تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     15-04-2021

’’خندۂ بے جا‘‘ کا عذاب

بہت کچھ ہے جو خاصی توجہ اور استحکامِ فکر و نظر کے ساتھ طے کرنا ہوتا ہے مگر ہر شخص اپنی سہولت کے مطابق معاملات طے کرتا ہے۔ پھر یوں ہوتا ہے کہ کچھ دیر کے لیے تو تسکین کا سامان ہو جاتا ہے مگر آگے چل کر صرف ذہنی الجھن ساتھ رہ جاتی ہے۔ ہر دور کے انسان نے یہ طے کیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ پُرمسرت زندگی بسر کرنا ہے۔ یہ خواہش کسی بھی درجے میں بُری نہیں۔ ہمیں اس دنیا میں جتنا بھی وقت گزارنا ہے وہ ایسی حالت میں گزرنا چاہیے کہ دل و دماغ پر غیر ضروری بوجھ مرتب نہ ہو اور کسی کے لیے ہماری طرف سے کوئی بھی الجھن پیدا نہ ہو۔ ہم عمومی سطح پر خوش رہنے کی شدید خواہش کے تحت بہت کچھ کر رہے ہوتے ہیں۔ کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی صورت خوشی میسر ہو، دل بستگی کا سامان ہوتا رہے۔ خوش رہنے کی شدید خواہش کے تحت بہت کچھ کرنے کی کوشش اپنی جگہ مگر یہ بھی تو دیکھیے کہ خوش رہنے کی کوشش ہی ہمیں الجھنوں سے دوچار بھی کرتی ہے۔ ہم ایسی صورتحال کے اسباب پر بالعموم غور نہیں کرتے۔ ہر دور کے انسان کی طرح آج کا انسان بھی زیادہ سے زیادہ خوش رہنے کی کوشش میں اچھے خاصے بگاڑ کا سبب اور ذریعہ ثابت ہوتا جارہا ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ وہ ذہن سے کام لے رہا ہے نہ توازن ہی کو اہمیت دے رہا ہے۔ کوشش یہ ہے کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ مسرت یقینی بنائی جائے۔ ایسا کبھی ہوا ہے نہ ہوسکتا ہے۔ ہر معاملہ فطری یا قدرتی طور پر ایک منطقی رفتار کا حامل ہوتا ہے۔ ہر مرحلہ کچھ وقت لیتا ہے۔
حقیقی دائمی مسرت کا حصول ایسی منزل ہے جہاں تک پہنچنا انتہائی دشوار ہے۔ اس بات کو وہی سمجھ سکتے ہیں جو حقیقت پسند ہوں یعنی حقیقی دنیا کو ذہن نشین رکھ کر چلتے ہوں اور خوش فہمیوں سے دور رہنے کو ترجیح دیتے ہوں۔ بازار میں ایسی سینکڑوں کتابیں موجود ہیں جن میں خوش رہنے کے طریقے بتائے گئے ہیں۔ بڑے افراد کی آپ بیتیاں بھی ہمیں اس حوالے سے بہت کچھ بتاتی ہیں۔ ہم اپنے بزرگوں سے بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ خود ماحول بھی ہمیں بہت کچھ بتاتا اور سکھاتا ہے۔ ماحول میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ ہمیں کچھ نہ کچھ سکھانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ اچھی باتوں سے ہم اچھائی سیکھتے ہیں اور بُروں کے اعمال و انجام سے ہم بُرائی سے دامن کش رہنا سیکھتے ہیں۔ زندگی کا سفر یونہی جاری رہتا ہے۔ یہ دریا کبھی رکتا نہیں۔ زندگی کے دریا کو پار کرنے کے لیے ہمیں کوئی نہ کوئی کشتی درکار ہوتی ہے یا پھر تیرنا سیکھنا پڑتا ہے۔ اگر اِن دونوں مراحل سے گزرنے سے بچنا ہو تو دریا پر پُل باندھنا پڑتا ہے۔ بہر کیف! ڈھنگ سے جینا آسان نہیں۔ اس راہ میں کئی سخت مقام آتے ہیں ؎
رہروِ راہِ محبّت پہ خدا رحم کرے
اس میں دو چار بہت سخت مقام آتے ہیں
معاملہ صرف محبت کا نہیں، پوری زندگی کا ہے۔ ہم مرتے دم تک منفی سے دوچار اور مثبت سے ہم کنار رہتے ہیں۔ یہ سب کچھ ہمارے لیے ناگزیر سا ہے۔ یہ انتظام بھی قدرت ہی کی طرف سے ہے۔ مقصود یہ ہے کہ ہم کچھ نہ کچھ سیکھتے رہیں، اپنے وجود کا معیار بلند کرتے رہیں۔ کیا حقیقی دائمی مسرت کا حصول ناممکن ہے؟ یہ سوال ہر اُس انسان کے ذہن میں ابھرتا ہے جو اس حوالے سے کچھ سوچتا ہے اور حقیقت پسندی کے ساتھ کچھ کرنے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ حقیقی دائمی مسرت کا حصول ممکن ہے۔ ہر اُس انسان نے حقیقی مسرت پائی ہے جس نے اپنے وجود کی تطہیر و تہذیب پر توجہ دی ہے۔ کوئی بھی انسان اپنے آپ میں ڈوبے بغیر ابھر نہیں سکتا۔ اس دنیا میں ہمارا قیام محض اس لیے نہیں ہے کہ سانسوں کی گنتی پوری کریں اور چل دیں۔ ہمیں روئے ارض پر ڈھنگ سے جینا ہے۔ اس دنیا کو کچھ دینا ہے، اس سے کچھ لینا ہے اور یہ سب کچھ اس طور کرنا ہے کہ عدل و توازن کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے اور کسی کو ہم سے غیر ضروری اور غیر منطقی تکلیف نہ پہنچے۔ جب ہم کسی بھی معاملے میں غیر جانبدار ہوکر سوچتے ہیں، دوسروں کے افکار و اعمال کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے معاملات درست کرنے پر متوجہ ہوتے ہیں تب زندگی میں حقیقی توازن کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں ہم وہی کچھ کرتے ہیں جو ہمیں کرنا چاہیے۔ یہ سب کچھ ایسا آسان نہیں جیسا دکھائی دیتا ہے۔ ہم میں سے بیشتر کا حال یہ ہے کہ کسی نہ کسی طور مسرت کا حصول یقینی بنانے پر متوجہ رہتے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ ہماری اس روش سے کسی کے لیے کیا الجھن پیدا ہوسکتی ہے۔ حقیقی مسرت کے حصول کا ایک اچھا طریقہ یہ ہے کہ انسان جو کچھ اپنے لیے چاہتا ہے وہی دوسروں کے لیے چاہے۔ دین کی بھی یہی تعلیم ہے کہ کسی کو تکلیف پہنچائے بغیر زندگی بسر کرنے کی کوشش کی جائے۔ ایسی حالت میں ملنے والی چھوٹی سی خوشی بھی بہت بڑی ہوتی ہے۔ یہ کوئی کتابی بات نہیں۔ تھوڑی سی کوشش سے ہم اپنے ماحول کو چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے بھرسکتے ہیں۔ زندگی کا سفر اِس طور کٹے تو زیادہ کارآمد ثابت ہوتا ہے اور بہت سی خوشگوار یادوں کا بھی سبب بنتا ہے۔
آج ہم اپنے ماحول کو بغور دیکھیں تو یہ جان کر مایوسی ہی ہوتی ہے کہ لوگ کسی نہ کسی طور اپنے لیے تو مسرت یقینی بنانا چاہتے ہیں مگر دوسروں کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ کم ہی رکھتے ہیں۔ حالانکہ ہم بچپن سے ہی علامہ اقبال کی نظم ہمدردی کا یہ شعر جابجا پڑھنا شروع کر دیتے ہیں کہ ؎
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
جو آتے ہیں کام دوسروں کے
اس کے باوجود لوگ دوسروں کی خوشی کو اہمیت نہیں دیتے، کیوں؟ اس لیے کہ دوسروں کی مسرت ترجیحات کا حصہ نہیں۔ ہم میں سے بیشتر کا بنیادی تصور یہ ہے کہ اپنی خوشی کوئی الگ چیز ہوتی ہے جو دوسروں سے دور یا الگ رہ کر حاصل ہوتی ہے۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ کسی بھی انسان کے لیے وہی بات خوشی کا درجہ رکھتی ہے جس میں دوسروں کے لیے بھی کسی نہ کسی حد تک مسرت کا سامان ہو۔ ہم معاشرے یا ماحول کا حصہ ہیں۔ ماحول سے ہٹ کر ہم کچھ کرنا تو دور کی بات‘ ڈھنگ سے جی بھی نہیں سکتے۔ دوسروں کو پریشانی سے بچانے ہی میں اپنی اور دوسروں کی حقیقی مسرت کا راز چھپا ہے۔ جس نے یہ راز جانا وہ کامیاب ہوا۔ دین بھی ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ اپنی ذات سے دوسروں کو زیادہ سے زیادہ فیض پہنچایا جائے، اُن کی پریشانیاں دور کی جائیں۔ یہ سوچ معاشرے کو پروان چڑھاتی اور مضبوط بناتی ہے۔ آج ہمارے سماج میں اکثریت کا یہ حال ہے کہ کسی نہ کسی طور اپنے گھر کو چمکتا دمکتا رکھنا چاہتی ہے مگر اس بات سے اُسے کچھ خاص غرض نہیں کہ باقی ماحول کتنا دُھندلا یا تاریک ہے۔ ہر انسان خوش رہنے کے لیے سرگرداں ہے مگر اس معاملے کو انفرادی حیثیت دے رکھی ہے۔ خوش رہنے کی کوشش میں الٹی سیدھی حرکتیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ لوگ بلا ضرورت یا غیر منطقی طور پر ہلا گلا کرنے کو بھی مسرت یا اس کا اظہار سمجھ بیٹھے ہیں۔ یہ سب کچھ کسی بھی درجے میں سامانِ مسرت نہیں۔
ابلاغ کے ذرائع نے بے مثال ترقی کی ہے۔ آج ایسا بہت سا سمعی و بصری مواد میسر ہے جو انسان کو خوش رکھنے کی خاطر ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ لوگوں کو کسی نہ کسی طور خوش رکھنے کی کوشش میں ایسا بہت کچھ کیا جارہا ہے جو کسی بھی اعتبار سے معیاری نہیں۔ یہ غیر معیاری مواد انسان کو شدید ذہنی الجھن سے دوچار رکھتا ہے۔ نئی نسل کا حال سب سے بُرا ہے۔ کسی نہ کسی طور خوش رہنے کی کوشش میں آج کے نوجوان سطحی نوعیت کی چیزوں میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔ بلا جواز ہنسی (خندۂ بے جا) زندگی کا جز ہوکر رہ گئی ہے۔ اس خندۂ بے جا نے ہمارا بہت کچھ ذہنی الجھنوں اور آنسوؤں کی نذر کردیا ہے۔ مسرت وہی ہے جو منطقی ہو، دوسروں کے لیے بھی دل بستگی کا سامان کرتی ہو۔ بات بے بات ہی ہی ہاہا کو ہم مسرت قرار دے کر مطمئن نہیں رہ سکتے۔ یہ تو عذاب کی ایک صورت ہوئی۔ ڈھنگ سے جینے کا تقاضا ہے کہ اُسی بات سے خوش ہوا جائے جس میں سب خوش ہوں یعنی محض اپنے دل و دماغ کا مفاد نہ دیکھا جائے، دوسروں کا بھی سوچا جائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved