اس ہفتے کا پہلا دن معمول کے مطابق شروع ہوا لیکن شام ہوتے ہی ملک کے بڑے شہر، جی ٹی روڈ اور موٹرویز اچانک ہونے والے احتجاج کی وجہ سے کئی گھنٹوں کیلئے بند ہو گئیں۔ اس احتجاج کی وجہ ایک مذہبی جماعت کے سربراہ کی گرفتاری بنی۔ ملک کے بڑے شہر‘ بالخصوص پنجاب کے تقریباً تمام شہر بند ہونے سے حکومتی عملداری کمزور ہونے کا تاثر پیدا ہوا۔ پنجاب میں یوں لگاکہ حکومتی عملداری نام کی کوئی شے وجود ہی نہیں رکھتی۔ احتجاج کے دوران اور اس کے بعد ملک میں مختلف نوعیت کے تبصرے ہوئے، اندازے لگائے گئے کہ حکومت نے بیٹھے بٹھائے مصیبت کیوں مول لی؟ کسی نے کہا کہ ملک دشمنوں کی سازش ہے اور کچھ لوگ استعمال ہو رہے ہیں۔ غرض ہر کوئی اندازے لگانے میں لگا رہا لیکن حالات واضح نہ ہوئے۔ اس احتجاج کی ویڈیوز سامنے آئیں جن میں مشتعل ہجوم قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں پر پتھر اور لاٹھیاں برساتا نظر آیا، عام شہریوں کی گاڑیاں اور املاک بھی اسی رویے کی نذر ہو گئیں۔ ''جنون‘‘ کا لفظ کبھی مثبت معنوں میں استعمال نہیں ہوتا لیکن چند برسوں سے اس لفظ کو بھی قابل قبول بنا دیا گیا ہے اور سیاست میں اس کو اس قدر استعمال کیا گیا کہ ایسی کسی بھی کیفیت کو نارمل کی حیثیت مل چکی ہے۔ سیاست میں جنون متعارف کرانے والے ہی اب اسی سے نمٹنے میں ناکام نظر آ رہے ہیں۔ شاہراہوں پر اب جو کچھ نظر آ رہا ہے یہ پچھلی حکومت کے آخری دنوں میں بھی نظر آیا تھا اور تب اپوزیشن میں سب سے فعال اور آج کے حکمران اس کے حامی نظر آتے تھے۔ ان دنوں ملک کی داخلی سکیورٹی اورامن وامان کے ذمہ دار وزیر نے تب بیان دیا تھا کہ ''میں حکومت کوآخری وارننگ دینا چاہتا ہوں، اس ملک میں ایسی تحریک چلے گی، عقل کے ناخن لے لیں ورنہ تمہاری یہ لوٹی ہوئی دولت بھی کام نہیں آئے گی، یہ فرسودہ نظام کو بھی آگ لگا دیں گے‘‘۔
اب حالت یہ ہے کہ انہی وزیر موصوف کو ایسے ہی طرزِ عمل سے نمٹنے کا امتحان درپیش ہے، وہ اس سے نمٹنے کی کیا حکمت عملی رکھتے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ آج بھی اسی رویے کے ساتھ ہیں اور ملک کو بدامنی کی آگ میں جلتا دیکھ رہے ہیں؟ صرف وزیر موصوف نہیں بلکہ کئی اور بھی اس وقت کی حکومت کو جنون کی مدد سے بے دخل کرنے کی خواہش رکھتے تھے، موجودہ صورتحال کو مکافات عمل بھی کہا جا سکتا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کی زیر صدارت امن و امان کی صورتحال پر ہونے والے اجلاس میں وفاقی وزیرِ مذہبی امور نورالحق قادری نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں احتجاج کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور قانون ہاتھ میں لینے والوں سے سختی سے نمٹنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ شیخ رشید کے مطابق تحریک لبیک پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
حالیہ بدامنی میں توجہ کا مرکز پنجاب ہے۔ یہاں 2 پولیس اہلکار فرض نبھاتے ہوئے شہید ہو گئے اور درجنوں افسر اور جوان زخمی حالت میں ہسپتالوں میں موجود ہیں۔ ان حالات میں ایک بار پھر پنجاب انتظامیہ کی نااہلی عیاں ہو چکی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اس حکومت میں موجود کسی بدخواہ نے مذہبی جماعت کے لیڈر کو بھونڈے انداز میں گرفتار کرنے کا پلان سوچ سمجھ کر بنایا اور ''جن‘‘کو بوتل سے نکالا۔ سوشل میڈیا پر تو اس طرح کی باتیں بھی موضوع بحث ہیں کہ کہیں اس ''جانشین‘‘کی طاقت کو چیک تو نہیں کیا گیا۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ شاید اس کا مقصد صاحبزادہ کو بلند مقام دلوانا ہے۔ وجہ کوئی بھی ہو اب ایک بار پھر کپتان پر پنجاب میں ٹیم بدلنے کیلئے دباؤ بڑھے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی ''نیا بندوبست‘‘تیار کیا جا رہا ہو۔
''نئے بندوبست‘‘کی باتیں نئی نہیں لیکن اس بار ایک ''بندوبست‘‘ بیان بھی کیا جا رہا ہے۔ اس بندوبست کے تحت ایک عرصہ سے غیر فعال سینئر سیاستدان چودھری نثار علی خان کا نام گردش کر رہا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ چودھری نثار علی خان کو جہانگیر ترین کے ''ہم خیالوں‘‘، مسلم لیگ (ن) کے ایم پی ایز اور چودھری برادران کے پنجاب اسمبلی میں موجود 10 ارکان کی حمایت سے باقی ماندہ مدت کے لیے پنجاب کی قیادت سونپی جائے گی۔ مجھے اس نئے بندوبست کی تھیوری سے اتفاق نہیں۔
مجھے اس تھیوری سے اتفاق کیوں نہیں ہے پہلے اس بات کو ڈسکس کر لیتے ہیں۔ شریف خاندان کو قریب سے جاننے والے اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ میاں محمد شریف مرحوم نے اپنے تینوں بیٹوں کی تربیت کرتے ہوئے کچھ اصول واضح کر رکھے تھے‘ بالخصوص جب میاں محمد نواز شریف اور میاں شہباز شریف سیاست کے میدان میں آئے تو اس وقت بھی ان دونوں بھائیوں کے اصل اور حقیقی ''سیاسی گرو‘‘ ان کے والد میاں محمد شریف ہی تھے۔ یہی نہیں اپنے پوتوں میں حسن نواز اور حسین نواز سے لے کرحمزہ شہباز اور سلمان شہباز تک سب کو ایک خاندانی زنجیر میں پروئے رکھا اور کاروباری زندگی کے آغاز سے لے کر سیاسی اسرار و رموز تک سکھائے۔ انہوں نے ان دونوں بیٹوں کے گھرانوں میں سیاسی میکنزم ہی کچھ اس طرح کا بنا دیا کہ کم از کم میاں نوازشریف اور میاں شہبازشریف کی زندگی میں تو ان دونوں بھائیوں میں سیاسی علیحدگی ممکن نظرنہیں آتی اور ویسے بھی ان دونوں بھائیوں کا سیاسی ماڈل ہی کچھ اس طرح کا بن چکا ہے کہ ووٹ بینک کیلئے فل سپیڈ کارکردگی نہایت ضروری ہے۔ میاں شہباز شریف نے بطور وزیراعلیٰ پنجاب خود کو جس طرح سے ایک اچھے اور محنت گیر ایڈمنسٹریٹر کے طور پر منوایا اور پھر اسی بنیاد پر ترقیاتی کام جس طرح تیز رفتاری کے ساتھ مکمل کروائے، اس فیکٹر نے پورے ملک‘ خصوصاً صوبہ پنجاب میں میاں نواز شریف کے ووٹ بینک میں اضافہ کیا ہے۔ ان تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھیں تو اب دونوں بھائیوں اور مسلم لیگ (ن) کو ان کا اکٹھا رہنا ہی سوٹ کرتا ہے۔ دوسری طرف چودھری نثار علی خان اور مریم نواز ایک دوسرے کی ضد بن چکے ہیں۔ نہ تو چودھری نثار، مریم نواز کو پارٹی لیڈر ماننے کوتیار ہیں اور نہ ہی مریم نواز انہیں کوئی پارٹی پوزیشن دینے کوتیار ہیں۔ ایسی صورتحال میں مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پرچودھری نثارکا وزیراعلیٰ پنجاب بننا آسان نظرنہیں آتا۔
اب بات کرتے ہیں منگل کے روز ملک کے 3 بڑوں کے درمیان ہونے والی ملاقات کی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے وزیر اعظم سے نہایت اہم ملاقات کی۔ اس ملاقات کے حوالے سے کچھ باتیں تو میڈیا کے ساتھ شیئر بھی کی گئیں لیکن سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق کچھ باتیں وزیراعظم ہاؤس کی طرف سے خفیہ بھی رکھی گئیں۔ اس ملاقات میں جہاں ایک طرف ملکی سلامتی کے امور زیر بحث آئے وہیں ایک مذہبی جماعت کی طرف سے جاری دھرنوں اور قانون اپنے ہاتھ میں لینے کے واقعات اور اس سے سختی سے نمٹنے کا فیصلہ کیا گیا۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کی حکومت اور ذمہ داروں کے حوالے سے بھی تفصیلی گفتگو کی گئی۔
پنجاب حکومت کے ناقدین کے مطابق ''بڑوں‘‘کی اس ملاقات میں پنجاب میں بیڈ گورننس یقیناً ڈسکس ہوئی ہوگی۔ وزیراعظم عمران خان کے وسیم اکرم پلس کی پرفارمنس حکومت پر تنقید کا باعث تو بنتی ہی ہے، المیہ یہ ہے کہ پنجاب میں سیاستدان ہوں یا مزدور استاد ہو یا کلرک، ڈاکٹرز ہوں یا لیڈی ہیلتھ ورکرز غرضیکہ ہر طبقہ آپ کو سڑکوں پر احتجاج کرنا نظر آتا ہے۔
ریاست کی رٹ کے حوالے سے بات تو ہر شہری کرتا نظر آتا ہے لیکن کیا واقعی ہم لوگ اس رٹ کو قائم بھی رکھنا چاہتے ہیں؟ اس وقت میرے نزدیک سب سے اہم سوال یہ ہے۔ پنجاب کے انتظامی مرکز لاہور میں 2 پولیس اہلکاروں کے شہید ہو جانے کے بعد یہ سوال ایک بار پھر اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ ''ریاست مدینہ‘‘ قائم کرتے کرتے کہیں ہم اپنی ریاست پاکستان کی رٹ بھی ختم کرنے تو نہیں چل پڑے؟