دو ہزار اٹھارہ میں جب تحریک انصاف نے اقتدار سنبھالا تو اس کے سامنے پہلا مسئلہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی تھا۔ اس مسئلے کا سیدھا سا حل یہ تھا کہ پاکستان آئی ایم ایف کی طرف جاتا اور بیرونی قرضے ادا کرنے کیلیے ایک نیا قرض لے لیتا۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا کہ مسلسل گرتے ہوئے روپے کو سہارا مل جاتا اور نئی حکومت کو موقع کہ وہ سکون سے اپنے منشور پر عمل کرتے ہوئے معیشت کو نئی جہت دینے کی کوشش کرتی۔ مگر ایسا ہو نہ پایا۔ اسد عمر کا بطور وزیر خزانہ یہ خیال تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا سیاسی طورپر نقصان دہ ہو گا لیکن ان کے پاس قرض ادا کرنے کا کوئی ذریعہ موجود نہ تھا۔ اس موقع پر جنرل قمر جاوید باجوہ سامنے آئے اور ان کی مدد سے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سے کچھ دوستانہ امداد نما قرضہ مل گیا جو چند ماہ گزارنے کے لیے کافی تھا۔ اسد عمر آئی ایم جانے کا فیصلہ کر پا رہے تھے نہ اس کے بغیر آگے بڑھنے کا راستہ انہیں سوجھ رہا تھا۔ صورت حال خطرناک ہونے لگی تو جہانگیر ترین بروئے کار آئے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کو ملک کے ممتاز ماہرین معاشیات سے ملوانا شروع کر دیا۔ شوکت ترین انہی لوگوں میں سے ایک تھے جو وزیر اعظم سے ملے اور ایک آدھ کے سوا سبھی نے فوری طور پر آئی ایم ایف جانے کا مشورہ دیا۔ اسد عمر یہ صورت حال دیکھ رہے تھے۔ ان پر فیصلہ کرنے کا دباؤ بڑھنے لگا۔ اسی دوران ڈاکٹر حفیظ شیخ کا نام وزارت خزانہ کے لیے سامنے آنے لگا اور ان کی جہانگیر ترین سے پرانی واقفیت کی وجہ سے اسد عمر نے فطری طور پر یہ سوچا کہ جہانگیر ترین ان کی وزارت کے درپے ہیں‘ حالانکہ حفیظ شیخ کو لانے والے عمران خان کے دوست تھے، جہانگیر ترین تو محض صورت حال پر نظر رکھے ے تھے۔ اسد عمرکا ہٹنا ان کے لیے دھچکا تو تھا ہی مگر اس کے ساتھ ہی تحریک انصاف کے لیے یہ پیغام بھی تھا کہ جہانگیر ترین کو نااہل ہونے کے باوجود بھی ہلکا نہ لیا جائے۔ ان کا ستارہ اس عروج پر پہنچ چکا تھا جہاں سے زوال کا آغاز ہوتا ہے۔
عدالتی نااہلی جہانگیر ترین صاحب کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ اسد عمراور شاہ محمود قریشی نے ان کی اس کمزوری سے کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ پہلے شاہ محمود قریشی نے حکومتی معاملات میں ان کی مداخلت پر بیان بازی شروع کی اور پھر اسد عمر نے چینی پر سبسڈی کا معاملہ اٹھا لیا۔ وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری‘ جو ترین کی موجودگی میں خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگے تھے، ان دونوں کے ساتھ مل گئے۔ واقفانِ حال یہ بھی بتاتے ہیں کہ ان سب نے ہی وزیر اعظم کو احتساب کی راہ سجھائی اور چینی پر ایک بے معنی انکوائری شروع کرا کے ترین کو ایوان اقتدار سے نکال باہر کیا۔ اس طرح وہ ایک آدمی جو عمران خان کے منہ پر درست بات کر سکتا تھا، نہ رہا۔ یوں بھی اقتدار کی دیوار کے ساتھ لگائی جانے والی سیڑھی کاٹ دینے کا رواج اتنا ہی پرانا ہے جتنا خود انسان۔ مخالف گروپ کا خیال تھا کہ نااہلی کے بوجھ تلے دبے جہانگیر ترین پر انکوائری کا وزن بھی پڑے گا تو یہ ہمیشہ کیلئے ٹوٹ جائیں گے۔ یہ اندازہ اسی دن غلط ثابت ہو گیا جب وہ برطانیہ سے واپس آئے۔ انہیں شکار بنانے کا پہلا ثبوت اسی دن مل گیا جب ان کی واپسی کے بعد کسی کے کہنے پر نئی تحقیقات شروع کر دی گئی تھیں۔ یہ سب کرنے والے بھول گئے کہ جہانگیر ترین کھڑے بھی ہو سکتے ہیں۔
سیاست کا اصول ہے کہ جو للکارنے لگے، لوگ اپنی اپنی وجہ سے اس کے ساتھ ملنے لگتے ہیں۔ ترین صاحب نے کچھ دن کی خاموشی کے بعد لوگوں سے ملنا شروع کیا اور پھر خاموشی توڑی تو یوں کہ اس کے ساتھ کھڑے اراکین اسمبلی کی تعداد کم از کم اتنی تھی جو وفاق اور پنجاب کی حکومتیں گرانے کیلئے کافی ہے۔ یہ سب وہ اراکین قومی و پنجاب اسمبلی تھے جو کسی نہ کسی وجہ سے حکومت سے ناراض تھے۔ کسی کو وزارت دے کر لے لی گئی تھی، کسی کو بھلا دیا گیا تھا اور کوئی حلقے میں کام نہ ہونے پر دلبرداشتہ تھا۔ اگر حکومت کی عمومی کارکردگی بہت اچھی ہوتی تو یہ انفرادی مطالبات بڑی سہولت کے ساتھ نظر انداز کیے جا سکتے تھے‘ لیکن گزشتہ پونے تین برسوں میں جس نالائقی اور نکمے پن کا مظاہرہ ہوا، اس کے ہوتے ہوئے تو خان صاحب کے وہ دوست بھی ناراض ہیں جو ان کے دست و بازو بنے ہوئے تھے۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ خان صاحب کے ان دوستوں کی بھی خواہش ہے کہ جہانگیر ترین واپس حکومت میں آ جائیں اورکم از کم پنجاب میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس کیلئے انہوں نے تحریک انصاف کے اکابرین کو سمجھانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن عمران خان آڑے آتے رہے۔ خان صاحب کے اس رویے سے مایوس ہو کر دوستوں نے خاموشی اختیار کر لی اور جہانگیر ترین بولنے لگے۔ ابھی وہ صرف میڈیا پر بولے ہیں تو حکومت لرزنے لگی ہیں۔ وہ بول بھی کیا رہے ہیں کہ میرے ساتھ وہ سلوک کیا جائے جو ہر ملزم کے ساتھ ہوتا ہے، میرا شکار نہ کھیلا جائے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ تقاضا میڈیا ٹاک سے ہوتا ہوا عشائیوں اور استقبالیوں تک جائے گا، پھر کارکنوں تک پہنچے گا، الیکشن آنے تک خیبر پختونخوا کے چند 'اہل دل‘ ان کے ساتھ مل جائیں گے اور تحریک انصاف‘ جس نے ویسے بھی ایک نا خوشگوار واقعہ بن کر تاریخ کے گھاٹ اترنا تھا‘ اب اپنوں کے ہاتھوں خاک میں مل جائے گی۔
میں نے ایک دن جہانگیر خان ترین سے کہا کہ آپ تحریک انصاف کے لیے خطرہ بنتے چلے جائیں گے۔ انہوں نے دائیں ہاتھ کے اشارے سے میری بات ہوا میں اڑا دی اور کہا، 'میرے پاس کئی ایم این اے آئے اور یہی بات کی لیکن میں نے انہیں سمجھایا کہ ہماری تو جدوجہد ہی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے خلاف رہی ہے، اب ہم ان کے ساتھ نہیں مل سکتے، ہماری جماعت تحریک انصاف کے سوا کوئی نہیں‘۔ میں خاموش ہو گیا، لیکن مجھے اس پر ایک لمحے کے لیے بھی شک نہیں رہا کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں ایک بار اختلاف شروع ہو جائے تو یہ دشمنی پر ختم ہوتا ہے۔ جہانگیر ترین اب خود جو بھی کہیں، واقعات انہیں تحریک انصاف سے دور کرتے جائیں گے۔ اتنا دور کہ جہاں سے وہ چاہ کر بھی واپس نہیں آ پائیں گے اور عمران خان چاہ کر بھی ان کے ساتھ نہیں چل پائیں گے۔
یہ سلسلہ رک سکتا ہے اور اس حکومت کی باقی ماندہ مدت میں کچھ بہتری بھی آ سکتی ہے، اتنی کہ الیکشن میں یہ منہ دکھا سکے۔ اس کے لیے لیکن وزیر اعظم کو اپنی جماعت اور حکومت میں از سر نو صف بندی کرنا ہو گی۔ چند اہداف کا تعین کر کے انہیں حاصل کرنا ہو گا۔ اس کے لیے انہیں جہانگیر خان ترین کی بھی ضرورت ہے، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کی بھی۔ وزیر اعظم کے ارد گرد موجود بعض لوگ درست بات سمجھ سکتے ہیں نہ اسے وزیر اعظم کے منہ پر کہنے کی ہمت رکھتے ہیں۔ ان لوگوں کا کل سرمایہ دوسروں کی غیبت سے اپنے قد میں اضافے کا فن ہوتا ہے اور بس۔ اگر انہی کے ساتھ حکومت چلانی ہے تو پچھلا تجربہ گواہ ہے کہ یہ لوگ تو سائیکل بھی سیدھی نہ چلا پائیں۔
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ حکومتیں بے عملی اور نالائق مشیروں کی وجہ سے ختم ہوتی ہیں۔ خان صاحب کی حکومت کچھ نہ کرنے اور اپنے مشیروں کی وجہ سے ختم ہو چکی ہے۔ اب یہ انجام کو پہنچتا ہوا ایسا تماشا ہے جس کا آخری منظر دیکھنے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ سب جانتے ہیں کہ اس حکومت کو گھسٹ گھسٹ کر دن پورے کرنے ہیں۔ اس نے غیر ضروری طور پر نئی مردم شماری کا سلسلہ شروع کر کے یہ سمجھ لیا ہے کہ اس نے اپنے خلاف سازشوں کو2023تک روک لیا۔ اسے یہ بھی علم نہیں کہ نئی مردم شماری اس کی بقا کی وجہ نہیں بلکہ ہیئت مقتدرہ میں نظام کو مضبوط کرنے کی خواہش اسے اب تک مصنوعی طور پر آکسیجن فراہم کر رہی ہے۔ تحریک انصاف والوں کو یہ وہم ہے کہ اگر اس کی حکومت ختم ہوئی تو وہ سڑکوں پر اودھم مچائیں گے۔ یہ وہم نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کو بھی تھا، کسی درجے میں مولانا فضل الرحمن کو بھی لاحق ہے۔ ان سے کچھ نہ ہو سکا تو عمران خان کیا کر لیں گے۔