تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     15-04-2021

ڈسکہ کا ضمنی الیکشن اور اس کے قومی مضمرات

عام طور پر ضمنی انتخابات نہ تو میڈیا اور نہ ہی عوام کی غیر معمولی توجہ کا فوکس ہوتے ہیں۔ اس لیے اسمبلیوں کے قومی انتخابات کے مقابلے میں ضمنی انتخابات میں ڈالے گئے ووٹوں کی شرح (ٹرن آئوٹ) کم ہوتی ہے۔ مثلاً ڈسکہ ضلع سیالکوٹ کے قومی حلقہ این اے 75 میں 10 اپریل کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں ٹرن آئوٹ 46 فیصد کے لگ بھگ رہا جبکہ 2018 کے قومی انتخابات میں یہ شرح 56 فیصد تھی۔ اس کے باوجود حالیہ ضمنی الیکشن پر نہ صرف تمام میڈیا کی توجہ مرکوز تھی‘ بلکہ انتخابی معرکے میں حصہ لینے والے امیدوار خصوصاً جن کا تعلق دو بڑی سیاسی پارٹیوں پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان تحریکِ انصاف سے ہے‘ اپنی جیت کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے‘ اور اس کے ساتھ اپنی اپنی کامیابی کے بڑھ چڑھ کر دعوے بھی کر رہے تھے۔ ڈسکہ کے اس انتخابی معرکے کو ضرورت سے زیادہ پبلسٹی ملنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اسی حلقے میں امسال 19 فروری کو بھی پولنگ ہوئی تھی‘ لیکن تب پولنگ ڈے پر کچھ لوگوں نے حلقے میں نہ صرف ووٹروں کو مبینہ طور پر ہراساں کیا۔ انہیں لوگوں کو اس رات بیس سے زائد پریذائیڈنگ افسروں کو مع الیکشن ریکارڈ اغوا اور پولنگ ریکارڈ میں تبدیلی کا بھی ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے۔ تب ان واقعات کا نوٹس لے کر الیکشن کمیشن نے حلقے میں دوبارہ پولنگ کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ حکمران پی ٹی آئی الیکشن کمیشن کے اس فیصلے پر سخت مضطرب تھی‘ وہ پورے حلقے میں پولنگ کے خلاف اور صرف متنازع پولنگ سٹیشنز پہ دوبارہ پولنگ کے حق میں تھی۔ اسی بنیاد پر پی ٹی آئی کے امیدوار علی اسجد ملہی نے الیکشن کمیشن کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر رکھی تھی‘ مگر عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ سپریم کورٹ کے اسی فیصلے کے تحت حلقے میں دس اپریل کے روز دوبارہ پولنگ ہوئی‘ جس میں پاکستان مسلم لیگ ن کی امیدوار نوشین افتخار نے اپنے مدِ مقابل پی ٹی آئی کے امیدوار اسجد ملہی کو 16 ہزار سے زائد ووٹوں سے شکست دی۔
ڈسکہ کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ علاقہ مسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ 2018 کے انتخابات میں نہ صرف این اے 75 بلکہ ضلع سیالکوٹ‘ نارووال‘ گوجرانوالہ میں بیشتر قومی اور صوبائی حلقوں میں مسلم لیگ ن کے امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ اس لئے ضمنی الیکشن سے پہلے ہی عام تاثر یہ تھا کہ یہ نشست نون لیگ دوبارہ حاصل کر لے گی۔ مسلم لیگ ن کی اس جیت کی اہمیت کو کم کرتے ہوئے حکمران جماعت کے حلقوں کا بھی یہی استدلال تھا کہ اگر نون لیگ کی امیدوار اپنے مد مقابل کو شکست دے کر یہ نشست جیت بھی جائے تو یہ کوئی بڑا اپ سیٹ نہیں ہو گا کیونکہ نون لیگ اپنی ہی سیٹ دوبارہ حاصل کرے گی۔ لیکن یہ دلیل پیش کرنے والے دو حقائق کو نظر انداز کر رہے تھے۔ ایک یہ کہ یہ ضمنی الیکشن اس وقت ہو رہا تھا جب تقریباً تین برس سے نون لیگ اقتدار سے محروم ہے اور تقریباً ڈھائی برسوں سے پنجاب میں اس کی مخالف جماعت پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ ضمنی انتخابات کے بارے میں عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ ان کے نتائج بیشتر حالات میں برسر اقتدار پارٹی کے حق میں برآمد ہوتے ہیں۔ اگر نتیجہ اس کے برعکس آئے تو اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ حکومتِ وقت کو عوام کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ ڈسکہ میں نون لیگ کی کامیابی کو بے قدر قرار دینے والوں کو سوچنا چاہئے کہ اس نے یہ کامیابی ایسے حالات میں حاصل کی جب اسے نہ صرف ایک مخالف حکومت کی انتظامیہ کا سامنا ہے بلکہ اس کی اپنی چوٹی کی قیادت بھی یا تو ملک سے باہر ہے یا پھر جیل میں ہے۔ جو قائدین جیل میں نہیں ہیں‘ وہ احتساب عدالتوں کی پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ ملک بھر کے عوام جانتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کو سیاسی میچ میں لیول پلیئنگ گرائونڈ حاصل نہیں ہے اور گزشتہ چار برسوں سے کرپشن کے نام پر اس کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے‘ جس کا ایک بڑا مقصد اسے عوام کی نظروں میں ڈس کریڈٹ کر کے سیاسی طور پر غیر موثر بنانا ہو سکتا ہے‘ لیکن ڈسکہ کے ضمنی انتخابات کے نتیجے نے مسلم لیگ ن کے بجائے حکومت کی احتساب مہم کو ڈس کریڈٹ کر دیا ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد یہ کہنے پہ مجبور ہو گئے کہ اگلا انتخابی معرکہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کے مابین ہو گا۔ شیخ رشید کا یہ بیان اس بات کا کھلا اعتراف ہے کہ گزشتہ تین برسوں سے مسلم لیگ ن خصوصاً اس کی سینئر قیادت کے خلاف کرپشن کے نام پر کارروائیوں سے پنجاب میں مسلم لیگ ن کی سیاسی ساکھ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔ نیب کی کارروائیوں اور میڈیا ٹرائل کے باوجود مسلم لیگ ن اب بھی ملک کے سب سے بڑے صوبے یعنی پنجاب میں سب سے زیادہ مقبول اور ہر دلعزیز پارٹی ہے۔ یہ وہی پارٹی ہے جس کے بارے میں خود شیخ رشید صاحب کا دعویٰ تھا کہ اس کا وجود ختم ہو چکا ہے‘ اور سیاست میں اب اس پارٹی اور اس کی قیادت کا کوئی کردار نہیں رہا‘ مگر ڈسکہ کے ضمنی الیکشن کے نتائج نے نہ صرف پی ٹی آئی کو حیران کر دیا بلکہ نون لیگ کے سب سے بڑے مخالف شیخ رشید کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا ہے کہ پاکستان میں آئندہ انتخابات میں پی ٹی آئی کا مقابلہ پاکستان مسلم لیگ ن سے ہو گا۔ ڈسکہ کے ضمنی انتخاب کے نتائج نے نہ صرف حکمران جماعت پی ٹی آئی کو پاکستان مسلم لیگ ن کی سیاسی قوت تسلیم کرنے پر مجبور کیا بلکہ اس ضمنی انتخابی معرکے نے ایسی مثالیں بھی قائم کیں جن کا اس سے قبل ملک کی انتخابی تاریخ میں کوئی وجود نہیں تھا۔ مثلاً پاکستان میں آج تک جتنے بھی انتخابات ہوئے ان میں جعلی ووٹ ڈالنے‘ ووٹوں سے بھرے بکس اٹھانے یا فائرنگ کر کے ووٹروں کو ہراساں کرنے کے واقعات تو رونما ہوتے رہے مگر مبینہ طور پر پریذائیڈنگ آفیسرز کو ان کے انتخابی ریکارڈ سمیت اغوا کرنے اور تیرہ گھنٹے حراست میں رکھنے کا واقعہ انوکھا اور اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔ اگرچہ اس واقعہ کی ابھی تک باقاعدہ انکوائری نہیں ہوئی‘ اور نہ ہی اس کے ذمہ داروں کا تعین کیا گیا ہے؛ تاہم مسلم لیگ ن کے حلقوں کا دعویٰ ہے کہ ان پریذائیڈنگ افسروں کو پی ٹی آئی کے ایما پر پنجاب حکومت کی انتظامیہ نے اغوا کیا تھا۔ واللہ اعلم۔ الیکشن کمیشن نے اس حیران کن واقعہ پر جو پریس ریلیز جاری کی‘ وہ پی ٹی آئی کی پنجاب حکومت کے خلاف ایک صریح چارج شیٹ ہے کیونکہ پنجاب کی انتظامیہ آئین کے مطابق امن و امان کے قیام اور گمشدہ پریذائیڈنگ افسروں کا فوری طور پر سراغ لگانے میں ناکام رہی۔ اس ناکامی کی ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت نے الیکشن کمیشن کو ہدفِ تنقید بنا کر اس کے تمام اراکین کے استعفوں کا مطالبہ کر دیا تھا‘ مگر سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے ڈسکہ میں دوبارہ پولنگ کا اہتمام کر کے پی ٹی آئی کے تمام تر دعووں کی قلعی کھول دی ہے۔ ڈسکہ کا ضمنی الیکشن پاکستان کی انتخابی تاریخ میں اس لحاظ سے ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے کہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر ادارے آئین کے مطابق اپنے اختیارات پوری ذمہ داری کے ساتھ استعمال کریں تو صاف‘ شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved