عید کے بعد کوئی اور چلے نہ چلے‘ ہم نکلیں گے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''عید کے بعد کوئی اور چلے نہ چلے، ہم نکلیں گے‘‘ کیونکہ ہمارا تو روزگار ہی اس کے ساتھ بندھا ہوا ہے اور ایک دروازہ بند ہو جائے تو دس دروازے دوسرے کھل جاتے ہیں جبکہ ہمارے لیے یہ ایک ہی دروازہ کافی ہے اور اگر یہ دروازہ بھی بند ہو گیا تو باقی کے نو دروازوں سے استفادہ کرنے کی سوچیں گے، اور اگر باقی دروازے بھی بند ہو گئے تو دیوار پھاند کر اندر جانے کی کوشش کریں گے جبکہ امید ہے کہ تحریک کی اس مشقت میں ہم اس قابل ضرور ہو جائیں گے راستے میں آئی ہوئی ہردیوار پھاند جائیں، ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا۔ آپ اگلے روز ڈیرہ اسماعیل خان میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
عمران خان 'قانون کی نظر میں سب برابر ‘
کے ایجنڈے پر عمل کر رہے ہیں: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''عمران خان قانون کی نظر میں سب برابر کے ایجنڈے پر عمل کر رہے ہیں‘‘ اگرچہ ہم میں سے کچھ کا خیال ہے کہ کچھ لوگ قانون کی نظر میں دوسروں سے زیادہ برابر ہوتے ہیں لیکن ہم انہیں اس لیے نہیں روک رہے کہ یہی جمہوریت کا حسن ہے اور''اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ‘‘ والا معاملہ لگتا ہے جس سے ورائٹی کی ایک صورتِ حال پیدا ہو گئی ہے کیونکہ اگر کسی کا منہ کسی طرف اور دوسرے کا کسی دوسری طرف ہو تو ہر طرف کی ساری صورت حال صاف نظر آنے لگتی ہے اور سارا منظر سامنے رہتا ہے جو کہ جمہوریت کا ایک اور حسن ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
عمران خان کی کرسی اب جہانگیر ترین
کے ہاتھ میں ہے: شاہد خاقان عباسی
سابق وزیراعظم اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''عمران خان کی کرسی اب جہانگیر ترین کے ہاتھ میں ہے‘‘ اس لیے جہانگیر ترین کے حق میں دعا کرنی چاہیے کہ انہیں اس کام کی توفیق ملے جو کام ہم سارے مل جل کر اب تک نہیں کر سکے اور اس کی تکمیل کا سہرا وہ اپنے سر پر باندھ لیں اور سہرا ان کے سرپر سجے گا بھی بہت، یہ سونے پر سہاگے والی بات ہوگی۔ آپ اگلے روز کراچی میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
ہم سب ایک قوم، سبز ہلالی پرچم تلے متحد ہیں: شیخ رشید
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''ہم سب ایک قوم ہیں اور سبز ہلالی پرچم تلے سب متحد ہیں‘‘ اور جو کچھ حضرات نے الگ سے پرچم اٹھا رکھا ہے تو ابھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ پرچم حکومت کے لیے ہے یا جہانگیر ترین کے لیے، بلکہ ابھی تک تو ایسا لگتا ہے کہ یہ دونوں کے لیے ہے اور فی الحال یہ نوبت نہیں آئی کہ وہ لوگ دونوں میں سے کسی ایک طرف ہو جائیں جبکہ زیادہ امکان یہی ہے کہ یہ دوسروں کو تسلی دینے کے لیے ہو کہ بیٹا چڑھ جا سُولی‘ رام بھلی کرے گا، لیکن اس کے بعد جو پرچم انہوں نے اٹھانا ہے وہ ساری کایا ہی پلٹ کر رکھ دے گا۔ آپ اگلے روز کراچی میں کوسٹ گارڈز پاسنگ آئوٹ پریڈ سے خطاب کر رہے تھے۔
پی ٹی آئی کے امیدوار نے ووٹ نہیں ڈالا: نوشین افتخار
ڈسکہ سے نو منتخب ایم این اے نوشین افتخار نے کہا ہے کہ ''پی ٹی آئی کے امیدوار نے ووٹ نہیں ڈالا‘‘ اور ان کی دیکھا دیکھی ہزاروں ووٹرز نے یا تو ووٹ ڈالا ہی نہیں یا ان کے بجائے مجھے ووٹ ڈالنا شروع کر دیے اور میں کامیاب ہو گئی جس کے لیے میں اپنے مخالف امیدوار کی دل کی گہرائیوں سے شکر گزار ہوں اور اس تعاون کو ہمیشہ یاد رکھوں گی جبکہ جمہوریت کا اصول ہی یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چلتے رہیں جبکہ میں ان کے ووٹرز کی زیادہ ممنونِ احسان ہوں کہ انہوں نے میری کامیابی میں ایک کلیدی کردار ادا کیا، اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے۔ آپ الیکشن کے بعد ڈسکہ میں میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
سب سے پہلے
رات کو شہر میں زور کا زلزلہ آیا، گڑگڑاہٹ اس قدر شدید تھی کہ لوگ سراسیمہ ہو کر گھروں سے باہر نکل آئے۔ زلزلے کا زور تھما تو کچھ لوگ ایک جگہ پر اکٹھے تھے کہ ان میں سے ایک بولا:اب ہمیں یہ سوچنا ہے کہ سب سے پہلے ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ سب سے پہلے گھر جا کر آپ کو پورے کپڑے پہننے چاہئیں! مجمع میں سے ایک نے جواب دیا۔
اور‘ اب آخر میں ادریس بابر کی یہ اتواریہ غزل
جنگ اور امن پہ یہ بحث ہے بیکار کی، یار
آج اتوار ہے، کیا بات ہے اتوار کی، یار
بات دشمن کی بھی احباب سمجھ لیتے تھے
حال ایسا ہے کہ سنتا ہی نہیں یار کی یار
تا کہ اب تیرے علاوہ کوئی دستک ہی نہ دے
در پہ تصویر لگا رکھی ہے دیوار کی، یار
یاں تو ہر ڈوبنے والے کی زباں پانی ہے
کوئی بچ نکلے تو پوچھوں کہ سنا پار کی، یار
کہیں اندر سے بہت کالا ہے وائٹ ہائوس
کیفیت ذہنوں پہ طاری ہے ابھی غار کی، یار
دل میں اس لڑکی نے این جی او بنا رکھی ہے
بس کبھی دوست کی دشمن کبھی اغیار کی یار
اس کا سر بھی مرے کاسے کی طرح خالی تھا
گھر تو زنبیل تھی، وہ بھی عمرو عیار کی یار
ایک ہی صف میں کھڑے لڑنے سے پہلے ادریسؔ
میں نے بابرؔ سے محبت بھی کئی بار کی، یار
آج کا مطلع
دور و نزدیک بہت اپنے ستارے بھی ہوئے
ہم کسی اور کے تھے اور تمہارے بھی ہوئے