تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     13-04-2021

گیم چینجر

ہم میں سے کون ہے جو زندگی کو زیادہ بامقصد اور بارآور نہیں بنانا چاہتا؟ زندگی کو زیادہ سے زیادہ بارآور بنانے کی خواہش ہر انسان کو فطری طور پر ودیعت کی گئی ہے۔ کوئی کتنی ہی کوشش کرلے‘ اِس خواہش کے وجود سے انکار نہیں کرسکتا۔ سب یہی چاہتے ہیں کہ دنیا میں جو کچھ بھی ہے اُس میں سے زیادہ سے زیادہ ملے۔ زندگی کو حقیقی معنوں میں پُرآسائش بنانے کی شدید خواہش ہی انسان کو عمل کی تحریک دیتی ہے۔ یہ تحریک ہر اُس انسان کے لیے ہوتی ہے جو اپنی زندگی کو اس حد تک بامقصد اور مستحکم کرنا چاہتا ہے کہ لوگ سراہے بغیر نہ رہیں۔ اب ایک اہم سوال یہ ہے کہ اگر واقعی ایسا ہے اور ہر انسان زندگی کو زیادہ سے زیادہ بامقصد اور بارآور بنانا چاہتا ہے تو پھر اس راہ پر گامزن کیوں نہیں ہوتا؟ سوال بالکل درست اور بجا ہے مگر اس حقیقت پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ انسان کو عمل کی تحریک دینے والا ماحول مفقود ہو تو کچھ زیادہ نہیں ہو پاتا، عمل میں جی نہیں لگتا اور زندگی کو حقیقی سکون و لطف سے ہم کنار کرنے کی خواہش محض خواہش ہی کی منزل میں دم توڑ دیتی ہے۔ایسا کیوں ہے کہ کچھ لوگ ہی کچھ زیادہ کر پاتے ہیں اور اکثریت کا حال یہ ہے کہ بہت کچھ پانے کی شدید خواہش کی حامل ہوکر بھی محرومی کی حالت ہی سے دوچار رہتی ہے؟ بہت آسانی سے یہ مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ لوگ بہت کچھ پانا چاہتے ہیں مگر اُس کے لیے جو کچھ درکار ہے‘ اُس سے گریزاں رہتے ہیں۔ عمل کی کسوَٹی پر خود کو پرکھنے کے لیے کم ہی لوگ تیار ہو پاتے ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ماحول انسان کے حوصلے پر ضرب لگاتا رہتا ہے۔ ہر انسان بہت کچھ کرنا چاہتا ہے مگر جب وہ کچھ کرنے نکلتا ہے تو اُسے اندازہ ہوتا ہے کہ ماحول عمل دوست نہیں۔ ماحول کو نظر انداز کرکے اپنی راہ پر گامزن رہنے والے خال خال ہوتے ہیں۔ ماحول پر چھائی ہوئی پژمردگی عام آدمی کو عمل کی تحریک سے محروم کرنے لگتی ہے۔ اگر ذہن پوری طرح تیار نہ ہو تو انسان ماحول کے زیرِ اثر عمل کی تحریک سے محروم ہونے لگتا ہے۔
عمومی سطح پر رہتے ہوئے کچھ کرنے کی صورت میں عمومی سطح کی کامیابی ہی مل پاتی ہے جو انسان کے لیے بھرپور تسکین و تشفّی کا سامان نہیں کرتی۔ بھرپور کامیابی کے لیے بھرپور محنت کرنا پڑتی ہے اور اِس سے پہلے بھرپور ذہنی تیاری کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ ہر انسان کو چند رکاوٹوں کا سامنا رہتا ہے جنہیں ہٹانا یا گرانا لازم ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ رکاوٹوں کو نظر انداز کرکے یا اِدھر اُدھر سے گزر کر کام چلا سکتا ہے تو وہ یقینا صریح غلطی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ ٹیڑھے میڑھے راستوں سے گزرتے ہوئے جینا کسی بھی اعتبار سے مثالی حیثیت کا حامل نہیں ہوتا۔ اگر کسی کو آگے بڑھنا ہے تو سیدھی راہ پر گامزن ہونا پڑے گا۔
آپ نے ''گیم چینجر‘‘ کی اصطلاح ضرور سُنی ہوگی۔ کھیلوں کی دنیا میں بعض افراد گیم چینجر ہوتے ہیں یعنی کسی بھی وقت مقابلے کا نقشہ بدل دیتے ہیں۔ ان کی کارکردگی میں ڈرامائی عنصر غالب رہتا ہے۔ یہ جب میدان میں قدم رکھتے ہیں تو تماشائیوں کو یقین ہوتا ہے تو اب کچھ الگ سے دیکھنے کو ملے گا۔ کرکٹ ٹیم میں شاہد آفریدی ایک گیم چینجر کی حیثیت رکھتے تھے۔ جس دن اُن کا بیٹ گھوم جاتا تھا اُس دن وہ سب کو گھماکر رکھ دیتے تھے۔ وہ کم گیندیں کھیل کر زیادہ رنز سکور کرتے، طویل اننگز انہوں نے بہت کم کھیلیں۔ وہ بولرز کی کمزوری بھانپ لینے کے بعد اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ پاتے تھے۔ اکثر یہ بے صبری نقصان دہ بھی ثابت ہوتی تھی مگراِسی بے صبری نے پاکستان کو کئی (بظاہر) ہارے ہوئے میچ جتوائے۔ کسی زمانے میں عبدالرزاق بھی یہی کردار ادا کرتے تھے۔ شعیب اختر نے باؤلنگ کے میدان میں گیم چینجر کا کردار ادا کیا۔ ماضی میں جھانکیے تو جاوید میاندا د روایتی نوعیت کے گیم چینجر نظر آتے ہیں۔
ہر انسان کو بے مثال نوعیت کی کامیابی یقینی بنانے کے لیے گیم چینجر کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ گیم چینجر وقت کی نزاکت سے میل کھانے والے ہنر کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے اور علم کے حوالے سے بھی کوئی رویہ گیم چینجر کا کردار ادا کرسکتا ہے۔ زمانہ جس چیز کا ہو وہی اپنائی جائے تو زندگی میں معنویت پیدا ہوتی ہے، کامیابی آسان ہوتی جاتی ہے۔ ایک دور تھا کہ لوگ خلیجی ممالک میں جاکر کام کرنے کو ترجیح دیتے تھے کیونکہ وہاں آمدنی بہت زیادہ تھی۔ یہ گیم چینجر تھا۔ جو خلیج میں سات آٹھ سال لگاکر آتا تھا وہ واپس آکر باقی زندگی سکون سے گزارتا تھا۔ پھر ایک دور ایسا بھی آیا جب نئی نسل کے سر پر ڈاکٹر یا انجینئر بننے کا بھوت سوار ہوا۔ یہ سب کچھ بھی اس لیے تھا کہ ڈاکٹرز اور انجینئرز زیادہ کماتے تھے۔ پھر انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور آیا اور اُس کے بعد نوجوان میڈیا کی طرف متوجہ ہوئے۔ نئی نسل کے ذہن میں صرف یہ بات تھی کہ جس چیز کا زمانہ چل رہا ہے وہی گیم چینجر ہے۔ یہ بات درست تو ہے مگر ایک خاص حد تک! اگر کوئی ترقی کرنا چاہتا ہے، بھرپور کامیابی یقینی بنانے کا خواہش مند ہے تو اُسے اپنی زندگی میں ایسا کچھ شامل کرنا پڑے گا جو گیم چینجر ثابت ہو۔ کوئی اعلیٰ ہنر سیکھ کر بھی زندگی کی سمت بدلی جاسکتی ہے۔ کوئی فیصلہ بھی گیم چینجر کا کردار ادا کرسکتا ہے۔ کبھی کبھی انسان وقت کی نزاکت کو نظر انداز کرتے ہوئے کوئی نامناسب فیصلہ کر بیٹھتا ہے اور پھر اس کا خمیازہ بھگتتا ہے۔ اِس کے برعکس کوئی بروقت، موزوں اور بارآور فیصلہ زندگی کو نئی معنویت سے ہم کنار کرتا ہے۔ کبھی کبھی کسی چیز کی خریداری گیم چینجر کا کردار ادا کرتی ہے۔ کبھی ہم کہیں جاتے ہیں اور یہ جانا ہی گیم چینجر ثابت ہو جاتا ہے۔ اِسی طور کسی سے ملنا بھی گیم چینجر ہوسکتا ہے۔ بہر کیف! زندگی بروقت اور موزوں ترین فیصلے چاہتی ہے۔ ایسے فیصلے ہی گیم چینجر ثابت ہوتے ہیں۔
نئی نسل کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ فی زمانہ جن علوم و فنون کی اہمیت ہے اُن میں مہارت پیدا کرنے پر توجہ دی جائے تو زندگی زیادہ بارآور ثابت ہوسکتی ہے۔ جدید ترین اور معاشی اہمیت کے حامل علوم و فنون میں مہارت حاصل کرنا نئی نسل کے لیے گیم چینجر کا درجہ رکھتا ہے۔ بعض مہارتیں انسان کو تیزی سے آگے لے جاتی ہیں۔ کاروباری دنیا میں وہ لوگ گیم چینجر ہیں جو حالات پر نظر رکھ کر موزوں ترین فیصلے کریں۔ خریداری اُسی وقت موزوں رہتی ہے جب قیمت کم ترین سطح پر ہو۔ شاندار کامیابی کے لیے کارکردگی بھی شاندار ہی ہونی چاہیے۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب ہمیں درست ترین اندازہ ہو کہ کب کیا کرنا ہے۔ درست فیصلے اور اُن پر بروقت عمل سے زندگی کو نئی سانسیں ملتی ہیں۔ ایسے فیصلے اور اُن پر عمل کو ہم گیم چینجر کے طور پر جانتے ہیں۔ زمانے سے مطابقت والے علم و ہنر ہی سے انسان کچھ کر پاتا ہے۔ ہمیں ایسی مہارتوں کے حصول پر متوجہ رہنا چاہیے جو ہمیں تیزی سے آگے لے جانے کی اہل ہوں۔ زندگی کا رخ اُن چیزوں، فیصلوں اور مہارتوں سے تبدیل ہوتا ہے جو زمانے سے مطابقت رکھتی ہوں اور اپنے آپ میں اچھی خاصی وقعت کی حامل بھی ہوں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved