تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     15-04-2021

اپنی ذات میں ادارہ

ہر شخص نے آخر کار اپنے رب کے ہاں حاضر ہونا ہے۔ کسی نے پہلے اور کسی نے بعد میں، مگر اس میں مفر کسی کو نہیں۔ صحافت میں اپنی طرز کے بانی ضیا شاہد بھی رخصت ہو گئے۔ اناللہ و انا الیہ راجعون۔ میرا مالک ان کی آخرت کی منزلیں آسان کرے، ان پر اپنا کرم کرے اور جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ وہ رحیم و کریم ہے اور اس سے سوائے درگزر، کرم نوازی اور مہربانی کے اور کسی شے کی درخواست نہیں کہ ہم گنہگار اس کی رحم دلی کے طفیل ہی منزل سے گزر سکتے ہیں‘ وگرنہ کون ہے جو حساب کتاب کے مرحلوں سے گزر کر اپنے آپ کو بخشش کا حقدار ثابت کرے۔
میری ضیا شاہد صاحب سے پہلی ملاقات روزنامہ پاکستان کے زیر اہتمام منعقدہ مشاعرے کے سلسلے میں ہوئی۔ تب ضیا صاحب روزنامہ پاکستان کے ایڈیٹر ہوتے تھے۔ دفتر اسی پرانی جگہ پر جیل روڈ پر تھا۔ یہاں ان سے پہلی ملاقات ہوئی اور اس کے بعد کافی عرصہ تک کوئی رابطہ نہ رہا۔ ان سے دوسری بار تب ملا جب انہوں نے روزنامہ خبریں کے تحت ایک تقریب کا اہتمام کیا تو انور مسعود، بابا عبیر ابوذری کے ساتھ مجھے بھی اس تقریب میں مدعو کیا۔ تب ہم ضیا صاحب کے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے جب پہلی بار ضیا صاحب نے مجھے کہا کہ میں کالم لکھا کروں۔ میں نے یہ بات سنی اور اسے رتی برابر بھی سنجیدگی سے لیے بغیر بھول گیا۔ میرا خیال تھا‘ بندے کو صرف وہی کام کرنا چاہیے جو اسے کرنا آتا ہو۔ اور میرے خیال میں کالم لکھنا میرا کام نہیں تھا۔ مجھے اس بات کا پورا ادراک تھا کہ میری اردو کوئی ایسی غیر معمولی نہیں، بلکہ غیر معمولی کیا؟ محض گزارے لائق ہے اور نثر لکھنے کا بھی کوئی تجربہ نہیں تو ایسے میں اللہ کے کرم سے شاعری میں ملنے والی شہرت اور پذیرائی کی بنیاد پر خود کو ہر فن مولا سمجھ کر اس وزنی پتھر کو ہاتھ نہیں ڈالنا چاہیے۔ میرا تجربہ تھا کہ کئی شاعروں نے دوسروں کی دیکھا دیکھی کالم نویسی شروع کی اور قارئین کو بدمزہ کیا۔ لیکن ضیا صاحب اپنی دھن کے پکے تھے۔
میں لاہور ایئرپورٹ کے ڈیپارچر لائونج میں اپنی فلائٹ کا منتظر تھا۔ موسم کی خرابی کے باعث فلائٹ آپریشن رکا ہوا تھا اور پی آئی اے والے ہر تھوڑی دیر بعد فلائٹ کی مزید تاخیر کا اعلان کر رہے تھے۔ اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ ضیا شاہد میرے ساتھ والی کرسی پر آ کر بیٹھ گئے اور کہنے لگے: پھر کیا سوچا ہے؟ یقین کریں‘ میں تو بھول ہی چکا تھاکہ ضیا شاہد کس بات کے بارے میں پوچھ رہے ہیں‘ لیکن انہیں یاد تھا، کہنے لگے: میں کالم لکھنے کا پوچھ رہا ہوں۔ تب میں نے ان سے تھوڑا کھل کر کہا کہ شاید یہ میرا فیلڈ نہیں۔ وہ ہنسے اور کہنے لگے: تمہیں زیادہ پتا ہے یا مجھے؟ بس جس طرح تم بولتے ہو، اس کو اسی طرح لکھ دو۔ بڑا آسان کام ہے۔ اس میں کیا مشکل ہے؟ بس تم لکھنا شروع کر دو۔ میں نے وعدہ کر لیا۔ تھوڑی دیر گپ شپ ہوئی۔ اسی اثنا میں جہاز کی روانگی کا اعلان ہوا۔ میں نے ضیا صاحب سے رخصت لی اور اپنی فلائٹ کے لیے چل پڑا۔ بات آئی گئی ہو گئی تاوقتیکہ خبریں نے ملتان سے اپنی اشاعت کا آغاز کر دیا۔
ضیا شا ہد اخبار کے آغاز کے سلسلے میں ملتان آئے تو مجھے فون کرکے ملنے کا کہا۔ میں ان کے پاس ہوٹل میں چلا گیا۔ وہاں وہ کہنے لگے کہ اب کوئی بہانہ نہیں چلے گا‘ تم کل سے لکھنا شروع کر دو۔ پھر کہنے لگے: دیکھو میری بات غور سے سنو! جس طرح تم گفتگو کرتے ہو بس اس کو تحریر میں لے آئو‘ زیادہ فلسفہ نہ بگھارنا۔ نیک نیتی، خلوص اور سچائی کے ساتھ لکھنا۔ باقی سب کام خود بخود آسان ہو جائیں گے۔ پھر اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک شخص کو کہنے لگے: اب تم نے اس سے کالم لکھوانا ہے‘ مجھے ایک دو دن کے اندر خالد کا کالم اخبار میں نظر آنا چاہیے۔ وہ صاحب خبریں ملتان کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر تھے۔ اگلے روز صبح صبح اس کا فون آ گیا کہ کالم بھجوا دیں۔ میں نے کہا: ایک آدھ دن دے دیں۔ اگلے روز پھر تقاضا۔ اس سے اگلے روز پھر فون۔ اور اس کے بعد تو حد ہوگئی‘ دن میں دو بار فون آیا۔ راہ فرار نہ دیکھ کر میں نے کاغذ قلم اٹھایا اور پھر یہ سلسلہ چل پڑا۔
اس دوران کئی بار ان سے تفصیلی گفتگو بھی ہوئی اور محبت بھری ڈانٹ ڈپٹ بھی سنی‘ لیکن ایمانداری کی بات ہے کہ ان سے بہت کچھ سیکھا۔ وہ اپنی ذات میں ایک پورا ادارہ تھے۔ ایک بار میرے کسی کالم پر ناراض ہو کر کہنے لگے: یہ تم نے کیا لکھا ہے؟ میں نے کہا کہ کالم لکھا ہے۔ غصے میں کہنے لگے: اسے تم کالم کہتے ہو؟ میں نے کہا: سر جی! مجھے کیا پتا کہ یہ کالم ہے یا نہیں‘ آپ اسی قسم کی چیز کو گزشتہ تین سال سے چھاپ رہے ہیں۔ اگر یہ پہلے کالم تھا تو اب بھی کالم ہی ہے اور اگر یہ کالم نہیں تھا تو آپ مجھے تین سال بعد کیوں بتا رہے ہیں؟ انہوں نے فون بند کر دیا۔ صبح اخبار میں کالم لگا ہوا تھا۔
پرویز مشرف کا زمانہ تھا اور میں اپنی ''حرکتوں‘‘ سے باز نہیں آتا تھا۔ تنگ آکر انہوں نے میرے دو کالم روک لیے۔ میں نے بھی تیسرا نہ بھیجا۔ سات آٹھ دن گزر گئے اور معاملہ یونہی لٹکا رہا۔ ایک روز ملتان کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر کا فون آیا کہ ضیا صاحب نے آپ کو فارغ کر دیا ہے‘ آپ آ کر حساب کر لیں۔ میں نے کہا: کسی روز آ کر حساب کر لوں گا۔ بارہ پندرہ دن گزرے ہوں گے کہ میرے فون کی گھنٹی بجی۔ فون اٹھایا، یہ ضیا صاحب تھے۔ کہنے لگے: کدھر ہو؟ میں نے کہا: لاہور میں ہوں۔ بولے دفتر آ جائو۔ میں نے کہا: جمعہ کی نماز کے بعد آ جائوں گا۔ میں دفتر گیا تو ضیا صاحب کافی پلا کر کہنے لگے: کالم بھیجو۔ میں نے کہا: دو پڑے تو ہوئے ہیں۔ انہیں چھاپ دیں میں ملتان جا کر آپ کو اور بھجوا دوں گا۔ غصے سے کہنے لگے: اس کا مطلب ہے کہ تم کام نہیں کرنا چاہتے؟ میں نے کہا: سر جی! ناراض نہ ہوں۔ میں اگلے کالم بھی اسی طرح کے ہی بھیجوں گا‘ تو پھر آپ پہلے سے رکے ہوئے دو کالم کیوں نہیں چھاپ دیتے۔ ضیا شاہد کہنے لگے: کافی کیسی تھی؟ میں نے کہا: بہت مزیدار تھی۔ کہنے لگے: چلیں ملاقات تو زیادہ اچھی نہیں رہی؛ تاہم تمہیں کافی پسند آئی‘ تم سمجھو آج یہاں صرف کافی پینے آئے تھے۔ میں اٹھ کر واپس آ رہا تھا کہ پیچھے سے آواز دے کر کہا: اگر لکھنے کی نیت ہو تو کالم بھجوا دینا۔ میں نے کہا: بھیج تو دوں گا لیکن یہ تیسرا کالم ہوگا۔ وہ بولے: لگتا ہے تمہاری کام کرنے کی نیت ہی نہیں۔
دو گھنٹے بعد دفتر سے کسی کا فون آیا کہ آپ کے رکے ہوئے کالموں میں سے ایک کل چھپ رہا ہے اور دوسرا اس سے اگلے روز‘ اب آپ تیسرا کالم بھجوا دیں۔ میں نے ضیا صاحب کو فون کر کے کہا کہ سر جی! معاملہ تو طے ہو گیا ہے لیکن میری ان بیس پچیس دن کی تنخواہ کا کیا ہوگا۔ ہنس کر کہنے لگے: ضدی آدمی! وہاں ملتان میں ایک شخص کے علاوہ کسی کو پتا نہیں کہ تمہیں خبریں سے فارغ کر دیا گیا ہے‘ تم اپنی پوری تنخواہ جا کر صبح لے لینا۔
وہ اس نالائق کو زیادہ اچھا لکھنا تو نہ سکھا سکے مگر یہ ضرور سکھا دیا کہ کبھی کبھی لکھے بغیر بات کیسے قاری تک پہنچانی ہے اور یہ اتنا اہم سبق تھا جو آج تک کام آ رہا ہے۔ اللہ انہیں جنت نصیب کرے۔ بعض معاملات میں بڑے ضدی تھے، لیکن پیشہ ورانہ معاملات میں ذاتی مؤقف کو بالائے طاق رکھ کر معاملہ نمٹا دیتے تھے اور ایسے میں کسی چیز کو انا کا مسئلہ نہیں بناتے تھے۔ انہوں نے اردو صحافت کو کالم نگاروں کی پوری ایک بریگیڈ تحفے میں دی۔ اب کوئی اس کا اقرار کرے یا پھر انکار‘ لیکن یہ ایک لمبی فہرست ہے۔ میں بھلا کس شمار قطار میں ہوں، بہت بڑے بڑے نام اس یک نفری صحافتی ادارے کے طفیل نمایاں نظر آتے ہیں جس کا نام ضیا شاہد تھا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved