تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     12-04-2021

One Man Party

جہانگیر ترین سیاسی منظر نامے پر ٹاپ ٹرینڈ بنتے چلے جا رہے ہیں۔ سیاسی جدوجہد سے لے کر طویل ترین دھرنوں تک‘پارٹی انتخابات سے لے کر عام انتخابات تک‘حکومت سازی سے لے کر اعتماد کے ووٹ تک‘جوڑ توڑ سے لے کر ساز باز تک‘رائے عامہ سے لے کر منظر نامہ بدلنے تک‘گاڑیوں سے لے کر جہازوں تک‘ ایک ہی نام اہم ترین رہا ہے۔ جدوجہد سے لے کر برسر اقتدار آنے تک‘پارٹی میں ان کی موجودگی تحریک انصاف کو یوں ممتاز کرتی تھی کہ بس۔ وزیر اعظم جن کے ساتھ شب و روز گزارنے سے لے کر ملکی اور غیر ملکی دوروں میں خود کو پرسکون محسوس کیا کرتے تھے آج وہی جہانگیر ترین ہدف پر نظر آتے ہیں۔ حالانکہ جو کاروبار وہ ماضی میں کیا کرتے تھے وہی کاروبار ان کے آج بھی ہیں۔ جو شوگر ملیں تحریک انصاف کے برسر اقتدار آنے سے پہلے چلا رہے تھے وہی آج بھی ہیں۔ یہی شوگر ملیں تھیں‘ یہی ان کی کمائی تھی جو وہ دھرنوں اور انتخابات میں صرف کرتے رہے ہیں۔ حکومت سازی کے لیے رائے عامہ سے لے کر منظرنامہ بدلنے تک‘ جہانگیر ترین کی لگژری گاڑیوں سے لے کر جہازوں سمیت دیگر وسائل تک‘ کیا کچھ نچھاور نہیں کیا گیا‘ ان اَن گنت خدمات کی وجہ سے ہی خان صاحب کے مخالفین انہیں جہانگیر ترین کا نام لے کر اے ٹی ایم کا طعنہ بھی دیتے رہے ہیں۔
موجودہ سیاسی منظر نامہ دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت پر اچانک انکشاف ہوا ہے کہ جہانگیر ترین کی ساری کمائی شوگر سٹہ اور بلیک مارکیٹنگ کی مرہون منت ہے اور وہ اپنی صفوں میں کوئی ایسا شخص برداشت کرنے کو ہرگز تیار نہیں جو بلیک مارکیٹنگ اور سٹہ کا مرتکب ہو۔ اس لیے ان کی خدمات کا حساب چکانے کے لیے انہیں مشکل ترین حالات سے دوچار کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ وزیر اعظم کو جہانگیر ترین سے متنفر کرنے کے لیے چیمپئنز نے کیسی کیسی قلابازیاں اور کیسے کیسے کمالات نہیں دکھائے‘قریبی ترین بابوز سے لے کر مصاحبین اور مشیروں تک سبھی نے بداعتمادی اور غلط فہمیوں کی چنگاریوں کو ہوا دے کر اس پر اس طرح تیل ڈالا کہ آج یہ بھڑکتا ہوا الائو نظر آتا ہے۔انہی چیمپئنز نے وزیراعظم کو خدا جانے کس طرح قائل کرلیا کہ جہانگیر ترین کے خلاف ہر طرح کی کارروائی نہ صرف حکومت کی ساکھ کو چارچاند لگا رہی ہے بلکہ بلا امتیاز احتساب کا تاثر بھی خوب اجاگر ہو رہا ہے۔ اس طرح ہر خاص و عام کو اچھی طرح کان ہوجائیں گے کہ جب جہانگیر ترین کے معاملے میں کوئی نرمی نہیں برتی گئی تو باقی کس کھیت کی مولی ہیں؟ چند ماہ قبل جہانگیر ترین کے خلاف مقدمہ درج ہونے تک وزیراعظم کو اسی لیے بے خبر رکھا گیا تھا کہ ان چیمپئنز کا کہیں نشانہ چوک نہ جائے۔بعدازاں وزیراعظم کوتوجیہ کے طور پر یہ جواز پیش کیا گیا کہ شہباز شریف کے خلاف کارروائی کے لیے جہانگیر ترین کے خلاف مقدمہ درج کرنا ضروری تھا‘بصورت دیگر جانبداری کا سوال اٹھایا جاسکتا تھا‘ اس طرح محسوس ہوتا ہے کہ اس سوال کے اندیشے کو ختم کرنے کے لیے ہی جہانگیر ترین کے خلاف کارروائی کی گئی اور لگتا ہے کہ وزیراعظم بھی اس منطق کے قائل ہوگئے‘ جس کا تازہ ترین اثر ترین اور ان کے بیٹے کے خلاف قائم ہونے والے مقدمات اور خاندان بھر کے اکائونٹس منجمدکرنے کی صورت میں سامنے ہے‘لیکن ایک اہم سوال یہ ہے کہ آیا اس بار صورتحال بیلنس کرنے کے لیے دیگر شوگر گروپس کو بھی قربانی کا بکرا بنایاگیا ہے تاکہ یہ ایک سیدھی سادی مفادِ عامہ کی کارروائی نظر آئے؟ پتا نہیں اس سوال کا جواب کہاں سے ملے گا؟
جہانگیر ترین درجنوں ارکانِ اسمبلی (بشمول وزرا) کے ساتھ پاور شو کرچکے ہیں جبکہ اس میں بتدریج عددی اضافہ بھی عین متوقع ہے۔پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ کشتیاں باہر کے پانی سے نہیں اندر کے پانی سے ڈوبتی ہیں ۔ جس طرح مفاہمت کے بادشاہ آصف علی زرداری نے پی ڈی ایم کی کشتی میں وہ سوراخ کر ڈالا ہے جس کے بعد یہ سمجھ نہیں آرہی کہ کشتی پانی میں ہے یا پانی کشتی میں ۔اسی طرح سربراہ حکومت کو بھی شاید یہ سمجھ نہیں آرہی کہ حکومت کو اصل خطرہ پی ڈی ایم سے نہیں بلکہ ان ارکانِ اسمبلی اور وزرا سے ہے جو دن بدن جہانگیر ترین کے سیاسی شو کی رونق بڑھاتے چلے جارہے ہیں ۔اگر انہیں سنجیدہ نہ لیا گیا تو یہی ارکان کشتی کے اندر کا پانی بن سکتے ہیں اور کشتی کے اندر پانی صرف سوراخ ہونے کی صورت میں ہی آتا ہے۔ جبکہ انصاف سرکار کی کشتی میں سواراکثر اپنے اپنے حصے کے سوراخ کاعذر یوں بیان کرتے ہیں کہ فلاں کا سوراخ مجھ سے بڑا ہے اسی لیے کشتی ہچکولے کھا رہی ہے۔
اس صورتحال میں بڑھتے ہوئے سوراخوں کو روکنے کے علاوہ پہلے سے موجود سوراخوں کو بھی ضرور بند کرنا چاہئے تاکہ حکومت کی کشتی ڈوبنے کا سبب اندر کا پانی نہ بن جائے۔اس تناظر میں ان عناصر پر بھی ضرور کڑی نظر رکھنی چاہئے جو باقاعدہ منصوبے کے تحت وزیراعظم اور جہانگیر ترین کے درمیان خلیج کودن بدن وسیع کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔یہ وہی چیمپئنز ہیں جو انصاف سرکار میں جہانگیر ترین کی موجودگی کو اپنی اہمیت اور افادیت کے لیے خطرہ تصور کرتے تھے اورجہانگیر ترین جوں جوں امور حکومت سے دور ہوتے چلے گئے یہ سبھی چیمپئنزاہم اور مضبوط ہوتے چلے گئے اور نتیجتاً جہانگیر ترین گیم سے آئوٹ اور وہ سبھی چیمپئن اِن ہوچکے ہیں جن کا تحریک انصاف سے کوئی لینا دینا تھا نہ ہی کوئی وابستگی‘ چیمپئنز کے بھاشن سے یہی لگتا ہے کہ اس ملک کا واحد مسئلہ بس شوگر مافیا ہے ۔اس کے بعد انصاف سرکار چین کی بانسری بجائے گی۔اس ساری تمہید کا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ عوام کو بلیک مارکیٹنگ اور چینی کے سٹے کا سامنا کرنا پڑے‘مصنوعی قلت اور چور بازاری کرکے چینی سے مال بنانے والوں کا محاسبہ ضرور ہونا چاہئے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس سے کہیں بڑی اور سنگین وارداتوں کا بھی نوٹس لینا چاہئے‘انرجی سیکٹر میں کے الیکٹرک ڈبونے اور تین سو ارب کی نادہندگی کا طوق گلے میں لیے پھرنے والے آج بااختیار اور معتبر کیسے بن گئے؟ کسی کی اہلیت معمہ ہے تو کسی کی قابلیت طعنہ‘جبکہ دیگر سیکٹرز میں مطلوبہ اہداف اور عزائم کی تکمیل کے لیے اسی قسم کی ساز باز اور جوڑ توڑ عروج پر ہے ‘کہیں سرکاری بابوئوں کو کھلی چھٹی دے کر دنیا سنواری جارہی ہے تو کہیں بہتی گنگا میں ڈبکیاں لگائی جارہی ہیں ‘جبکہ وزیراعظم بات کرتے ہیں مافیا کو کٹہرے میں لانے کی۔احتسابی چیمپئنز کو چینی کا چورن بیچنے سے فرصت ملے تو وہ اہم سرکاری ادارے بھنبھوڑکرارب ہا روپے کا ٹیکہ لگانے والوں کی کچھ خبر لیں‘ یہ سوال انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ وزیراعظم کو ان کے جاں نثاروں سے دور کرنے کا بیڑا کون اٹھائے پھر رہا ہے ؟ کون ان کی طاقت کو کمزوری بنانے پر تلا ہوا ہے؟ کون معتبر کو نا معتبر کرنے کے درپے ہے؟ چلتے چلتے عرض کرتا چلوں کہ حکومت کو نہ مولانا فضل الرحمن سے خطرہ ہے نہ شریف برادران سے‘زرداری سے تو خطرہ ہوبھی تو نہیں ہوسکتا‘ اصل خطرہ جہانگیر ترین کے گرد اکٹھے ہونے والے ارکان اور وزرا کے اس شو سے ہے جو حکومت کی مزید ضد سے کھڑکی توڑ رش لے سکتا ہے۔ایسی صورت میں کھڑکی توڑرش انصاف سرکار میں ناقابلِ تلافی توڑ پھوڑ کا باعث بن سکتا ہے۔ دور کی کوڑی لانے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ جہانگیر ترین کے گرد ارکان کا بڑھتا ہوا ہجومOne Man Partyکے تصور کو تقویت دے رہا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved