تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     13-04-2021

چارنئی کتابیں… ( 1)

کورونا وائرس کی وبا نے گزرے ہوئے سال میں ساری دنیا کو تہ و بالا ‘درہم برہم اور مفلوج کر دیا مگر وہ علم و فضل کے بہتے ہوئے دریا کی روانی کو ہر گز متاثر نہ کر سکی۔ آج کے کالم میں آپ کا تعارف گزری ہوئی سہ ماہی میں شائع ہونے والی اور ہاتھوں ہاتھ بکنے والی اُن چار کتابوں سے کرایا جائے گا جو آپ کیلئے خصوصی دلچسپی رکھتی ہیں۔ پہلی کتاب کا نام ہے Karachi Vice (کراچی کا گناہ، جس کا مطلب ہے کراچی کا عذاب) ۔ یہ کتاب Samira Shackle نے لکھی ہے اور 276 صفحات پر مشتمل ہے ۔ وہ لوگ جو کراچی میں نہیں رہتے چاہے وہ ایک ہزار میل دور شمالی پاکستان میں ہوں یا میری طرح چھ ہزار میل دور اُنہوں نے شاید آج سے نو برس پہلے کراچی کی ایک بستی (لیاری) میں کئے جانے والے آٹھ روزہ مسلح کارروائی (ہماری زبان میں آپریشن) کے بارے میں کم یا بہت کم سنا ہوگا۔ بڑے آتشیں ہتھیاروں سے مسلح پولیس نفری کی تعداد تین ہزار تھی‘ وہ بکتر بند گاڑیوں پر سوا رہو کر لیاری پر اتنے وحشیانہ انداز میں حملہ آور ہوئے کہ دہلی اور لاہور میں معصوم اور بے گناہ عوام کے قتل ِعام کی یاد تازہ ہو گئی۔ پولیس نے لیاری کا محاصرہ کر لیا اور وہاں پر غنڈہ راج کرنے والے بدمعاش ٹولے (عرف عام میں مافیا) کا قلع قمع کرنے کیلئے جو گولہ باری کی اُس کی پاکستان کی 73 سالہ تاریخ تو کجا برصغیر پر دو صدیوں تک برطانوی راج میں بھی نہیں ملتی۔ اس علاقے میں بجلی‘ گیس اور پانی کی ترسیل بند کر دی گئی۔ گولیوں کی بارش کرتی ہوئی مشین گنوں سے فائرنگ کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ کوئی شخص گھر سے باہر نکلنے کا تصور نہ کر سکتا تھا۔ آٹھویں دن یہ شدید گولی باری بند ہوئی۔ پولیس پسپا ہوگئی اور اپنا مقصد حاصل کرنے میں برُی طرح ناکام ہوئی۔ پولیس کے پانچ افسر مارے گئے اور شہری آبادی کے (سرکاری اعلان کے مطابق) 20۔ان اعداد کی صداقت پر کسی کو بھی یقین نہیں۔مصنفہ اپنی تحقیق کے بل پر ہمیں بتاتی ہے کہ جوئے خون بہنے کے کئی دوسرے واقعات اپنی شدت اور وحشت میں لیاری آپریشن سے بھی بڑھ کر ہیں۔ مصنفہ برطانوی صحافی ہے جس کی والدہ کراچی میں پیدا ہوئیں اور وہیں پلی بڑھیں۔
وسیع پیمانے پر تشدد اور اندھے قتل اور مار دھاڑ کراچی کی روزہ مرہ زندگی کے صرف چند سال نہیں بلکہ کئی عشروں تک معمول بنے رہے۔ دسمبر2009 ء میں دہشت گردوں کے ایک حملے میں 43 افراد شہید ہوئے۔ بم دھماکوں کے بعد تین ہزار دکانوں کو نذرِ آتش کیا گیا۔ ستمبر2012 ء میں بلدیہ ٹائون کی ایک فیکٹری کو (مبینہ طو ر پر ایم کیو ایم کے بھتہ مانگنے والوں نے) آگ لگا کر وہاں کام کرنے والے 267 افراد کو زندہ جلا دیا۔ 2014 ء میں کراچی کا بین الاقوامی ہوائی اڈہ دہشت گردوں کے حملے کی وجہ سے میدانِ جنگ بن گیا۔ مندرجہ بالا واقعات کو محض مشُتے از خروارے سمجھنا چاہیے۔ٹارگٹ کلنگ‘ بوریوں میں بند لاشیں‘ بدمعاشوں کے ٹولوں کے درمیان نہ ختم ہونے والی جنگ و جدل اور پولیس کے جعلی مقابلے ،جن میں ہلاک ہو جانے والوں کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق چھ سو کے لگ بھگ تھی، اور ان میں سے نصف ہلاکتوں کا براہ راست ذمہ دارصرف ایک پولیس افسر کو سمجھا جاتا ہے۔
دو کروڑ آبادی کے شہر میں خون کی ہولی کی ایک بڑی تصویر اچھی طرح کھینچنے کے بعد مصنفہ نے پانچ کرداروں کو اپنی خصوصی توجہ کا مرکز بنایا کہ وہ اس شہرِ آشوب میں خون کی بہتی ہوئی ندی میں تیرتے ہوئے زندہ رہے۔ معمول کے مطابق کام کاج جاری رکھا (جو یقینا جان جوکھوں کا کام تھا) بال بچے کی کفالت کی۔ ان پانچ کرداروں (جن کے گرد ساری کتاب گھومتی ہے) میں ایک ایدھی ویلفیئر ٹرسٹ کی ایمبولینس کا ڈرائیور تھا۔ دوسرا ایک سابق اُستاد جواَب خدمت خلق کے ادارے کا رکن بن گیا تھا۔ تیسرا ایک ٹی وی کا کرائم رپورٹرتھا۔ ایک سماجی کارکن جو کچی اور غیر منظور بستیوں میں رہنے والوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرتا تھا اور پانچویں ایک بہادر خاتون جو گائوں سے کراچی حصول تعلیم کے لیے آئی اور تمام مشکلات کے باوجود یونیورسٹی ڈگری حاصل کرنے کا مصمم ارادہ رکھتی تھی۔
آپ بخوبی جانتے ہیں۔ ترکیب آبادی کے اجزا میں تین بڑے اجزا ہیں‘ مقامی یعنی سندھی‘ مہاجرین ‘پختون ۔ جرائم پیشہ افراد اور گروہوں نے ان تینوں وحدتوں میں اپنی جڑوں کا جال بچھا لیا ہے۔ کراچی کا سیاسی منظر ہر سیاسی جماعت کے رہنمائوں‘ خطرناک مجرموں‘ پولیس میں مجرموں کے سرپرست عناصر اور دولت مند افراد کے گٹھ جوڑ ‘ باہمی تعاون اور اشتراکِ عمل سے مرتب ہواہے۔ یہی ناپاک اتحاد کراچی کی (اور اس لحاظ سے ملک کی) بربادی کا باعث بن رہا ہے۔کراچی کے سیاسی، سماجی اور معاشی ماحول کے بدبودار اور زہریلا ہو جانے کی وجہ کیا ہے‘ یہی اس کتاب کا موضوع اور حاصلِ کلام ہے اور وہ ہے سیاست میں جرم اور سرمایے کا اتحاد اور قبضہ جسے انگریزی میں strangleholdکہتے ہیں۔
جب سمیرا بی بی کی کتاب زیر تصنیف تھی توایم کیو ایم کے سابق رہنما کا اقتدار اپنے عروج پر تھا‘ اب وہ تاریخ کا حصہ بن کر ردّی کی ٹوکری میں جا گرا ہے۔ میری مصنفہ سے ملاقات ہوئی (جس کا روشن امکان ہے) تو میں اُنہیں بعد از الطاف حسین اور بعد ازاں قتل حکیم سعید صاحب اور سانحہ بلدیہ ٹائون پر ایک مختلف کراچی پر کتاب لکھنے کا مشورہ دوں گا۔ کراچی کی آبادی دو کروڑ یا تین کروڑ ہے‘ یہ ہم نہیں جانتے مگر یہ ضرور جانتے ہیں کہ آبادی کی اکثریت بہت دُکھی ہے اور پینے کے پانی کے حصول کیلئے بھی مجرموں کے منظم ٹولے (مافیا)کے رحم و کرم پر ہے۔ مذکورہ بالا کتاب ہر محب وطن پاکستانی کو خون کے آنسو رُلا دیتی ہے۔ اسے پڑھنے والے شخص کے آنسو بمشکل تھمے ہوں گے کہ ہم اُس کے ہاتھ میں اتنی ہی اندوہناک اور درد ناک کتاب دے دیں تو وہ صدمات کا شکار ہو کر نڈھال ہو جائے گا۔ The last Homestead۔ ثانوی عنوان ہے ''میری ماں‘ تقسیم او رپنجاب‘‘۔ ''336 صفحات کی کمال کی کتاب Marina Wheeler نے لکھی جن کی والدہ پنجاب سے برطانیہ نقل مکانی کر جانے والی ایک سکھ خاتون ہیں۔ ایک ملک کا بٹوارہ ہوا تودس لاکھ عام بے گناہ لوگ مارے گئے‘ ایک کروڑ نے ہجرت کی‘75000 خواتین عصمت دری کا شکار ہوئیں۔ مصنفہ کی والدہ کا نام دیپ کور تھا جو سرگودھا کی رہنے والی تھیں۔ والد ڈاکٹر تھے۔ برٹش فوج میں ملازم اور انگریزوں کے وفا دار۔ مصنفہ کی رائے میں ہندوستان کے بٹوارے کی وجہ مذہبی منافرت یا فرقہ واریت نہ تھی بلکہ کاروبار پر ہندو ساہو کاروں کی اجارہ داری تھی۔ ہندو قوم پرستی کی بنیاد جس شخص نے رکھی اور اسے اتنی بڑی سیاسی قوت بنانے کی طرف پہلا قدم اُٹھایا۔ اُس کا نام V.D. Savarkar تھا‘ جو بذات خود ہندو دھرم کا پیرو کار بھی نہ تھا۔ اس کتاب کا حاصلِ کلام یہ ہے کہ مسلم قوم پرستی ایک ردّ عمل تھا ہندو قوم پرستی کا۔ مصنفہ کی رائے میں (جس سے غالباً میرے قارئین کی ایک بڑی تعداد اتفاق نہ کرے گی) دو قومی نظریے کا چشمہ مذہبی اختلاف کے بجائے معاشی ناہمواری، عدم مساوات اور مسلمانوں کے ذہنوں میں موجود احساسِ محرومی سے پھوٹا۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved