ذہن وہ مشین ہے جو رُکنے کا نام نہیں لیتی۔ جب ہم پُرسکون حالت میں ہوتے ہیں تب بھی ذہن اپنا کام کر رہا ہوتا ہے اور جب ہم محوِ خواب ہوتے ہیں تب بھی ذہن اچھی خاصی کانٹ چھانٹ کے مرحلے سے گزرتے ہوئے ہمارے لیے ذہنی سکون کا سامان کر رہا ہوتا ہے۔ ذہن کا بنیادی کام سوچنا ہے۔ یہ کام اگر وہ ڈھنگ سے کرے تو محنت ہی اُسے تسکین عطا کرتی ہے۔ اگر سوچنے کا عمل الجھ جائے تو ذہن پر تھکن سوار ہوتی ہے جو اُس کی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ ایسے میں ہم کسی بھی حوالے سے ذہن بنانے یعنی فیصلہ کرنے اور حکمتِ عملی تیار کرنے میں الجھ محسوس کرتے ہیں۔ ہر دور میں یہ دنیا جن چیزوں سے بھری پُری دکھائی دی ہے وہ سب ذہن ہی کی بدولت ممکن ہو پائیں۔ فی زمانہ بھی ذہن ہی تمام اشیا و خدمات کو یقینی بنانے کا بنیادی اور کلیدی ذریعہ ہے۔ محققین نے کم و بیش ڈیڑھ صدی کے دوران ذہن کی کارکردگی کا گراف بلند کرنے کے حوالے سے محنت ِ شاقہ کے ذریعے جو کچھ معلوم کیا وہ حیرت زدہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ شعور، تحت الشعور اور لاشعور ... تینوں معاملات میں عشروں کی تحقیق نے انسان کو ایسے نکات سے باخبر کیا ہے جن کا کل تک کسی کو خیال و گمان تک نہ تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ فکری ساخت اور محسوسات دونوں ہی کے معاملے میں تحت الشعور کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ انسان جو کچھ سوچتا اور جن عقائد کا حامل ہوتا ہے اُن کی تشکیل و تہذیب میں تحت الشعور کا عمل دخل بہت نمایاں ہے۔ حواسِ خمسہ کے ذریعے جو کچھ ہم تک پہنچتا ہے وہ ذہن میں پروسیسنگ سے گزر کر محسوسات و خیالات کی شکل اختیار کرتا ہے۔ شعور فوری ردِعمل کا نام ہے۔ تحت الشعور کسی بھی معاملے میں ہم تک پہنچنے والی معلومات کو تجزیے کے مرحلے سے گزار کر باضابطہ خیالات کی شکل دیتا ہے۔ یوں فکری ساخت معرضِ وجود میں آتی ہے۔
ہر دور کا انسان سوچنے کے معاملے میں الجھن محسوس کرتا رہا ہے۔ سوچنے کے حوالے سے مغالطے بھی بہت پائے جاتے ہیں۔ بہت سے لوگ محض محسوسات کو بھی خیالات سمجھ لیتے ہیں۔ کسی بھی معاملے میں فوری ردِعمل کو بھی تخیل سمجھ کر خوش ہونے والوں کی کمی نہیں۔ کسی بھی صورتِ حال میں فوری ردِ عمل کے تحت کچھ محسوس کرنے اور باضابطہ سوچنے میں بہت نمایاں فرق ہے۔ ماہرین کے نزدیک یہ فرق طے کرتا ہے کہ انسان کس طور جیے گا اور اُس سے کسی کو کیا فیض پہنچ سکے گا۔ بیسویں صدی میں نفسی امور کے ماہرین نے سوچنے کے حوالے سے بہت سوچا اور لکھا۔ نیتھی نیل برینڈن نے عزتِ نفس کو موضوع بناکر زندگی بھر اُس پر طبع آزمائی۔ ایڈورڈ ڈی بونو نے سوچنے کے عمل کو بنیاد بناکر سوچا اور لکھا۔ اُن کی کتابوں کا کلیدی موضوع یہ ہے کہ انسان کو کس طور معیاری انداز سے سوچنا چاہیے اور یہ کہ سوچنے کا عمل شخصیت کی تشکیل کے ساتھ ساتھ تہذیب و تطہیر میں کا کردار ادا کرتا ہے۔ آج کا انسان سوچنے کے معاملے میں غیر معمولی دباؤ محسوس کر رہا ہے۔ یہ بالکل فطری ہے۔ ہر دور میں سوچنا دشوار عمل رہا ہے۔ انسان بہت مشکل سے اِس طرف آتا ہے۔ بہت سے ادوار میں ماحول کے اثرات قبول کرنے اور تھوڑا بہت ردِعمل ظاہر کرنے کو سوچنے سے تعبیر کرکے دل بہلانے کا سامان کیا گیا۔ بیسویں صدی سے قبل انسان یہی سمجھتا تھا کہ ماحول میں جو کچھ دکھائی دے رہا ہے اُس کے بارے میں قائم ہونے والے تاثرات ہی افکار ہیں۔ یہ ایسا مغالطہ تھا جسے رفع کرنے کے لیے سوچنے والوں کو بہت سوچنا اور لکھنا پڑا۔ بیسویں صدی میں انسان نے باضابطہ طور پر ''سوچنا‘‘ سیکھنے پر توجہ دی۔ بہت پڑھنے اور ذہن میں گمان و قیاس کے گھوڑے دوڑانے کے بعد انسان اس قابل ہو پاتا ہے کہ کچھ سوچے، دنیا کو اپنی فکری ساخت سے روشناس کرائے۔ سوچنے کا عمل ہر دور میں مشکل تھا البتہ فی زمانہ یہ باضابطہ آزمائش میں تبدیل ہوچکا ہے۔ آج ہر اعتبار سے غیر جانبدار اور حقیقت پسند ہوکر سوچنا اس قدر دشوار ہے کہ لوگ اس کوچے میں قدم رکھتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ بیسویں صدی نے انسان کو سوچنا تو سکھایا مگر ساتھ ہی ساتھ ایسے حالات بھی پیدا کیے جن میں ڈھنگ سے سوچنا انتہائی دشوار ہو جاتا ہے۔ یہ سب کچھ فطری اور ناگزیر تھا۔ فطری علوم و فنون کے حوالے سے فقید المثال پیش رفت بیسویں صدی ہی میں ممکن ہو پائی۔ انسان نے ساڑھے چار‘ پانچ ہزار سال کے فکری سفر میں جو کچھ بھی جمع کیا تھا اُسے بیسویں صدی میں بروئے کار لاکر ایک ایسی دنیا تخلیق کی جس میں ہر طرف حیرت کا سامان تھا۔ جو کچھ کبھی محض تصور ہوا کرتا تھا وہ حقیقت بن کر ہمارے سامنے آگیا۔ فضائی سفر کا انسان نے ہزاروں سال تک صرف خواب دیکھا تھا۔ بیسویں صدی نے فضائی سفر کو ممکن کر دکھایا اور وہ بھی سب کے لیے۔ یہی حال رابطوں کا ہے۔ ڈیڑھ دو سو سال پہلے طویل فاصلوں پر موجود افراد کے درمیان رابطہ محض خواب تھا۔ انیسویں صدی کے اواخر میں ٹیلی فون کی ایجاد نے معاملہ آسان کیا اور بیسویں صدی کے آخری عشروں نے تو معاملے کو حیرت کی انتہا تک پہنچادیا۔ فطری علوم و فنون اور بالخصوص ابلاغ سے متعلق وسائل کی ترقی نے انسان کو آسانیوں سے ہم کنار اور مشکلات سے دوچار کیا ہے۔ معیاری زندگی یقینی بنانے کے لیے جو کچھ درکار تھا وہ اِتنے بڑے پیمانے پر میسر ہے کہ ہر آسانی اپنے جِلو میں کوئی نہ کوئی دشواری لیے ہوئے ہے۔ استاد قمرؔ جلالوی نے کہا تھا ؎
دعا بہار کی مانگی تو اِتنے پھول کھلے
کہیں جگہ نہ رہی میرے آشیانے کو
آسانیوں کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ جب یہ بڑھ جاتی ہیں تو دشواریاں پیدا کرتی ہیں۔ انسان کا مزاج ہے ہی اِس نوعیت کا کہ تھوڑی بہت دشواریاں ساتھ ہوں تو ڈھنگ سے سوچنا، کام کرنا اور جینا قدرے آسان ہو جاتا ہے! اصغرؔ گونڈوی نے خوب کہا ہے ؎
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے!
وقت گزرنے کے ساتھ انسان کی الجھنیں بڑھتی جارہی ہیں۔ سوچنے کا عمل پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتا جاتا ہے۔ انسان خیالات کے نام پر بکھرے ہوئے خیالات کی بھیڑ لیے پھرتا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے کہ زندگی میں ایسا بہت کچھ در آیا ہے جو ضروری ہے نہ معیاری۔ جو کچھ ماحول میں ہے وہ ہم تک پہنچنے میں دیر نہیں لگاتا اور اِس کے نتیجے میں سوچنے کے عمل کی پیچیدگی بڑھتی جاتی ہے۔ ایسے میں ذہن خیالات سے تو بھر جاتا ہے مگر چند ہی خیالات ہمارے کام کے ہوتے ہیں۔ بکھرے ہوئے خیالات ہمارے لیے بے مصرف ہوتے ہیں۔ عمومی سطح پر ہم بہت سے غیر متعلق اور بے مصرف معاملات کے حوالے سے بھی کچھ نہ کچھ سوچتے رہتے ہیں۔ یہ عمل ہمارے ذہن کی کارکردگی پر شدید منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ بہت سے غیر متعلق اور غیر ضروری خیالات کے جمع ہوجانے سے ذہن کی تجزیہ کرنے اور کسی فیصلے یا نتیجے تک پہنچنے کی صلاحیت بُری طرح متاثر ہوتی ہے۔عام آدمی چونکہ سوچنے کے حوالے سے تربیت یافتہ نہیں ہوتا اور کبھی اس معاملے کو درخورِ اعتنا بھی نہیں سمجھتا اس لیے وہ ذہن میں ایسے خیالات لیے پھرتا ہے جو اُس کے لیے کام کے ہوتے ہیں نہ کسی اور کے لیے۔ افکارِ پریشاں کا یہ جنتر منتر اپنے اندر کام کی بہت سی باتیں بھی سمولیتا ہے۔ ایسا ہو جائے تو پھر اُنہیں تلاش کرنے پر اچھا خاصا وقت ضائع ہوتا ہے۔
جس طور کسی مکان کو صاف ستھرا رکھنے پر توجہ دینا پڑتی ہے بالکل اُسی طور ذہن کو بھی غیر ضروری خیالات کی دست بُرد سے بچانے کے لیے متوجہ رہنا رہنا لازم ہے۔ اگر اس معاملے میں لاپروائی برتی جائے تو ذہن فضول خیالات و عقائد کا کباڑ خانہ ہوکر رہ جاتا ہے۔ ایسی حالت میں انسان کسی بھی معاملے میں آسانی سے منطقی نتیجے تک نہیں پہنچ پاتا۔ یہ کیفیت انسان کو مواقع سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت سے محروم کردیتی ہے۔ الجھے ہوئے ذہن کے ساتھ زندگی بسر کرنا وقت ضائع کرنے ہی کی ایک شکل ہے۔ سوچنا ہر اعتبار سے ایک ہنر ہے جو سیکھنا پڑتا ہے اور سیکھے ہوئے کو محنت سے پروان چڑھانا پڑتا ہے۔