تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     13-04-2021

آج کا کالم اور اعجاز کنور راجہ کی غزل

مفت میں جتنے مشورے ہم کالم نویس دوسروں کو دیتے ہیں وہ سارے مشورے کئی گنا ضرب کھانے کے بعد واپس ہمارے پاس آ جاتے ہیں۔ ممکن ہیں ہمارے مشورے بھی اتنے ہی نامعقول ہوں جتنے ہمیں خود کو بھیجے ہوئے مشورے لگتے ہیں؛ تاہم بعض اوقات بڑے صائب اور معقول مشورے بھی مل جاتے ہیں۔ قارئین کی بھی کئی اقسام ہوتی ہیں۔ ایک وہ جو واقعتاً کالم کو سنجیدگی سے پڑھتے ہیں اور اسے باقاعدہ سیریس لیتے ہیں۔ ایسے قارئین کے مشورے معقولیت اور اعتدال پر مبنی ہوتے ہیں۔ کچھ قارئین ہمہ وقت ناراض رہتے ہیں‘ ہر بات پر اعتراض کرتے ہیں اور ہر چیز میں کیڑے نکالتے ہیں لیکن ایمانداری کی بات ہے میں ان کو بھی کسی حد تک حق بجانب سمجھتا ہوں کہ صبح سے شام تک جس بندے کو کہیں سے بھی کوئی اچھی خبر نہ ملے اس کا جھنجھلا جانا اور اس طرح کا ردعمل دینا سمجھ میں آتا ہے۔ تیسری قسم وہ ہے جو ہمارے عام سیاسی کلچر کے مطابق کسی نہ کسی پارٹی سے وابستہ ہیں اور اپنی پارٹی کی حمایت اور مخالفین کے لتے لینے کے علاوہ ان کو کوئی کام نہیں۔ یہ لوگ سمجھانے کی حد سے گزر چکے ہیں۔ ان کو ویسے ہی معافی دے رکھی ہے کہ ان سے سینگ پھنسانے کا‘ بحث کرنے کا‘ دلیل سے بات کرنے کا قطعاً کوئی فائدہ نہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر سوچنے سمجھنے کے سارے دروازے بند ہو چکے ہیں۔خدا کا شکر ہے کہ اس عاجز کو پہلی قسم والے قارئین کی اچھی خاصی تعداد میسر ہے اور وہ کالم پڑھنے کے بعد مشورہ دیتے ہوئے معقولیت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ مشورہ نیک نیتی سے دیتے ہیں اور خلوص کی مقدار بھی کم نہیں ہونے دیتے۔ ایک ایسے ہی قاری نے میرے کالموں کے بے اثر ہونے کے باوجود میرے مسلسل لکھنے کو ہائیڈ پارک لندن کے ''سپیکرز کارنر‘‘ میں روزانہ کی جانے والی ان گنت تقریروں سے تشبیہ دی ہے جو کارِ لاحاصل ہوتی ہیں اور ان کا نہ کوئی اثر ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی نتیجہ نکلتا ہے۔ میرے اس قاری نے مجھے مشورہ دیا ہے کہ ایسے عالم میں جبکہ میری کوئی سن نہیں رہا ہے مجھے ایسے موضوعات پر لکھنے کے بجائے ''آنہ لائبریری‘‘ یا ملتان میں آموں کی اقسام پر کالم لکھنے چاہئیں۔ میرے اسی قاری نے مجھے الیکشن لڑنے کا مشورہ بھی دیا۔ بہرحال یہ آخری والا مشورہ پڑھنے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ میرا یہ قاری مجھ سے کوئی پرانا بدلہ لینا چاہتا ہے اور مجھے اس دنیا میں ذلیل و رسوا کرنے کے ساتھ میری عاقبت کو بھی خراب کرنا چاہتا ہے؛ تاہم دو اچھے مشوروں کی خوشی میں اس کے آخری مشورے پر درگزر سے کام لینا ہی بنتا ہے۔
سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ کسی کالم نگار کو کن موضوعات پر لکھنا چاہئے ؟ اگر مجھ جیسے لکھنے والوں کی تحریروں پر کوئی ہل جل نہیں ہو رہی‘ اگر کسی پر ان کا اثر نہیں ہو رہا۔ کسی لکھے پر کوئی عمل نہیں ہو رہا یا کسی تحریر کا کوئی منطقی نتیجہ نہیں نکل رہا تو کیا لکھنے والوں کو کسی اور موضوع پر لکھنا چاہئے؟ یہ ایک بڑا اہم سوال ہے۔ کیا کالم نگاروں کو صرف ایسے موضوعات پر ہی لکھنا چاہئے جس کا نتیجہ کوئی نکلنے کی امید ہو؟ بلکہ زیادہ سمجھداری تو یہ ہو گی کہ صرف انہی معاملات اور موضوعات پر لکھا جائے جن کے بارے میں یقین ہو‘ یا پکی مخبری ہو چکی ہو کہ یہ مسئلہ حل ہونے والا ہے یا اس کا کوئی نتیجہ نکلنے والا ہے۔ اس سے سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہو گا کہ کالم نگار کی کریڈیبلٹی‘ رینکنگ‘ ریٹنگ اور ساکھ بہت بہتر ہو جائے گی۔ وہ ہر جگہ یہ بڑھک لگا سکتا ہے کہ ارباب اختیاراس کی سنتے ہیں۔ ا ہلِ اقتدار اس کے مشوروں پر چلتے ہیں اور حکمران اس کے کالم سے گائیڈ لائن لیتے ہیں اور وہی کرتے جو وہ کہتا ہے۔ کالم نگار کی تو بلے بلے ہو جائے گی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس سے لکھنے والے کا ضمیر مطمئن ہو سکتا ہے؟ کیا اس سے لکھنے کا حق ادا ہو سکتا ہے؟ کیا ان تمام موضوعات کو ممنوعہ سمجھا جائے جن پر کسی عملدرآمد کی امید نہ ہو؟ کیا ہم ایسے معاملات کو لاوارث چھوڑ دیں جن پر ہماری فریاد کی داد رسی نہیں ہو رہی؟ سچ کہوں تو میں ایسا ہرگز نہیں کروں گا۔ کسی صورت بھی نہیں! مایوسی کفر ہے اور میں اس کا مرتکب نہیں ہونا چاہتا۔ مجھے اس بات کی رتی برابر پروا نہیں کہ کوئی میری سنتا ہے یا نہیں سنتا۔ میں آنہ لائبریری پر بھی لکھوں گا اور ملتان میں آموں کی اقسام پر بھی لکھوں گا۔ اپنے گھر کے صحن میں کھلنے والے پھولوں پر آئی ہوئی بہار کا ذکر بھی کروں گا اور کٹتے ہوئے آموں کے باغات کا نوحہ بھی لکھوں گا‘ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنوبی پنجاب کے تیرہ اضلاع پر مشتمل چارڈویژنز اور ان میں بستے ہوئے ساڑھے تین کروڑ سے زائد لوگوں پر کون لکھے گا ؟ اگر اس علاقے کے کل اکاون ارکانِ قومی اسمبلی میں سے پی ٹی آئی کے تیس ارکان منہ میں ''گھنگنیاں‘‘ ڈال کر بیٹھے ہوں تو کیا میں خاموش رہوں؟ اگر ان تیرہ اضلاع کے کل ایک سو چھ ارکان صوبائی اسمبلی میں سے پی ٹی آئی اور اتحادی جماعتوں کے چونسٹھ اراکین مصلحت پسندی کا شکار ہوں تو میں کیا کروں؟ اگر جھوٹے وعدوں پر ووٹ بٹورنے والے خالص پی ٹی آئی کے نوے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی مع وزراء از قسم شاہ محمود قریشی‘ فخر امام‘ اختر ملک وغیرہ خاموش بیٹھے ہوں تو کیا میں بھی قلم سرہانے تلے رکھ کر سو جاؤں۔
مجھے اپنے بارے میں نہ کوئی خوش فہمی اور نہ غلط فہمی۔ لیکن مجھے یہ ضرور علم ہے کہ مجھے کیا کرنا چاہئے۔ نتیجہ نکلے یا نہ نکلے۔ کوئی سنے یا نہ سنے۔ کوئی توجہ دے یا نہ دے۔ مجھے میرے مالک نے اگر بات کہنے کا ایک فورم دیا ہے تو میں لکھوں گا۔ ممکن ہے مجھے لکھنے کا سلیقہ بھی نہ آتا ہو مگر لکھنے کا جو پلیٹ فارم ملا ہوا ہے اس پر شرح صدر سے اپنا فریضہ سرانجام دیتا رہوں گا۔ ایک قاری نے لکھا کہ میں اپنے اخبار کی قیمتی جگہ اس قسم کے حل نہ ہونے والے معاملات اور مسائل پر لکھ کر ضائع کر رہا ہوں۔ میرا ایمان ہے کہ اگر میں اس جگہ پر ذاتی مفادات کے لکھوں تو خواہ وہ معاملات حل بھی ہو جائیں تو میں یہ جگہ ضائع کرنے کا مرتکب ہوں گا اور اس کا آگے چل کر حساب دوں گا۔
میں کہہ سکتا تھا کہ ایک روز میں نے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کو لپیٹنے والے نوٹیفکیشن پر کالم لکھا اور دو روز بعد یہ نوٹیفکیشن واپس ہو گیا لیکن میں یہ نہیں کہوں گا۔ یہ کہنے کیلئے شاہ محمود قریشی‘ ڈاکٹر اختر ملک‘ احمد حسین ڈیہڑ اور ڈھیر سارے اور لوگ موجود ہیں جو نوٹیفکیشن جاری ہو تو خاموش رہتے ہیں اور واپس ہو تو نعرے لگاتے ہیں۔ اوپر سے وزیر اعلیٰ فرماتے ہیں کہ سیکرٹریٹ کو لپیٹنے والا نوٹیفکیشن دراصل ''کلیریکل مسٹیک‘‘ تھی۔ اس کلیریکل مسٹیک پر کبھی پھر سہی‘ فی الحال تو سوال یہ ہے کہ میں ان مشکل‘ ناممکن العمل اور اوکھے معاملات پر کیوں لکھتا ہوں؟ ا س کا جواب اعجاز کنورراجہ کی غزل میں پوشیدہ ہے۔ شاید میرے قارئین کو یہ غزل کچھ سمجھا سکے مجھے تو یہ غزل خوب سمجھ آ چکی ہے۔
اپنی خواہش میں جو بس گئے ہیں وہ دیوار و در چھوڑ دیں
دھوپ آنکھوں میں چبھنے لگی ہے تو کیا ہم سفر چھوڑ دیں
دست بردار ہو جائیں فریاد سے اور بغاوت کریں
کیا سوالی تیرے قصرِ انصاف‘ زنجیرِ در چھوڑ دیں
جب لعابِ دہن اپنا تریاق ہے‘ دست و بازو بھی ہیں
سانپ گلیوں میں لہرا رہے ہیں تو کیا ہم نگر چھوڑ دیں
شہریاروں سے ڈر جائیں ہم‘ حق پرستی سے توبہ کریں
اپنے اندر بھی اک آدمی ہے اسے ہم کدھر چھوڑ دیں
ہم نے دیکھا ہے دریاؤں کا رخ کنورؔ شہر کی سمت ہے
شہر والے اگر بے خبر ہیں تو کیا بے خبر چھوڑ دیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved