تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     15-04-2021

یہ مناسب نہیں ہے!

ماہِ مقدس کا آغاز ہوچکا۔ برکتوں اور رحمتوں والے اِس مہینے کے دوران ہرکسی کی کوشش اور خواہش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ برکتیں سمیٹے۔ اِس بابرکت موقع پر اربابِ اختیار کی طرف سے مبارکباد کے روایتی پیغامات بھی سامنے آتے ہیں۔ یہی سلسلہ اب کے بھی جاری رہا اورماہِ مقدس کی اہمیت اور اِس کے تقدس کے حوالے سے متعدد پیغامات سامنے آئے۔ صدرِمملکت کی طرف سے قوم کو مبارکباد دیتے ہوئے یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے اندر تقویٰ پیدا کرنے کے لیے رمضان کے روزے فرض کیے ہیں اور تقویٰ دراصل پرہیز گاری کا نام ہے، دوسرے لفظوں میں محتاط انداز میں زندگی گزارنا تقویٰ ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اُن کی باتوں پر عمل کرتے ہیں یا نہیں۔ محترم وزیراعظم کی طرف سے بھی تقریباً ایسے ہی خیالات کا اظہار سامنے آیا کہ روزہ انسان کے اندر پرہیز گاری، ایثار اور ہمدردی کے جذبات پیدا کرتا ہے۔ اِسی طرح دامے درمے قدمے سخنے دیگر شخصیات کی طرف سے بھی ماہِ مقدس کے آغاز پر اہلِ اسلام کو مبارکبادیں دی گئی ہیں۔ حکومت کی ایک اتحادی جماعت کے رہنما کی طرف سے یہ تلقین بھی کی گئی ہے کہ لوگ اِس مہینے کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے تزکیہ نفس پر زور دیں۔ کاش لگے ہاتھوں وہ کوئی ایسا طریقہ بھی بتا دیں کہ مسائل کے گرداب میں پھنسے ہوئے احباب کیونکر یہ سب ممکن بنا سکیں گے؟کبھی تو کچھ ایسا بھی کردیا کریں کہ اِن پیغامات کے ساتھ ماہِ مقدس کی مناسبت سے فراہم کی جانے والی سہولتوں کا ذکر بھی عوام کو سننے کو ملے۔ یہاں تو یہ عالم ہوچکا ہے کہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی منافع خوری اور مہنگائی کا وہ غدر مچنا شروع ہوجاتا ہے کہ خدا کی پناہ!
ذرا دیکھئے تو کس انداز میں ماہِ مقدس کا آغاز ہوا ہے۔ سڑکوں کی بندش، ماردھاڑ، ایک دوسرے پر تشدد، راستوں کی بندش سے شہریوں کو پہنچنے والی تکلیف، ٹوٹی پھوٹی ایمبولینسز، تشدد کا شکار ہونے والے پولیس اہلکار اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے طاقت کے استعمال سے زخمی ہونے والے کارکن۔ اِن حالات میں تو دل دہل کر رہ گیا ہے۔ راستوں کی بندش کے باعث پورے ملک میں لوگ جگہ جگہ پھنسے رہے۔ شاید ہی اِس کے ذمہ داروں کو احساس ہوا ہو کہ ماہِ مقدس شروع ہوچکا ہے، اِس کے تقدس کا ہی کچھ خیال کرلیں۔ معلوم نہیں کیا جواز بنا کر جگہ جگہ آگ کے الاؤبھڑکائے گئے۔ کئی مقامات پر غریبوں کے رکشے تک جلا کر راکھ کر دیے گئے۔ اگر کوئی پولیس کے ہتھے چڑھ گیا تو پولیس نے اُس کی درگت بنا دی اور جو پولیس والا احتجاجیوں کے ہتھے چڑھ گیا تو پھر وہ وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنا۔ ایسی ایسی فوٹیجز سامنے آئی ہیں گویا دودشمن آپس میں نبرد آزما ہوں۔
راستوں کی بندش سے ہسپتالوں میں پڑے ایسے مریضوں کی جانیں داؤ پر لگ گئی ہیں جنہیں آکسیجن کی ضرورت ہے۔ کورونا کے تشویش ناک مریض تو آکسیجن کے بغیر ایک پل بھی سروائیو نہیں کرسکتے۔ اِن حالات میں مریضوں کے لیے آکسیجن کی فراہمی یقینی بنانا حکومت کے لیے چیلنج بنا رہا۔ یاد پڑتا ہے کہ آج سے تین‘ چار سال قبل جو صاحبان ایسا سب کچھ کرنے والوں کی حمایت کررہے تھے‘ آج وہ خود اقتدار میں ہیں تویہ سب دیکھ کر ان کے چہروں پر ہوائیاں اُڑی ہوئی ہیں۔ خیر!لیڈرانِ کرام کے رویے تو اپنی جگہ لیکن یہ سب حالات ظاہر کرتے ہیں کہ ہم سچ میں ماہ ِصیام کا کتنا احترام کرتے ہیں؟کیا رمضان المبارک کا اتنا ہی احترام اور تقدس ہے کہ ہم اپنی عبادات کا کچھ زیادہ اہتمام کر لیں؟ نہیں! ہرگز نہیں! عبادات تو ہماری اپنی ذات کے لیے ہوتی ہیں جو ہم اپنی عاقبت سنورانے کے لیے کرتے ہیں جس کا دوسروں کو فائدہ نہیں ہوتا‘ دوسروں کے حوالے سے ہمیں حقوق العباد کا مکلف بنایا گیا ہے جنہیں بعض صورتوں میں بعض عبادات پر بھی فوقیت دی گئی ہے۔
اِس سے آگے بڑھتے ہیں تو اشیائے خورونوش کے نرخوں کو لگنے والے پَر زخموں کو مزید کرید رہے ہیں۔ کبھی موقع ملے تو جا کریوٹیلٹی سٹورز اور رمضان بازاروں میں لگی ہوئی قطاریں دیکھیے۔یہ درست ہے کہ اِن مقامات پر اشیا قدرے کم نرخوں پر دستیاب ہوتی ہیںمگر اِن مقامات پر آنے والے صارفین جس طرح سے دو‘ دوکلو چینی اور گھی کے لیے خوار ہورہے ہیں، اُسے دیکھ کر بے اختیار آنکھوں میں نمی آجاتی ہے۔ رمضان بازاروں میں طویل قطار میں لگنے کے بعد جب دوکلو چینی کا لفافہ ہاتھ میں تھمایا جاتا ہے تو ساتھ ہی انگوٹھے پر سیاہی لگائی جاتی ہے ‘ بالکل ویسے ہی جیسے ووٹ ڈالتے ہوئے لگائی جاتی ہے‘ مبادا یہ شخص دوبارہ چینی خرید لے جائے۔ اب جن کی جیب میں پیسے ہیں وہ تو عام مارکیٹ سے ایک سو پانچ روپے فی کلو بھی چینی خرید سکتے ہیں مگر غریب کہاں جائیں؟ بڑے سٹورز پر چینی تقریباً 85روپے کلو میں دستیاب ہے لیکن شرط یہ ہے کہ چینی کے لیے دیگر اشیا بھی ایک مقررہ حد تک خریدنا ہوں گی۔ اب جواحباب یہ دونوں ریٹس ادا کرنے کی بساط نہیں رکھتے تو پھر اُن کے لیے رمضان بازار یا یوٹیلٹی سٹورز ہی بچتے ہیں۔ چند روپوں کی رعایت حاصل کرنے کے لیے مردوخواتین گھنٹوں طویل قطاروں میں لگنے پر مجبور ہیں۔ جنہوں نے عوام الناس کو ان قطاروں میں لگنے پر مجبور کیا‘ اپنی سوچ و فکر میں رمضان کی برکتیں تو وہ بھی سمیٹ رہے ہوں گے۔ جو احباب چینی یا گھی ذخیرہ کیے بیٹھے ہیں‘ اپنے تئیں اِس ماہِ مقدس کی رحمتیں تو وہ بھی سمیٹ رہے ہیں۔ روزے تو وہ بھی رکھ رہے ہوں گے جو 20کلو کاآٹے کا تھیلا بھرتے ہوئے آدھ کلو کی ڈنڈی مار جاتے ہیں۔ عبادات کا خصوصی اہتمام تو اُن پٹرول پمپس کے مالکان بھی کررہے ہوں گے جہاں سے کبھی پورا پٹرول نہیں ملا۔ رمضان کے احترام کا درس تو وہ پٹواری، پولیس والے یا دوسرے اہلکار بھی دے رہے ہوں گے جن کی جیبیں رشوت کے پیسوں سے بھری ہوں گی۔ ماہِ صیام کی برکتیں تو اپنے ماتحتوں کی روزی دبانے والے بھی بیان کررہے ہوں گے۔
غالب گمان ہے کہ یہ سب رویے بھی برقرار رہیں گے اوراپنے اپنے انداز میں مذہب سے اپنی والہانہ وابستگی کا اظہار بھی ہوتا رہے گا۔ اِس کے لیے کمزور سہارے بھی تلاش کیے جاتے رہیں گے جیسے حال ہی میں فیصل آباد میں ایک کیس سامنے آیا ہے۔ اب کی بار اِس کی زد میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کی دونرسیں آئی ہیں جن میں سے ایک نرس مسیحی ہے۔ دونوں کے خلاف 295bتعزیراتِ پاکستان کے تحت مقدمہ درج ہوچکا ہے۔ عین ممکن تھا کہ دونوں کو ہسپتال کے اندر ہی اِس''گستاخی‘‘ کی سزا دے دی جاتی لیکن قسمت اچھی تھی جو پولیس اُنہیں بچا کر تھانے لے گئی۔ محترم ایاز امیر صاحب نے بالکل درست نشاندہی کی ہے کہ ایسے تمام مقدمات کی فہرست نکلوا لیجئے تو اِن میں آپ کو معاشرے کے مجبور ترین افراد ہی نامزد نظرآئیں گے۔ معلوم نہیں ہم لوگوں کی ذہنیت کیا ہو چکی ہے کہ ہم کچھ سمجھنے کے لیے تیار ہیں نہ سننے کے لیے۔ شاید 25، 30 سال پہلے جو فصل بوئی گئی تھی وہ اب پک کر پوری طرح تیار ہوچکی ہے جس کا ثمر ہم سب کھا رہے ہیں۔ آثار یہی بتاتے ہیں کہ ابھی یہ پھل کھانا تادیر ہماری قسمت میں لکھا جاچکا ہے۔ ہم اپنے رویے تو تبدیل کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے لیکن ساتھ ہی ساتھ self satisfactionکے لیے خود کو مذہب کا والہانہ عاشق بھی ثابت کرتے رہیں گے۔ سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ اتنے والہانہ پن کے باوجود ہمارے یہاں کوئی چیز خالص کیوں نہیں ملتی، بے دھڑک جھوٹ کیوں بولاجاتا ہے، صبح سے شام تک ناپ تول میں کمی کا سلسلہ کیوں جاری رہتا ہے، دن رات رشوت کا بازار کیوں گرم رہتا ہے؟باتیں تو بہت سی ہیں جو سمجھ سے بالاتر ہیں لیکن سچی بات ہے کہ اب تو سوال کرتے ہوئے بھی ڈر محسوس ہوتا ہے۔ ڈر لگتا ہے کہ نیک نیتی کے ساتھ کی گئی بات بھی کسی کو بری لگ گئی تو اُس کے عتاب سے کون بچائے گا۔ کاش ہم سب کی سمجھ میں یہ بات آجائے یہ سب کچھ کرکے ہم ملک کی کوئی خدمت کررہے ہیں نہ مذہب کی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved