دس اپریل کو حلقہ این اے 75 ‘ڈسکہ میں ہونے والے ضمنی انتخاب کے نتائج نہ تو حیران کن ہیںاور نہ ہی غیر متوقع۔ موجودہ حکومت کے دور میں مہنگائی اور اقتصادی بد حالی کا غصہ عوام کو حکومت اور حکمران جماعت سے بد دل کئے ہوئے ہے اور یہ الیکشن اس صورتحال پر ریفرنڈم ثابت ہو ا ہے ۔ اس ریفرنڈم میں حکمران جماعت چاہے تو کورونا وبا میں دکانوں کی بندش کو بھی اپنی ناکامی کا جواز سمجھ لے‘ مگر بنیادی حقیقت لوگوں سے ڈھکی چھپی نہیں کہ مسلم لیگ (ن) کو اس حلقے میں بڑی کامیابی ملنے کی وجہ کیا ہے ۔اچھا حکیم اور ڈاکٹر ہمیشہ مریض کی نبض دیکھ کر اس کی بیماری یا کسی اندرونی تکلیف کا پتہ چلا لیتا ہے گوکہ یہ نعمتیں اب ناپید ہوتی جا رہی ہیں لیکن ہم نے اپنی زندگی میں ایسے حکیموں اور ڈاکٹر وں کودیکھ رکھا ہے جن میں سے اکثر تو مریض کی نبض دیکھے بغیر بھی بیماری سے آگاہی حاصل کر لیتے تھے ۔یہ سب ان کے تجربے اور مشق کی وجہ سے تھا۔یہی صورت قومی اور سیاسی معاملات کی بھی ہوتی ہے کہ زیرک سیاستدان اور حکمران عوام کے دل کی دھڑکنوں کو پہچان لیتے ہیں‘ ضروری نہیں کہ عوام کپڑے پھاڑتے ہوئے احتجاج کریں تو حکمرانوں کی سمجھ میں آئے کہ وہاں کوئی مسئلہ ہے۔
یہ درست ہے کہ این اے75 ڈسکہ ہمیشہ سے مسلم لیگ (ن) کا گڑھ رہا ہے اور یہاں سے صرف ایک مرتبہ اسجد ملہی (ق) لیگ کے ٹکٹ پر کامیاب ہوسکے تھے ‘اس کے بعد سے اب تک سید افتخار الحسن شاہ کا خاندان ہی اس حلقے میں کامیاب ہوتا چلا آ رہا ہے۔ مگر یہ حوالہ کوئی ایسی قید نہیں لگاتا کہ اس میں تبدیلی نہیں آسکتی‘بنیادی وجہ اس ناکامی کی معاشی اور عوامی مسائل سے حکومت کی عدم توجہی ہے۔تحریک انصاف کی حکومت آتے ہی چینی‘ آٹاا ور خوردنی تیل سمیت متعدد اشیا کی قیمتیں بڑھا دی گئیں۔ درآمدی اشیا کے معاملے میں یہ کہا گیا کہ ڈالر مہنگا ہو گیا ہے‘ مگراب ڈالر نیچے آنے کے با وجود مہنگائی میں کمی کی بجائے اضافے کا رجحان ہے ۔ اسلام آباد یا لاہور میں بیٹھے ہوئے کسی بڑے صاحب کی جب کبھی خیال آتا ہے تو ایک ٹوئٹ جاری ہوجاتا ہے جس پر ایک دو دن کے لیے اسسٹنٹ کمشنرز کو کارروائی دکھانے کی ہدایات جاری کر دی جاتی ہیں جو انتہائی غریب خوانچہ فروشوں کو جرمانہ کرکے‘ ان کی ریڑھیاں سرکاری قبضے میں لے کر انہیں سزا دیتے ہوئے گھروں کو چل دیتے ہیں‘ جبکہ مہنگائی کے اصل محرکات تک نہ ان کی پہنچ ہے اور نہ ہی شاید وہ بوجوہ اس جانب رخ کرنا چاہتے ہیں۔جس دن کسی ایک سائل کی اپنے علا قے کے نہری یا مال کے پٹواری‘تھانے کے محرر یاکسی بھی سرکاری دفتر میں درمیانے درجے کے اہلکار تک بغیر رشوت شنوائی ہو گئی وہ دن اس ملک کی تقدیر بدلنے کی نوید دینے لگے گا ۔لیکن ایساہوتا ابھی دکھائی نہیں دیتا۔ رشوت کی مانگ اب اور زیا دہ ڈھٹائی سے کی جانے لگی ہے بلکہ اب تو یہ کہہ کر ریٹ بڑھا دیے گئے ہیں کہ تبدیلی آ چکی ہے۔حیرت ہے کہ حکومت قریب تین برسوں سے احتساب اور شفافیت کے نعرے مار رہی ہے مگر عملی کارکردگی کے ثبوت کے طور پر ایک بھی کیس ایسا نہیں جسے پیش کیا جاسکے۔حکومت کی توجہ نجانے کس جانب ہے ‘ رشوت کے خاتمے کی جانب تو یقینا نہیں ہے‘ اگر ایسا ہوتا تو آج صورتحال یقینا مختلف ہوتی۔
ڈسکہ این اے 75 کا ضمنی الیکشن تحریک انصاف اسی طرح ہاری ہے جیسے مسلم لیگ (ن) اپنی حکومت کے جوبن میں لودھراں میں تحریک انصاف سے ہاری تھی ۔عوام کے حالات اُس وقت بھی ایسے ہی تھے جیسے اب ہیں‘ لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ عمران خان صاحب نے اپنی تقریروں میں عوام کو اس قدر امیدیں دلا دی تھیں کہ انہیں لگتا تھا جیسے ہی عمران خان کی حکومت آئے گی توتھانیدار‘ پٹواری اور دیگر اہلکار اور سرکاری ملازمین اپنی جانب آتے کسی بھی غریب سے غریب سائل کو دیکھ کر فوراً کرسی سے اُٹھ کر اسے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہوئے اس کی بات سنیں گے اور بغیر کوئی رشوت یا نذرانہ لئے اور تاریخیں دیے اس کا مسئلہ حل کردیں گے اوراشیائے ضروریہ سستی ہو نے سے عوام کی زندگیاں آرام سے گزرنے لگیں گی۔جلتی پر تیل ان اعلانات اور بیانات نے بھی خوب ڈالا کہ ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر بنا ئیں گے اور سو دن کے اندر اندر تبدیلی دکھانے کی ہوا بھی چلا دی‘ لیکن حکومت سنبھالنے کے بعد ان میں سے کوئی وعدہ بھی پورا نہ ہوا۔ اب وہ کہہ رہے ہیں کہ ملک قرضوں تلے دبا ہوا ہے‘ لیکن ان حقائق کا انہیں اور ان کی جماعت کے سینئر لوگوں کو بہت پہلے سے علم ہونا چاہئے تھا ۔ ایسا ماننا مشکل ہے کہ انہیں اس بارے خبر نہ ہو‘ یقینا قرضوں کی صورتحال وغیرہ ایسی چیز نہیں کہ ماہرین ان سے ناواقف ہوں۔ یہی سمجھ میں آتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکمت عملی یہ تھی کہ ایک بار حکومت ہاتھ آ جائے تو اپنے ایجنڈے پر کام شروع کردیں گے اور تبدیلی آنا شروع ہو جائے گی‘ لیکن اندرونی اور بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں اور دیگر ذمہ داریاں جو حکومت پر پہلے روز سے پڑ گئیں ان سے حکومت کو آج تک فرصت نہیں مل سکی۔
قومی آمدنی کے وسائل پہلے ہی بہت محدود سے تھے‘ جب ضروری ادائیگیوں کی نوبت آئی تو وہی آئی ایم ایف اور دیگر عالمی قرض دہندگان کا راستہ باقی بچتا تھا۔اور ان سے قرض لیں تو ظاہر ہے ان کی ہدایات اور پالیسیوں پر بھی عمل کرنا پڑتا ہے۔ یہاں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو الزام دینا یا ناکام ثابت کرنے کی کوشش کرنا بھی کسی حد تک قرین انصاف نہیں۔ موجودہ حکومت کو صرف اسی حد تک مورد الزام قرار دیا جاسکتا ہے کہ بعض سخت اور ناگزیر قسم کے معاشی فیصلوں کے ساتھ اسے عام آدمی کی مشکلات اور سماجی انصاف کی ان قدروں کی جانب بھی تو جہ دینے کی ضرورت تھی جس سے سماج میں سکون کا احساس پیدا ہوتا۔ مثال کے طور پر حکومت امن و امان اور شفافیت کے لیے کچھ ایسے اقدامات کرسکتی تھی جن سے عام آدمی کے ساتھ سرکاری اداروں میں عزت کا سلوک کیا جانے لگے۔ اس کے لیے تو حکومت کو کسی سبسڈی کی ضرورت نہیں تھی۔ حکومت عام آدمی کی سہولیات پر توجہ د ے سکتی تھی ‘ جس سے معاشرے میں واقعی تبدیلی محسوس ہوتی‘ مگر حکومت یہ نہیں کر سکی۔ جہاں تک مہنگائی کا معاملہ ہے تو یہ حکومتی ناکامی کی بنیادی وجہ بن چکی ہے۔ادارہ شماریات کی ایک رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کے دور میں اوسط مہنگائی 8 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔ مالی سال 20-2019ء میں مہنگائی کی اوسط شرح 10.74 فیصد رہی جو مالی سال 18-2017ء میں 4.68 فیصد تھی۔ان حالات میں تحریک انصاف کی جانب سے مہنگائی کے خلاف دعوؤں اور وعدوں کو یاد کرتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ دسمبر 2013ء میں عمران صاحب کی جانب سے لاہور میں ریلی نکالنے کا اعلان کیا تھا۔ اُس وقت تحریک انصاف کے رہنما کی جانب سے دیگر سیاسی جماعتون کو بھی اس مہنگائی مخالف احتجاجی مظاہرے میں شرکت کی دعوت دی گئی اور بلاول بھٹو زرداری صاحب نے پاکستان تحریک انصاف کی اس ریلی کی حمایت کا عندیہ بھی دیا تھا۔
بہرکیف مہنگائی بھی صرف معاشی مسئلہ نہیں بلکہ اس میں بد انتظامی کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ بد انتظامی صرف یہی نہیں کہ حکومتی مشینری بازاروں میں نرخوں کو معتدل اور ذخیرہ اندوزی کو ختم نہیں کر سکی بلکہ یہ بھی ہے کہ حکومت کو طلب اور رسد کے فرق کا بروقت احساس ہی نہیں ہو سکا۔حکومت کی یہ چھوٹی بڑی ناکامیاں مل کر ایک ایسا کلنک کا ٹیکہ بن چکی ہیں جو حکومت کے اچھے اقدامات کو بھی گہنا رہا ہے۔ اس صورتحال سے حکومت کو اگر کوئی سبق سیکھنا چاہیے تو یہ سیکھے کہ قومی فیصلوں میں خود کو کسی طرح بھی ریلیکس نہیں کرنا‘ہر معاملے کو خوب سوچ بچار کے ساتھ طے کرنا ہے اور ہر معاملے میں عوامی مفاد کو ترجیح دینی ہے۔ یاد رکھیں آج کے عوام تین‘ چار دہائی پہلے کے عوام سے بہت مختلف ہیں۔ ان کے پاس علم ‘ رابطے اوراظہار کے بہت بہتر وسائل ہیں۔ یہ زیادہ حساس اور اپنا فائدہ نقصان سمجھنے والے لوگ ہیں‘ ان میں جذباتی پن اور سیاسی وابستگی کا مادہ یعنی جیالا پن اُس طرح کا نہیں جیسے ماضی کے لوگوں میں تھا۔ اگر ایک جماعت کی حکومت بہترین حکمرانی کا فرض انجام نہ دے سکے تو اس کے اپنے حامیوں کی ایک بڑی تعداد اگلے انتخابات میں ماضی سے مختلف فیصلہ کرتی ہے۔ ڈسکہ کے الیکشن سے ہمیں یہ بھی نظر آتا ہے۔بہرحال ڈسکہ کے الیکشن پر حکومتی حلقوں میں سب سے پُر اثر تبصرہ وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چودھری‘ جنہیں اب دوبارہ وزارتِ اطلاعات کا قلمدان بھی سونپ دیا گیا ہے‘ کا تھا جب انہوں نے کہا کہ ڈسکہ میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نہیں جیتی بلکہ پاکستان تحریک انصاف ہاری ہے اور اس کی وجوہات ہیں جن کی طرف پارٹی میں توجہ دلائی جاتی ر ہی ہے۔