تحریر : عبداللہ بابراعوان تاریخ اشاعت     12-04-2021

روزے اور سماجیے

چینی کی بات تو بے شک بعد میں بھی کی جا سکتی ہے‘ جس سے میٹھا پانی‘ شربت‘ جلیبی اور کیا کیا نہیں بنتا‘ مگر گرم مسالے اور دھنیے میں کون سا ڈیزل ڈلتا ہے؟ یہ روزے کے مہینے سے پہلے کیوں مہنگے ہوئے؟ اصل بات یہ ہے کہ مسئلہ کچھ اور ہے‘ بیان کہیں اور سے ہوتا ہے جبکہ گفتگو کسی اور جگہ‘ جس کا فوکس پرسنل بینیفٹ سے آگے جانے کے لیے ہی تیار نہیں۔ بے شمار مثالیں اس سماجیے کی ہمارے ارد گرد بکھری پڑی ہیں‘ مگر سب سے پہلے مہربان رمضان کے سب سے عظیم مہینے میں چلتے ہیں جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغام اور الہامی کتاب میں روزے کی تاریخ یوں بیان فرمائی ہے۔
سورۃ البقرہ (آیت نمبر183‘ پارہ 2): ترجمہ: ''اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے جس طرح تم سے اگلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔ گنتی کے چند ہی دن ہیں لیکن تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اور دنوں میں سے اس گنتی کو پورا کر لے۔ طاقت رکھنے والے فدیہ میں ایک مسکین کو کھانا دیں اور جو شخص نیکی میں سبقت کرے‘ وہ اس کے لیے بہتر ہے لیکن تمہارے حق میں افضل کام روزے رکھنا ہی ہے اگر تم باعلم ہو‘‘۔
روزے کا پہلا مقصد: اس واضح قرآنی پیغام کے چند حصے یہ حقیقت کھول کر خود ہی بیان کر رہے ہیں کہ مالکِ دو جہاں نے حضرت محمدﷺ کی اُمت کے ایمان داروں کو مخاطب کر کے انہیں حکم ارشاد فرمایا ہے کہ روزے رکھو۔ روزے کے معنی اللہ تعالیٰ کے فرمان کی تابع داری کی خالص نیت کے ساتھ کھانے پینے اور ذاتی زندگی کے سارے جائز اور حلال کاموں سے بھی رُک جانے کے ہیں۔ اس لئے روزے کا پہلا سبق یہ ہے کہ اس میں کوئی شخص کسی دوسرے شخص پہ کسی قسم کا کوئی احسان نہیں کرتا‘ بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا نافذ کردہ ایسا حکم ہے جس کو پورا کر کے ہم اللہ کے بندے اور اس کے غلام ہونے کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ یہیں سے روزے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا دوسرا حکم بھی واضح ہوتا ہے کہ روزہ دار انسان نیت کو 100 فیصد خالص کر کے اور کھانے پینے سمیت ذاتی زندگی کے سارے جائز کاموں سے بھی رُک جائے۔
یہاں چند سوال ہر کسی کے ذہن میں آتے ہیں‘ خاص طور اپنے ہاں سماج کے زمینی حقائق دیکھ کر۔ کیا روزے کے مہینے میں عام لوگوں کے کھانے پینے کی چیزوں کو پہلے چھپا دینا‘ پھر ان کو مہنگا کرنا‘ پھر ان میں کھوٹ اور ناقص مال کی ملاوٹ کرنا‘ پھر اُنہیں Consumption Market کے عروج میں بیچنے کے لیے سامنے لے آنا‘ کیا ایسا سب کچھ روزے کی اصلی اور خالص نیت سے کرنا جائز ہے؟ ان سادہ سوالوں کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ ذخیرہ اندوزی‘ ملاوٹ‘ مہنگائی‘ سب نا جائز کام اور روزے کے مقصد سے براہ راست متصادم ہیں۔ دوسرا سادہ سا سوال یہ ہے کہ وہ ایمان دار جو روزہ دار بھی ہو‘ کیا اس کو ان ناجائز کاموں سے منع کرنے کے لیے ریاست کے کسی ڈنڈے‘ یا قانون کی کسی لاٹھی کی ضرورت ہے؟ اس کا جواب روزہ داری کے دعوے دار سماجیے پر چھوڑ دیتے ہیں۔
روزے کا دوسرا مقصد: حضرت آدمؑ اور حضرت حواؑ کی اولاد میں انسانی نفس کو ہر طرح کے عیب سے پاک اور صاف ستھرا بنانے کو تاریخ کا تسلسل بھی قرار دیا گیا؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ روزے کے حکم سے فائدہ اُٹھانے والی تم کوئی تنہا اُمت نہیں ہو بلکہ تم سے پہلے والے‘ اگلوں کو بھی روزے رکھنے کا حکم جاری کیا گیا تھا‘ اس لئے ہمیں ایک تاریخی تناظر بھی اپنے ذہن میں رکھنا ہو گا کہ روزے کو Commercialize کر کے اس سے کارپوریٹ منافع بنانے کی دنیا دریافت ہونے سے پہلے روزہ رکھنے والی قومیں اور اُمتیں ایک دوسرے کے لیے ایثار‘ قربانی اور روزے رکھنے کی ایمان داری کے وصف میں کہاں کھڑی تھیں اور آج ہم کہاں کھڑے ہیں؟
رمضان شریف کے مہینے کی تاریخ اور روزہ رکھنے کی سعادت اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ انسانی تاریخ۔ آئیے اس تاریخ کا تھوڑا سا احوال جان لیں۔ حضرت معاذؓ، حضرت ابن مسعودؓ اور حضرت ابن عباسؓ کا فرمان ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے سے ہر مہینے میں تین روزے رکھنے کا حکم جاری تھا۔ حضور رحمت للعالمینﷺ کی اُمت کے لیے حکم بدل دیا گیا اور ان پر رمضان کے مبارک مہینہ کے روزے فرض ہو گئے۔ حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ اگلی امتوں پر بھی ایک مہینہ کامل کے روزے فرض تھے۔ یہاں حضرت ابن عباسؓ نے یہ وضاحت فرمائی ہے کہ اگلے لوگوں سے مراد وہ ہیں جن پر آسمانی کتاب نازل ہوئی۔ (حوالہ: تفسیر ابنِ کثیر)
روزے کا تیسرا مقصد بھی انسانی زندگی کے عین مطابق ہے۔ اللہ رب العزت انسان کے خالق و مالک ہے‘ اس لئے اس کی ساری حاجتوں سے خوب واقف ہے۔ روزے کے بارے میں تیسرا مقصد یہ سامنے آتا ہے کہ روزہ داروں میں سے جو شخص ماہِ رمضان میں بیمار ہو یا پھر کہیں سفر کی حالت میں ہو تو اس کو اس حالت میں روزے چھوڑ دینے کی اجازت ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور رعایت سے مریض یا مسافر مشقت نہ اُٹھائے۔ جس کے بعد اور دنوں میں جب بیماری یا سفر کا دور گزر جائے یہ قضا روزے پورے کر لئے جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے مسکینوں کے لیے‘ روزہ نہ رکھ سکنے والے کو حکم دیا ہے کہ وہ روزے کے بدلے فدیہ میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دے۔ یہاں ایک مسکین کا مطلب کم از کم ایک ہے‘ جتنے زیادہ لوگوں کو کھانا کھلایا جائے وہ افضل ترین ہے۔ یہاں ایک اور ضروری بات یہ بھی مدِ نظر رہے کہ بہت بڑی عمر والے بوڑھے بزرگ جن کو روزہ رکھنے کی جسمانی طاقت ہرگز حاصل نہیں ہے‘ وہ بھی ہر سال روزے کے بدلے ایک مسکین کو روٹی گوشت وغیرہ اچھا کھانا کھلا سکتے ہیں۔ یہاں یہ گزارشات سامنے رکھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ روزے کے ذریعے سے ہم Greater Good کی طرف آگے بڑھ سکیں۔ پورے سماج کو ساتھ لے کے اور اس سلسلے میں کسی بھی طرح کی جانی‘ مالی‘ بدنی کمزوری اور معاشی یا طبقاتی تقسیم و تفریق کی سرے سے کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ رمضان کے مہربان مہینے کی مزید فضیلت اور بزرگی یہ بھی ہے کہ اسی مہینے میں ابراہیمی صحیفے تورات‘ انجیل‘ زبور اور اگلے صحیفے اللہ تعالیٰ کے سچے پیغمبروں پر نازل ہوئے۔
بزنس اور روزی روٹی پورا سال چلتے رہتے ہیں‘ رمضان جیسا مہربان ماہ سال میں ایک صرف ایک بار ملتا ہے وہ بھی نصیب والوں کو۔ ہمارے بیانیے رمضان میں بھی سماجیے سے ہٹ کر ہیں۔ کیا ہم مہنگائی‘ چھینا جھپٹی اور لوٹ کھسوٹ کے پرچار میں اضافہ کرنے کے بجائے اس میں کمی لانے کے لیے اپنا کوئی کردار ادا نہیں کر سکتے؟ کیا ہم امت یا سماج کی حیثیت سے صرف 29‘ 30 روز کے لیے بھی محض اپنی شکم پُری سے اوپر نہیں اُٹھ سکتے؟ رزق کی منصفانہ تقسیم تو شاید فوری طور پہ ممکن نہ ہو لیکن جو اللہ نے ہماری دسترس میں رکھ دیا ہے اسے اللہ کے بندوں میں مہربانہ تقسیم کے ذریعے آج بھی پہنچایا جا سکتا ہے‘ اور روزے کے بعد عید والے دن بھی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved