تحریر : محمد اعجاز میاں تاریخ اشاعت     13-04-2021

تحفظِ خوراک اور رسد کا نظام

عالمی انسانی منشور کی رو سے معیاری اور بھرپور خوراک کی بر وقت فراہمی ہر انسان کا بنیادی حق ہے‘ جس کے نتیجے میں کسی قوم کی مجموعی استعداد کار اور قوتِ عمل ترقی کی راہ پر گامزن ہوتی ہے۔ مگر بد قسمتی سے وطن عزیزان ممالک میں شامل ہے جہاں آج بھی معاشی کسمپرسی کے باعث لاکھوں عوام غذائی قلت کا شکار ہیں‘ جس سے سالانہ سینکڑوں افراد لقمہ اجل بن رہے ہیں‘ جبکہ ذہنی و جسمانی لاغر انسانوں کا جم غفیر اکٹھا ہو رہا ہے۔ ملک کی 58 فیصد آبادی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے اور Global Hunger Index میں پاکستان 117 ممالک میں 94 ویں نمبر پر ہے جبکہ ملک کے 40 فیصد بچے Stunted Growth کے مسئلے سے دوچارہیں۔ نشو و نما کے بنیادی اجزا میں ہر انسانی جسم کو روزانہ خاص مقدار میں صاف پانی ‘ کاربوہائیڈریٹ‘ پروٹین‘ وٹامن‘ نمکیات اور چکنائی درکار ہوتی ہیں لیکن Cost of Diet in Pakistan کی سالانہ رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان میں ان بنیادی اجزا کی حامل مطلوبہ خوراک کی فی کس قیمت ایک لاکھ دس ہزار روپے سے ایک لاکھ نوے ہزار روپے سالانہ ہے جبکہ ملک میں 76 لاکھ افراد جو انتہائی غربت کی زندگی گزار رہے ہیں وہ یومیہ 1.9 ڈالر (یعنی 304 پاکستانی روپے کماتے ہیں)‘ اس تناسب سے ان کی سالانہ آمدن ہی کل ایک لاکھ دس ہزار روپے بنتی ہے‘ گویا وہ اپنی ساری آمدن خرچ کر دیں تب بھی اپنے اور خاندان کیلئے معیاری خوراک کا بندو بست نہیں کر سکتے۔ تحفظ خوراک سے مراد ایسی مثالی صورتحال ہے جس میں کسی علاقے کے تمام افراد فعال اور صحت مند زندگی گزارنے کیلئے درکار اور محفوظ خوراک تک ہمہ وقت طبیعی‘سماجی اور معاشی دسترس رکھتے ہوں۔ ایف اے او کے مطابق تحفظ خوراک چار عناصر پر منحصر ہے: خوراک کی پیداوار‘ خوراک تک معاشی رسائی‘ رسد میں استحکام اور خوراک کا صحیح استعمال۔ یہ ایک نہایت ضروری عمل اس لیے بھی ہے کیونکہ قومی پیداوار کی ترقی صحت مند افراد سے مشروط ہے؛ چنانچہ غذائی تحفظ انسان ‘ ریاست ‘ سماج اور معیشت کے تحفظ کا ضامن ہے۔
پاکستان میں غذائی عدم تحفظ اور خوراک کے بحرانوں کی بنیادی وجہ منڈیوں تک اشیا کی رسد کے نظام میں خرابی اور اس حوالے سے کمزور منصوبہ بندی کو قرار دیا جا سکتا ہے۔حالیہ برسوں میں پاکستان کو جس طرح خوراک کے بحرانوں اور مہنگائی کے طوفانوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے یہ سب اسی لیے ہے کہ بازار میں طلب زیادہ اور رسد کم ہے‘ پاکستان میں بنیادی خوراک میں آٹا‘ چاول‘ چینی‘ گھی‘ دالیں اور سبزیاں‘ پھل وغیرہ شامل ہیںجن کی تسلسل کے ساتھ رسد ہی سے ہماری فوڈ سکیورٹی مشروط ہے‘ مگر پاکستان میں رسد کے عمل کی کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں‘ نہ سمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی پر قابو پایا جاتا ہے اور نہ ہی خوراک کے Strategic Reservesپر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ آٹے کے بحران کو دیکھ لیں‘ گندم ہماری خوراک کا اہم ترین جزو اور توانائی کی فراہمی کی 72 فیصد حصہ دار ہے‘ جس کی فی کس کھپت 124 کلو گرام سالانہ ہے‘ مگر گزشتہ ایک برس کے دوران منڈیوں میں کئی بار آٹا نایاب ہوا۔ اگر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ملک میں گندم کی پیداوار طلب سے زیادہ ہے تو پھر گندم اور آٹا منڈیوں تک کیوں نہیں پہنچتا ؟ حالیہ دنوں میں 20 کلو آٹے کا تھیلا 1400 روپے جبکہ ایک من گندم 2200 روپے تک فروخت ہوئی اور ایف آئی اے کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پنجاب اور سندھ میں محکمہ خوراک آٹے کی رسدکو قابو کرنے میں بری طرح ناکام رہا۔ اسی طرح ملک میں حالیہ چینی کا بحران بھی شوگر مافیا کا ہی پیدا کردہ ہے‘مگر اس صورتحال کوحکومت نے جس طرح حل کرنے کی کوشش کی ہے اور جذباتی ہو کر مل مالکان میں خوف و ہراس پیدا کیا ہے اس سے لگتا ہے کہ اگلے سال کوئی مل نہیں رہے گی اور سپلائی چین پھر بری طرح متاثر ہوگی۔ اس سارے کھیل تماشے کے بیچ عوام ابھی تک پسے ہوئے ہیں ‘ آج بھی چینی 110 روپے فی کلو کے حساب سے فروخت ہو رہی ہے۔ اسی طرح پھل اور سبزیوں کا بحرانSeasonal Planning نہ ہونے کا نتیجہ ہے‘ جس کی مثال بازار میں ٹماٹروں کا بحران تھا‘ حکومت ٹماٹروں کی رسد کو قائم رکھنے میں ناکام رہی کیونکہ متبادل انتظامات ہی موجود نہ تھے۔ بیشک دالوں‘ خوردنی تیل اور درآمد شدہ اشیا پر بیرونی شرائط کے باعث حکومت کا عمل دخل نہیں ہوتا مگر اس معاملے میں بھی حکومت کو چاہیے کہ منڈیوں پر تحقیق کرے کہ کہاں سے اور کس وقت مطلوبہ اشیا سستے ترین داموں مل سکتی ہیں اور One time Subsidy دے کر عوام تک ان کی ہمہ وقت اور سستی رسائی یقینی بنائی جائے‘ مگر ایسی تحقیق اور منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔
دراصل پاکستان میں فری مارکیٹ اکانومی کا نظام رائج ہے‘ یعنی آزادمنڈی کا ایسا نظامِ جس میں منڈی کی حرکیات کو قابو کرنے میں ریاست کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا‘ مگر اس آزادی کے باوجود حکومت کا ایک محدود اور مشروط کردار ضرور ہے اور وہ ہے ریگولیشن اور سہولتوں کی فراہمی کا۔ رسد کے نظام میں تسلسل قائم رکھنے اور تحفط خوراک یقینی بنانے کیلئے حکومت کو چند اقدامات فوری طور پر کرنے چاہئیں: سب سے پہلے تو آٹے کی سمگلنگ کی روک تھام کیلئے مانیٹرنگ کا کڑا نظام متعارف کرایا جائے‘ جس میں محکمہ خوراک اور ضلعی حکومتوں کو آن بورڈ لیتے ہوئے سپیشل برانچ‘ پولیس اور آئی بی کی معاونت حاصل کی جائے اور افغانستان اور دیگر راستوں سے سمگل ہونے والے آٹے کو بچایا جائے۔ اسی طرح پاکستان میں اس وقت خصوصی طور پر پرائس کنٹرول کا کوئی ٹھوس ڈھانچہ فعال نہیں؛ چنانچہ ایک ٹھوس ادارہ ملک کی ضرورت ہے جو بازار میں روزانہ کی بنیاد پر قیمتوں کی مانیٹرنگ کرے ۔ پاکستان میں کراپ رپورٹنگ کا نظام بھی فرسودہ اور مشکوک ترین ہو چکا ہے‘ آج تک ان کا کسی بھی فصل کا تخمینہ سچ ثابت نہیں ہوا ۔ اس نظام میں جدید انتظامات جیسے GPRS سسٹم لانا ضروری ہے۔ اسی طرح سرمایہ کاری کی پالیسیوں‘ مالیاتی اور قرضہ جاتی پالیسیوں‘ رسد اور مانیٹرنگ کی پالیسیوں کے حوالے سے صوبوں اور وفاق میں رابطے کا شدید فقدان ہے جسے ختم کرنے کیلئے مرکز اور صوبوں کو کوارڈی نیشن بڑھانی چاہیے۔ اسی طرح عوام کی سوشل سکیورٹی کے جو گنے چنے منصوبے چل رہے ہیں ‘ ان میں نقدی دینے کے بجائے عوام کو راشن کارڈ جیسی سہولتیں دی جائیں تاکہ کم از کم ان کی خوراک محفوظ ہو سکے۔یہ سبسڈی بھی Target Communityکیلئے ہونی چاہیے جو واقعی ہی اس کے حقدار ہوں۔ اسی طرح ہمارے ہاںPerishable Foodsجیسے پھل‘ سبزیاں کو خراب ہونے سے بچانے کیلئے کولڈ سٹوریج کا بھی کوئی جدید نظام موجود نہیں‘ہمیں بھی دیگر ممالک کی طرحTemperature Based اور آکسیجن فری سٹوریج ٹیکنالوجی متعارف کرانی چاہیے تاکہ یہ اشیا دیر تک محفوظ رہ سکیں۔
پاکستان میں پیدا ہونے والے پھلوں کی شیلف لائف بھی دیگر ممالک سے کم ہے‘ لہٰذا پھلوں کی زندگی بڑھانے کیلئے ہمیں معیاری بیج پر تحقیق کرتے ہوئے اسے استعمال میں لانا ہوگا۔ اس طرح گندم سٹوریج کی صلاحیت کو بھی بڑھانا ہوگا‘ جس طرح دیگر ممالک میں Storage Sheds اور Silos بنائے جاتے ہیں جن میں اناج کو ذخیرہ کیا جا سکتا ہے‘ تاکہ ہنگامی صورتحال میں استعمال کیا جا سکے ۔ پاکستان میں رسد کا مؤثر نظام اور ٹھوس منصوبہ بندی‘ لوگوں تک اشیائے خورونوش کی سستی اور بہ آسانی رسائی سب سے بڑا عوامی مطالبہ ہے‘ یہ طرح طرح کی پرائس کنٹرول کمیٹیاں اور کمزور پرائس مجسٹر یٹ تب تک کوئی کارکردگی نہیں دکھا سکتے جب تک کہ رسد کے نظام کو عملاً درست نہ کیا جائے۔ حکومت کو اس حوالے سے فوری سوچنا ہوگا کہیں ایسا نہ ہو کہ رمضان المبارک میں سپلائی چین کی مسلسل خرابی اور مہنگائی کی چکی میں غریب عوام پس کر رہ جائیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved