تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     13-04-2021

ٹوٹ پھوٹ

تعمیر میں تخریب اور تخریب میں تعمیر کی اک نہیں کئی صورتیں مضمر ہوتی ہیں۔ اگر ارادے نیک ہوں اور عزم پختہ ہو تو پھر بڑی مثالی کارکردگی سامنے آتی ہے۔ ہفتے کے روز حلقہ این اے 75 میں دوبارہ ہونے والا قومی اسمبلی کا انتخاب ہر لحاظ سے مثالی اور صاف و شفاف تھا۔ پرامن پولنگ اور عدل و انصاف کے عالمی معیار کے مطابق انتظامات کیے گئے تھے۔ ایسے انتظامات پر قدرت بھی مہربان تھی‘ لہٰذا دھند چھائی نہ ہی کوئی جھکڑ اور طوفان آیا۔ یہ بھی حسنِ انتظام کا کرشمہ تھا کہ کوئی ایک بھی پریذائیڈنگ افسر اپنا رستہ بھولا نہ کسی کے موبائل فون کی نبضیں ڈوبیں اور نہ ہی سسٹم ڈائون ہوا۔ انتخابات سے پہلے یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ ہارنے والی جماعت انتخابی نتائج تسلیم نہیں کرے گی مگر ہمارے انتخابی کلچر میں یہ خوشگوار تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے کہ نہ صرف پی ٹی آئی کے کئی قائدین بلکہ ڈسکہ سے ضمنی الیکشن ہارنے والے علی اسجد ملہی نے بڑے کھلے دل کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کی کامیاب ہونے والی ایم این اے سیدہ نوشین افتخار کو میڈیا پر مبارکباد دی۔ اس کے جواب میں محترمہ نوشین نے ملہی صاحب کے گھر مٹھائی کا ڈبہ لے جاکر اُن کا شکریہ ادا کرنے کا اعلان کیا۔ انتخابی پروسیس پر کسی بھی حوالے اور زاویے سے پری پول‘ پولنگ کے دوران اور انتخابی نتائج پر اثرانداز ہونے کے عمل کو یکسر خیر باد کہہ دیا جائے تو ہمارے بہت سے مسائل ازخود ختم ہو سکتے ہیں۔ شفاف الیکشن سے منتخب ہونے والی جماعت نہایت اطمینان سے خدمت خلق اور اپنے وعدوں کی تکمیل کا آغاز کرسکتی ہے۔
گزشتہ دو تین ہفتوں سے اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم میں شکست و ریخت کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ پی ڈی ایم کی تحریک کا پہلا فیز بہت کامیاب تھا۔ اتحاد نے اس مرحلے کے دوران چاروں صوبوں میں 20 بڑے عوامی جلسے کئے۔ ہر جلسے میں کورونا کے خوف اور سرد موسم کی شدت کے باوجود لوگوں کی بھرپور حاضری اور جوش و خروش دیکھنے میں آیا۔ 16 مارچ کے پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں ان کے اندرونی اختلافات طشت ازبام ہوگئے۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے میاں نواز شریف پر کھل کر تنقید کی اور کہا کہ اگر میاں صاحب کو اسمبلیوں سے مستعفی ہو کر لانگ مارچ کرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو وہ خود پاکستان آئیں اور تحریک کی قیادت کریں۔ ادھر مولانا فضل الرحمن اور مسلم لیگ (ن) کے قائدین ڈٹ گئے کہ پہلے استعفے اور پھر لانگ مارچ۔ یوں پیپلز پارٹی کو بند گلی میں پہنچا دیا گیا۔ بقول شاعر ع
اس گلی کے دوسری جانب کوئی رستا نہیں
مولانا فضل الرحمن کے چہرے پر کبھی کسی پبلک فورم یا پرائیویٹ مجلس میں وہ مایوسی دیکھنے میں نہیں آئی جو 16 مارچ کو سربراہی اجلاس کے مشترکہ اعلامیے کو پڑھتے ہوئے اُن کے چہرے پر چھائی ہوئی تھی۔ حکیمانہ سیاست اور مختلف الخیال سیاسی جماعتوں کے قائدین کو ساتھ لے کر چلنے کی مہارت ہی مولانا کا امتیازی وصف سمجھا جاتا ہے مگر اس روز یہ عیاں تھا کہ آج مولانا نے خود کو گرفتارِ بلا کرلیا ہے۔ اس روز ٹوٹ پھوٹ کا جو عمل شروع ہوا وہ بڑھتا ہی چلا گیا۔ مسلم لیگ (ن) نے نہایت اخلاص کے ساتھ جناب یوسف رضا گیلانی کو اسلام آباد کی سینیٹ سیٹ پر کامیابی دلوائی اور پھر اُن کو چیئرمین سینیٹ منتخب کروانے کیلئے اپنا سارا وزن اُن کے پلڑے میں ڈال دیا۔ یوسف رضا گیلانی نے اس سے پہلے ایک اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کو یقین دہانی کروائی تھی کہ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف مسلم لیگ (ن) کا ہوگا مگر پیپلز پارٹی نے اپنا وعدہ وفا نہ کیا اور یوں اتحاد میں مزید دراڑیں پیدا ہوتی چلی گئیں۔ اے این پی نے بھی سینیٹ میں گیلانی صاحب کو ووٹ دیا تھا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان دوطرفہ بیان بازی ہوتی رہی۔ مولانا کے ایما پر شاہد خاقان عباسی نے اے این پی اور پیپلز کو اظہارِ وجوہ کے نوٹس جاری کر دیے۔ شوکاز نوٹس پر اپنے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اے این پی نے اپوزیشن اتحاد سے اپنی راہیں جدا کرلی ہیں۔ توقع کے برعکس پیپلز پارٹی نے اظہارِ وجوہ کے نوٹس پر شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا اور بلاول بھٹو زرداری نے اتوار کے روز اپنی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں پہلے شوکاز نوٹس پڑھا اور پھر اُس حقارت سے پھاڑ دیا اور ساتھ ہی یہ کہا کہ ہم سیاست عزت کیلئے کرتے ہیں۔ بالغ نظری کے بجائے دوطرفہ جذباتی عمل سے اپوزیشن کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔ پی ڈی ایم کے اندر توڑ پھوڑ پر پی ٹی آئی کے وزراء اور ترجمان بغلیں بجا رہے تھے اور اپوزیشن پر طنزو طعنے کے تیر برسا رہے تھے مگر اسی دوران یکایک اُن کے اپنے گھر میں تیزی سے ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہوگیا۔ پی ٹی آئی کے سابق سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین کسی زمانے میں جناب عمران خان کے سب سے مقرب سمجھے جاتے تھے۔ اگرچہ ان کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہ تھا مگر عمران خان کے بعد انہیں پارٹی میں سب سے طاقتور شخصیت سمجھا جاتا تھا۔ خان صاحب نے انہیں وزرا کی مانیٹرنگ کی ذمہ داری سونپ رکھی تھی۔ جہانگیر ترین یہ فریضہ انجام دے رہے تھے مگر خان صاحب کے بعض حوالی موالی جہانگیر ترین کے اس مقام و مرتبے کو ناپسندیدگی سے دیکھنے لگے۔ اب حالات نے ایسا پلٹا کھایا ہے کہ ان دنوں جہانگیر ترین اپنے بیٹے علی ترین کے ساتھ عدالتوں کے کٹہرے میں انصاف طلب کرتے نظر آتے ہیں۔ اُن کا کہنا یہ ہے کہ اُن کی شوگر ملز نے کوئی کام غلط نہیں کیا اور نہ ہی منی لانڈرنگ سے اُن کا کوئی تعلق واسطہ ہے۔ جہانگیر ترین جس عدالت میں پیش ہوتے ہیں وہاں اُن کے ساتھ 30 ارکان قومی و صوبائی اسمبلی بھی اظہارِ یکجہتی کیلئے ساتھ جاتے ہیں۔ جہانگیر ترین کے قریبی حلقوں میں سے ایک دو افراد نے یہ بھی کہا ہے کہ پیشی پر ارکانِ اسمبلی کی یہ نفری تو محض ایک ٹریلر ہے۔
پارٹیوں کے اندر ٹوٹ پھوٹ کوئی قابلِ تحسین عمل نہیں۔ سیاسی جماعتیں باہمی اتحاد اور باہمی مشاورت سے ہی آگے بڑھتی ہیں۔ پی ٹی آئی کی پونے تین سال کی کارکردگی کسی بھی اعتبار سے قابل رشک نہیں۔ جناب عمران خان نے لوگوں سے جو وعدے کیے تھے اُن میں سے کوئی ایک بھی پورا نہیں ہوا۔ کسی بھی محنت کش کو روک کر پوچھ لیجئے یا تھانے کچہری میں چکر لگانے والے کسی بھی مصیبت زدہ سے اس کی بپتا سن لیجئے تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ ملک میں قیمتیں آسمان پر جا پہنچی ہیں۔ جہاں تک بجلی‘ گیس اور دیگر خدمات کے بل ہیں تو وہ ساٹھ ستر فی صد آبادی کے لیے ناقابل برداشت ہیں۔ پی ٹی آئی کے ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی سخت تشویش کا شکار ہیں کہ اگر وہ اس پرفارمنس کے ساتھ اگلے الیکشن میں عوام کے پاس جائیں گے تو انہیں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جناب وزیراعظم گہرے غوروخوض سے کام لیں۔ مہنگائی اور گورننس کے الجھے ہوئے مسائل صرف چند وزیروں کے قلمدان تبدیل کرنے سے حل نہیں ہوں گے۔ جب بھی جناب عمران خان کو اپوزیشن کی طرف سے قدرے اطمینان ہوتا ہے تو وہ پھر ''کرپشن‘‘ کے خلاف اپنے پرانے بیانات سے مہم جوئی تیز کر دیتے ہیں۔ انہیں چاہئے کہ احتساب کا کام احتساب والوں کو کرنے دیں اور خود ملکی سیاست و معیشت مستحکم کرنے کا فریضہ انجام دیں۔
اسلامی دنیا میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص ہر سربراہِ مملکت کو ''ون مین شو‘‘ اور نجات دہندہ بننے کا شوق ہوتا ہے۔ پاکستان ایک جمہوریہ ہے۔ اس کے چاروں صوبوں کو دستور پاکستان نے ایک لڑی میں پرو رکھا ہے۔ پاکستان میں ہماری ترقی دستور کی پیروی اور پارلیمنٹ کی بالادستی پر منحصر ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو چاہئے کہ اپنی اپنی پارٹیوں کے اندر ٹوٹ پھوٹ پر قابو پائیں اور تعمیرو ترقی کے عمل کو تیزتر کرنے کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ مخلصانہ تعاون کریں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved