسن سے کہا کہ الطاف حسین سے کراچی میں ان کی پارٹی کو جانی نقصان پہنچا تو وہ ذمہ دار ہوں گے ۔ تحریکِ انصاف کی خاتون رہنما قتل ہوئیں تو بار بار وہ فون کرتا رہا کہ قانون کا راستہ بتائے۔ خان نے مگر سننے سے انکار کر دیا۔قائد اعظم ہوتے تو کیا یہی کرتے؟ مصر ہی نہیں، مسلمان دنیا کی سب اسلامی تحریکوں پر غور کرتے ہوئے بار با ریہ خیال پریشان کرتا ہے کہ اسلام کے علمبرداروں پر یہ بھید کیوں نہیں کھلتا۔ ترک کچھ استثنیٰ ہیں یا ملائیشیا کے مہاتیر محمد وگرنہ بیشتر مسلمان رہنما ادراک نہیں رکھتے کہ آدمی زندگی سے ہم آہنگ ہوتا ہے ، زندگی آدمی سے سمجھوتہ نہیں کیا کرتی ۔ عالی مرتبتؐ سے منسوب ہے کہ دانا وہ ہے ، جو اپنے عصر کو جانتا ہو۔یعنی اس کے تقاضوں کو ۔ بار بار سمجھایا کہ دانش ، حکمت ، عقل اور تدبیر۔ ایک اندھا بھی دیکھ سکتا تھا کہ صدر مرسی کی حکومت برقرار نہ رہے گی ۔ کوئی بھی بتا سکتا کہ فوج غیر جانبدار او رلاتعلق نہ رہے گی ۔ کوئی بھی دانا یہ مشورہ دیتا کہ اگر وہ پہل قدمی کرکے خود نئے الیکشن کا اعلان کر دیں تو بہتر ہوگا۔ مسلمان لیـڈروں کا مسئلہ کیا ہے کہ وہ خود کو دیوتا سمجھنے لگتے ہیں ۔ خود ستائی اور خود پسندی کہاں سے پیدا ہو جاتی ہے ۔ امیر المومنین ملا عمر ہی نہیں ، جمال عبدالناصر ہوں یا سوئیکارنو، ذوالفقار علی بھٹو، شہنشاہِ ایران یا امام خمینی، ضد پہ کیوں اڑ جاتے ہیں… کروڑوں انسانوں کا مستقبل دائوپر لگا ہوتاہے ۔1977ء میں مذاکرات ادھورے چھوڑ کر ، بھٹو 16ملکوں کے دورے پر چلے گئے تھے ۔ کس لیے ؟ آیت اللہ خمینی نے ایران کی سرزمین سے استعمار اور اس کے کارندوں کو اکھاڑ پھینکا۔ کیسی حیران کن شجاعت ۔ برسوں پہلے سعودی عرب تاوانِ جنگ کی ضمانت دینے کو تیار تھامگر مزید ایک ہزار ارب ڈالر اور ہزاروں زندگیوں کی قربانی کے بعد امام نے جنگ بندی قبول کی اور یہ کہا : میں نے زہرکا گھونٹ پیا ہے ۔ حق مہر کے تعین اور دو چادروں والے ان واقعات کو ، جو مسجدِ نبوی میں عمر فاروقِ اعظمؓ کو درپیش ہوئے ، فقط احتساب کا عنوان کیوں دیا جاتا ہے ۔ کیسی لچک اور اپنی اصلاح کی کیسی دل آویز آمادگی؟ رسولؐ ِ خدا کے رفیق ۔ افسوس ان کے اس پہلو کو کوئی اجاگر نہیں کرتا کہ وہ عام آدمی کی زندگی کرتے تھے ۔ بے کراں علم کے باوصف ، جو پھرکسی کو نصیب نہ ہونا تھا، خود میں وہ ہمیشہ خطا کے امکان کو ملحوظ رکھتے ۔ آج کوئی عالمِ دین، کوئی لیڈر کسی کی نہیں سنتا۔ ہمالیہ کی چوٹی پرکھڑے ہو کر ان صاحب نے حدیث کے موضوع پر بات کی ہے ، جن سے دلیل اور معقولیت کی تھوڑی سی امید کی جاتی ہے ۔ اپنے اساتذہ سے رتی برابر اختلاف نہیں، محدثین کے بارے میں یہ انداز؟ دمِ وداع سرکارؐ نے کہا تھا: قرآن اور میرا طریقِ حیات ۔ کوئی مگر ان کے اندازِ زندگی پر غور نہیں کرتا۔ عام آدمیوں کی طرح رہتے بستے ، کھاتے پیتے اور عام آدمی کا لباس پہنے وہ گلیوں میں پیدل چلا کرتے ۔ پھر وہ مشعل کبھی تاریخ میں فروزاں ہوئی تو ہمیشہ باقی رہنے والی مثال بن گئی ۔ مثلا صلاح الدین ایوبی ، مثلا ٹیپو سلطان کہ آج بھی مغرب ان کی اخلاقی بالاتری تسلیم کرتا ہے ۔ ہمیں کیا ہو گیا ہے کہ ان سے اکتسابِ نور نہیں کرتے ؟ کیوں نہیں ؟ ان سے رہنمائی کیوں طلب نہیں کرتے ۔ افسوس کہ اہلِ ایمان کو خلوت ہی میسر نہیں ۔ وہ نگیں جو خاتمِ زندگی سے پھسل گیا تو وہی جو میرے غلام تھے، مجھے کھا گئے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved