''روزہ ہے یا کھوجا؟‘‘۔ میں نے اپنی تایا زاد چھوٹی بہن فرح سے پوچھا۔ ''روزہ‘‘ اس نے فخر سے بتایا۔ بچپن کی بات تھی لیکن روزہ نہ رکھنے کے معنی میں اس لفظ کا مطلب اس وقت بھی روشن تھا۔ پھر بھی ہم کھوجا کیوں کہا کرتے تھے؟ پتا نہیں اور یہ بھی پتا نہیں کہ بچے اب بھی یہ لفظ بولتے ہیں یا نہیں؟ کون تحقیق کرتا پھرے۔
اصل بات یہ کہ مجھے اس وقت اپنی تایا زاد بہن فرح بہت یاد آ رہی ہے۔ اللہ اسے ہمیشہ اپنی رحمتوں میں رکھے۔ فرح دو سال پہلے رمضان میں ہمارے درمیان اپنے بچوں اور اپنے گھرانے کے ساتھ تھی اور اب خاک اوڑھ کر ہمیشہ کے لیے سو چکی ہے۔ نہ جانے پچھلے سال کے کتنے ہی عزیز رشتے دار اس رمضان کو نہ دیکھ سکے اور ہم میں سے کتنے ہی ایسے ہوں گے جنہیں اگلے سال یہ مہینہ نصیب نہ ہو سکے گا۔
ہم سب اپنے پیاروں کو مٹّی دے کر پھٹتے دلوں اور اشک بار آنکھوں کے ساتھ قبرستان سے باہر آتے ہیں اور باہر آتے ہی گھر داری اور دنیا داری کے دو لمبے ہاتھ ہمیں کھینچ کر اسی دنیا سے لپٹا دیتے ہیں۔ باہر آکر ہمیں یاد آتا ہے کہ آج درزی کو نئے سوٹ کا کپڑا بھی پہنچانا ہے اور پچھلے سال سے ذرا تبدیل شدہ ناپ بھی دوبارہ دینا ہے تاکہ سوٹ میں کوئی جھول نہ رہ جائے۔ آج رات فلاں شخص کی دعوت پر جانا ہے‘ نہ گئے تو تعلقات خراب ہوں گے۔ دعوت پر جانے سے پہلے اپنا حلیہ ٹھیک کروانا ضروری ہے۔ کل فلاں شخص کی دعوت کرنی ہے‘ اگر نہ کی تو بہت شرمندگی رہے گی۔ بعد میں اس کے پاس وقت ہی نہیں ہوگا‘ وہ رُوٹھ کر چلا جائے گا۔
رحمت، برکت، عبادت اور عافیت کے یہ تیس دن پھر سایہ فگن ہوئے ہیں۔ خوش نصیبی ان خوش نصیبوں کی جنہیں یہ مہینہ ایک بار پھر میسر آیا۔ یہ تیس دن ہمیں دعوت دینے آئے ہیں اور ہمیں ان کی دعوت پر جانا ہے۔ نہیں جائیں گے تو تعلقات خراب ہوں گے‘ اور جانے سے پہلے ہمیں اپنا حلیہ بھی ممکنہ حد تک ٹھیک کرنا ہے۔ ہمیں اس مہینے کی دعوت کرنی ہے۔ کل کو یہ مہمان چلا جائے گا اور اگلے سال جب آئے گا تو ممکن ہے ہم خاک اوڑھ کر سو رہے ہوں۔ رمضان کریم کے فضائل‘ اس کی عبادات اور معمولات پر ڈھیروں ڈھیر کتابیں‘ رسائل‘ مضامین‘ کالم اور بیانات وغیرہ موجود ہیں۔ میرا یہ مقام اور منصب نہیں کہ اس پر بات کر سکوں لیکن ایک عام روزہ دار کی حیثیت سے مجھے تو یہی لگتا ہے اور یقیناً یہ آپ کا مشاہدہ بھی ہوگا کہ اس مہینے میں ماحول اور فضا بھی نظام الاوقات اور مصروفیات کی طرح بالکل بدل جاتے ہیں۔ ہمارے یہاں ہی نہیں دنیا بھر کے مسلمانوں میں۔
دنیا بھر میں مسلمان بہت خوشی اور محبت سے رمضان کا استقبال کرتے ہیں۔ عرب دنیا ہو، ترکی ہو، برصغیر پاک و ہند ہو یا مشرق بعید کے ممالک۔ فجی سے لے کر آباد دنیا کے آخری سرے تک مسلمان غیرمعمولی انداز میں اس مہینے کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ استنبول ترکی میں استقبالِ رمضان کی ایک بہت منفرد اور دلچسپ روایت ہے۔ پانچ مرکزی سلطان مسجدوں کے دو مناروں کے درمیان رات کو بلندی پر روشنی سے استقبال رمضان کے مختلف کلمات لکھے جاتے ہیں‘ مثلاً ''اے بارہ مہینوں کے سلطان خوش آمدید‘‘ یا ''چاہو اور چاہے جاؤ ‘‘۔ اس روایت کو ترکی میں ''ماہیا‘‘ ) (mahyaکہتے ہیں جس کے معنی ہیں ''آسمان پر لکھی تحریر‘‘۔ بجلی کی ایجاد سے پہلے یہ تحریر لالٹینوں سے لکھی جاتی تھی اور آپ خود تصور کر سکتے ہیں کہ لالٹینوں سے گول دائروں والے حروف بنانا کتنا مشکل ہوتا ہوگا۔ افطار کے وقت ترکی، عرب دنیا اور خاص طور پر حرمین میں لمبے لمبے دسترخوان بچھ جاتے ہیں اور مکمل اجنبیوں کو جس لجاجت اور تواضع کے ساتھ اپنے اپنے سجے ہوئے دسترخوان پر دعوت دی جاتی ہے وہ منظر بھی بہت لوگوں نے دیکھا ہے۔
روزے‘ افطار‘ سحری اور تراویح کا نظام بہت عجیب ہے کہ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ باقی گیارہ ماہ کے مقابلے میں زیادہ فعاّل ہوں۔ یہ بھی عجیب نظام ہے کہ ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے روزہ داروں کے زمین آسمان بالکل بدل جاتے ہیں جبکہ ''کھوجے‘‘ والے طبقے کے لیے اسی شہر میں کوئی فرق ہی نہیں پڑتا۔ مجموعی طور پر مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میرے بچپن کی نسبت اب روزہ داروں کا تناسب بھی زیادہ ہے اور معاشرتی چلن سے روزے داروں کو آسانی بھی ہوئی ہے۔ دوسری طرف ہمارے یہاں ہمیشہ سے رمضان گزارنے والے بہت بڑی تعداد میں ہیں لیکن اب رمضان بیچنے والے بھی ہیں۔ اب جس طرح رمضان پر پروگرام بیچنے والوں کی تعداد اور اچھل کود میں اضافہ ہوا ہے وہ عوام کی اکثریت کے لیے ناپسندیدہ ہے‘ پتا نہیں سرکاری سطح پر کیا سوچ ہے؟
چند سال پہلے میں فیروز پور روڈ لاہور پر شدید ٹریفک جام میں پھنس گیا۔ اپنے حساب سے میں اس طرح ٹھیک وقت پر دفتر سے نکلا تھا کہ افطار سے قبل گھر پہنچ جاؤں گا لیکن فیروز پور روڈ سے جیل روڈ کی طرف مڑنے والی سڑک کے قریب اس قدر گاڑیاں پھنسی ہوئی تھیں کہ ٹریفک کے رینگنے کا لفظ بھی اس کے لیے کچھ مبالغہ آمیز محسوس ہوتا تھا۔ جو گاڑی جس رخ پر جس جگہ پھنسی ہوئی تھی وہاں سے ہلنے جلنے کی جگہ ہی نہیں تھی۔ شدید گرمی، لمبا روزہ اور سارے دن کی تھکن اس پر مستزاد۔ اس ہجوم میں آہستہ آہستہ افطار کا وقت اور یہ یقین قریب آتا گیا کہ افطار اب یہیں اور اسی سڑک پر ہوگا۔ میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں تھی جس سے افطار کیا جا سکے حتیٰ کہ پانی بھی نہیں اور گاڑی سے باہر نکلنے یا چھوڑ کر کسی دکان تک جانے کی گنجائش ہی نہیں تھی۔ ایسے میں ایک فرشتہ صفت نوجوان کہیں سے نمودار ہوا۔ اس کے ہاتھ میں پانی کی ٹھنڈی بوتلیں تھیں۔ وہ گاڑیوں میں یہ بوتلیں تقسیم کر رہا تھا۔ ایک یخ بوتل میرے حصے میں بھی آئی۔ مت پوچھیے کہ کیسی نعمت تھی اور کیسی اور کتنی دعائیں اس نوجوان کے لیے دل سے نکلیں۔ ایسے کتنے ہی لوگوں کا روزہ اس نے بروقت افطار کرایا، ان کی پیاس بجھائی۔ اس کو جو اجر ملا ہوگا وہ اللہ کو علم ہے اور یقیناً اسی اجر میں اس کے دل کی وہ خوشی بھی شامل ہوگی جو اس عمل کے نتیجے میں اسے ملی ہوگی۔ اگر ہم اس ماہ میں انفرادی اور اجتماعی عبادات کے ساتھ ساتھ اپنی اپنی استطاعت اور گنجائش کے مطابق کچھ چیزیں اپنے معمول میں شامل کرلیں تو یقیناً یہ اجر اور یہ خوشی ہمارے حصے میں بھی آسکتی ہے۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ ہم اپنی ہمت سے بڑھ کر یہ کام کریں لیکن کھجور بھر نیکی بھی کوئی کم نہیں ہوتی۔
1۔ ہم اپنے ماتحتوں سے اس ماہ کام کا بوجھ کم کر دیں۔
2۔ اپنی گاڑی موٹر سائیکل یا بیگ میں گنجائش کے مطابق کھجوریں اور پانی رکھ لیں شاید دفتر، دکان، بازار یا سڑک پر کسی روزہ دار کے کام آسکیں۔
3۔ کسی نادار اور کم استطاعت والے رشتے دار پڑوسی یا جاننے والے کو دس پندرہ دن کا راشن لے دیں۔ ماشاء اللہ بہت سے فیاض اور دل والے یہ کام بڑے پیمانے پر کرتے ہیں لیکن جس کے لیے جو ممکن ہے اتنا کرلے۔ پانی کا ایک سیراب کردینے والا گھونٹ بھی پیاسے کیلئے بہت بڑی نعمت ہے۔
4۔ ہسپتالوں میں مریضوں کے ساتھ آنے والے لواحقین بعض اوقات بہت کس مپرسی کے عالم میں ہوتے ہیں اور ان میں روزے دار بھی ہوتے ہیں۔ ان کی دیکھ بھال اور افطار کا بندوبست ہوسکے تو مریض اور تیماردار دونوں کی دعا مل سکتی ہے۔
5۔ افطاری پر ہر گھر میں خصوصی اہتمام ہوتا ہے اور رنگ برنگ پکوان اور کھانے بنائے جاتے ہیں۔ اگر ہم کسی ایک روزہ دار مثلاً گھریلو ملازم یا خادمہ کے گھر میں سے ایک اضافی فرد کو بھی افطار کروا سکیں تو ان گھرانوں تک بھی یہ رزق پہنچ جائے گا جو اس کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
اللہ سب کو سلامت رکھے لیکن اگلے رمضان آپ یا میں کہاں ہوں گے، کچھ پتا نہیں۔ تو کیا ہم اس سال کا مہمان روٹھ جانے دیں؟ دسترخوان پرساتھ نہ بٹھا لیں؟ کیا خیال ہے؟