جسے کہتے تھے سیاست ختم ہو گئی، اس
نے لندن میں بیٹھ کر ہرا دیا: مریم نواز
میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''جسے کہتے تھے سیاست ختم ہو گئی، اس نے لندن میں بیٹھ کر ہرا دیا‘‘ اور میں بھی اسی لیے لندن جانا چاہتی ہوں کہ وہاں بیٹھ کر ایسی فتوحات حاصل کروں کیونکہ یہاں بیٹھ کر سیاست نہیں ہو سکتی جبکہ اپنی اس کامیابی کے بعد نواز شریف تو کبھی واپس نہیں آئیں گے ۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہی تھیں۔
بلاول نے شوکاز نہیں، پی ڈی ایم کا گریبان پھاڑ دیا: فردوس عاشق
وزیراعلیٰ پنجاب کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ''بلاول نے شوکاز نہیں، پی ڈی ایم کا گریبان پھاڑ دیا‘‘ حالانکہ پی ڈی ایم میں دیوانگی کی علامات ظاہر ہونا شروع ہو گئی تھیں اور اس نے ناکام عاشق کی طرح اپنا گریبان خود ہی پھاڑ کر کسی جنگل یا صحرا کی راہ لینی تھی، بلاول نے مفت میں اپنی توانائی خرچ کر ڈالی ،جو انہیں حکومت کو تقویت پہنچانے والے کسی اور اقدام کیلئے بچا کر رکھنی چاہیے تھی جبکہ اب تو پی ڈی ایم کے ساتھ ان کا اتحاد بھی نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے اور صرف اس کا اعلان کرنا باقی ہے جس کیلئے ہم پورے خشوع و خضوع سے انتظار کر رہے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہی تھیں۔
خدمت آپکی دہلیز پر کا مقصد حکومت
کی موجودگی ثابت کرنا ہے: بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان احمد بزدار نے کہا ہے کہ ''خدمت آپ کی دہلیز پر کا مقصد حکومت کی موجودگی ثابت کرنا ہے‘‘ کیونکہ حکومت اب تک کسی کو نظر ہی نہیں آ رہی تھی حالانکہ ہم نے شروع سے ہی سارا زور اسی بات پر لگایا ہوا ہے جبکہ پہلے تو اس کی وجہ ہم یہی سمجھتے تھے کہ پورے ملک کی بینائی کمز ور ہو گئی ہے اور جو لوگ عینک لگاتے ہیں انہیں اس کا نمبر تبدیل کروانے کی ضرورت ہے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ لوگوں کے پاس عینک کا نمبر تبدیل کروانے کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں اور جس کی وجہ صرف ان کی فضول خرچی ہے کہ وہ اشیائے خورو نوش پر ہی سارے پیسے خرچ کر دیتے ہیں حالانکہ خورو نوش میں کمی یا اسے بریک بھی لگائی جا سکتی ہے۔ آپ اگلے روز شیخ رشید احمد کے ساتھ ترقیاتی منصوبوں پر بات کر رہے تھے۔
ضمنی الیکشن ہارنا حکومت کے لیے
پیغام ہے کہ گھر جائو: حمزہ شہباز
پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''ضمنی الیکشن ہارنا حکومت کے لیے پیغام ہے کہ گھر جائو‘‘ اگرچہ اس سے پہلے بھی حکومتیں ضمنی الیکشن ہارتی رہی ہیں لیکن یہ حکومت ڈسکہ کا الیکشن دو بار ہاری ہے اس لیے ہم یہ بات کہہ رہے ہیں، اس کے علاوہ ہمارے سارے ہتھکنڈوں کے بعد بھی اگر یہ گھر نہیں جا رہی تو کم از کم اس شکست کے بعد ہی یہ کام کر گزرے کہ آخر اخلاق بھی کوئی چیز ہوتی ہے جبکہ ہمارا اخلاق اس قدر مضبوط ہے کہ پی ڈی ایم کے حصے بخرے ہو جانے کے بعد بھی مایوس نہیں ہوئے کیونکہ مایوسی گناہ ہے جو ہم نے کبھی نہیں کیا۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
ماہنامہ تخلیق
اسے لاہور سے سونام اظہر جاوید شائع کر رہے ہیں۔ آغاز حمد و نعت سے کیا گیا ہے جس کا ثواب حاصل کرنے والے حسن عسکری کاظمی، بشریٰ رحمن اور ڈاکٹر ایوب ندیم ہیں۔ حال ہی میں انتقال کر جانے والے ممتاز افسانہ نگار ڈاکٹر رشید امجد کا گوشہ شامل ہے جس کے لکھنے والوں میں ڈاکٹر ہارون رشید تبسمؔ، نسیم سحر اور آفتاب خان شامل ہیں۔ مضامین ڈاکٹر سعادت سعید، حسن عسکری کاظمی، سید رضا حسین زیدی اور جاوید عباس جاوید نے تحریر کیے ہیں۔ افسانوں میں سمیع آہوجا، آغا گل، ظفر سپل اور دیگران ہیں جبکہ حصۂ غزل میں انور مسعود، راحت چغتائی، آصف ثاقب، محمود شام، صابر ظفر، نجیب احمد، غلام حسین ساجد، حسین مجروح، عباس تابش، خالد اقبال یاسر، ممتاز راشد، بسمل صابری، امجد بابر اور گستاخ بخاری نمایاں ہیں۔ اس کے علاوہ لکھنے والوں میں ڈاکٹر امجد پرویز، جمیل احمد عدیل، ڈاکٹر انعام الحق جاوید، گلزار بخاری اور ڈاکٹرغافر شہزاد نمایاں ہیں۔
اور ، اب آخر میں آزاد حسین آزاد کی غزل:
خلا میں روز ستاروں سے ہٹ کے ملتے ہیں
بچھڑنے والے دیاروں سے ہٹ کے ملتے ہیں
وہ آنکھ چاہے کسی زاویے سے تکتی ہو
ہزار متن اشاروں سے ہٹ کے ملتے ہیں
ہمارے جیسوں کو موسم ہرا نہیں کرتے
ہم ایسے سبز، بہاروں سے ہٹ کے ملتے ہیں
فرازِ موج سے کہتے ہیں دُور لے جائے
بھنور کے بیچ کناروں سے ہٹ کے ملتے ہیں
ہمارے بیچ تجازب سے کچھ الگ سا ہے
ہم اپنے اپنے مداروں سے ہٹ کے ملتے ہیں
کھلا ہوں جن پہ میں، سود و زیاں نہیں تکتے
جو مل چکے ہیں، خساروں سے ہٹ کے ملتے ہیں
کسی غزال کے پیروں سے روندے ہوتے ہیں
جو سُرخ پھول کھچاروں سے ہٹ کے ملتے ہیں
تجھ ایسی قوس زمانوں کے بعد دِکھتی ہے
تجھ ایسے رنگ نظاروں سے ہٹ کے ملتے ہیں
یہ انتظار صعوبت ہے جلد بازوں کو
کچھ اس لیے بھی قطاروں سے ہٹ کے ملتے ہیں
کہیں کہیں یہ بھلے آدمی بھی ہوتے ہیں
کہیں پہ لوگ اداروں سے ہٹ کے ملتے ہیں
آج کامقطع
صبح سی ہر دم کئے رکھتا ہے جو ہر سُو ، ظفر
دیکھنے میں اس کا اپنا شام جیسا رنگ ہے