تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     16-04-2021

توبہ

ڈاکٹر شیر زمان نامور ماہرِ تعلیم اور عربی زبان و ادب اور علومِ اسلامیہ میں پاکستان کے اندر اور ماورائے پاکستان ایک سند کے طور پر جانے پہچانے جاتے ہیں۔ انہوں نے ہارورڈ یونیورسٹی امریکہ سے عربی میں پی ایچ ڈی کی۔ بعدازاں پاکستان کے نامی گرامی اداروں میں کلیدی عہدوں پر فائز رہے۔ وہ اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر، اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین اور ادارہ تحقیقاتِ اسلامی کے ڈائریکٹر جنرل بھی رہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ مغربی دنیا میں قیام و شہرت اور دنیاوی عہدوں کی چکاچوند سے اُن کی باطنی روحانی کیفیات ماند پڑنے کے بجائے مزید صیقل ہوگئی ہیں۔ میرے لئے یہ اعزاز کی بات ہے کہ وہ میرے دادا استاد ہیں۔ اس طالب علم کو انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد میں تدریسی فرائض انجام دیتے ہوئے کئی بار اُن کی زیارت اور اُن سے ملاقات اور اکتسابِ فیض کا شرف حاصل ہوا۔
اُن کے شاگردِ عزیز اور میرے استادِ گرامی ڈاکٹر خورشید رضوی اپنے استادِ محترم کا عکسِ جمیل ہیں۔ ڈاکٹر خورشید رضوی بھی عربی زبان کے عالمی سطح پر مستند عالم، نامور اور ہردلعزیز استاد اور پاکستان کے سینئر شاعر ہیں۔ اسے حسنِ اتفاق کہہ لیجئے کہ شبِ رفتہ رضوی صاحب نے مجھے بتایا کہ اُن کے استاد ڈاکٹر شیر زمان ان سے ٹیلی فون پر کہہ رہے تھے کہ کورونا جیسی موذی وبا سے نبرد آزما ہونے کیلئے ہماری قوم مادی اور سائنسی سہاروں کی بات تو کرتی ہے مگر ہمارے اندر رجوع الی اللہ کی کوئی تڑپ دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔ اس طرف نہ تو حکومت توجہ دلا رہی ہے اور نہ ہی علمائے کرام عوام کو اللہ سے لو لگانے کیلئے بڑے پیمانے پر کوئی ترغیب دے رہے ہیں‘ دینی و سیاسی جماعتوں نے بھی اس سلسلے میں کوئی جامع پروگرام پیش نہیں کیا ہے۔
اسے عجیب اتفاق ہی کہنا چاہئے کہ اِدھر ایک اللہ والے کے دل سے ندا بلند ہوئی اور اُدھر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر جناب عارف علوی نے وزارتِ مذہبی امور کو ہدایت کی کہ ملک میں جاری کورونا وائرس کی تیسری لہر کے حوالے سے رمضان المبارک کا پہلا جمعہ توبہ و استغفار کے طور پر منایا جائے اور صدقِ دل کے ساتھ کورونا سے نجات کے لیے دعائیں کی جائیں۔ وزارتِ مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی نے تمام متعلقہ اداروں، مساجد کے خطباء اور آئمہ کرام کو یہ ہدایات جاری کردی ہیں۔
اسلام میں توبہ کا تصور نہایت دل خوش کن ہے۔ توبہ ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑتی اور یاس کو امید میں بدل دیتی ہے۔ جب سارے دنیاوی سہارے دم توڑ دیتے ہیں اور اپنے بھی منہ موڑ لیتے ہیں تب دلوں کی اجڑی ہوئی دنیا سچی توبہ سے گل و گلزار بن جاتی ہے۔ توبہ کیا ہے؟ اسے ایک روشن خیال اور ''دنیا دار‘‘ نے دورِ جدید کے اسلوب میں نہایت خوبصورتی سے پیش کیا تھا۔ جناب الطاف گوہر مرحوم بنیادی طور پر ایک بیوروکریٹ تھے۔ وہ سابق صدر ایوب خان کے انتہائی معتمد سیکرٹری تھے۔ لوگ انہیں بلا عہدہ نائب صدر کہا کرتے تھے۔ وہ صرف 39 برس کی عمر میں سیکرٹری اطلاعات کے منصب پر فائز ہوئے۔ بیوروکریسی سے فارغ ہونے کے بعد وہ پہلے انگریزی روزنامے ڈان اور پھر دی مسلم کے بھی ایڈیٹر رہے۔ وہ انگریزی اور اردو میں یکساں طور پر قادرالکلام تھے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو سقوطِ ڈھاکہ کے بعد باقی ماندہ پاکستان کے سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنے تو انہوں نے الطاف گوہر کو پسِ دیوارِ زنداں بھیج دیا۔ جیل میں الطاف گوہر کو احتسابِ ذات کا موقع ملا۔ وہاں انہوں نے مولانا مودودیؒ کی تفسیر تفہیم القرآن کا مطالعہ کیا اور انہیں رجوع الی اللہ کی سعادت نصیب ہوئی۔ الطاف گوہر نے مولانا کی تفسیر کو مدنظر رکھتے ہوئے بعض قرآنی آیات کا ترجمہ خوبصورت انگریزی میں کیا۔ ذرا توبہ کے تصور کے بارے میں اُن کی دل میں اترنے والی انگریزی عبارت ملاحظہ کیجئے:
Toba is not only the negation of the past but also a contract for the future.
اس وقت پاکستان کے طول و عرض میں، شہروں اور دیہاتوں میں کورونا نہایت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ہمارے پاس تو کورونا سے بچائو کے لیے ویکسین کی اس مقدار کا عشرِ عشیر بھی نہیں جو 22 کروڑ عوام کے لیے درکار ہے۔ جن ملکوں کے پاس یہ وسائل موجود ہیں اور عوام میں ہم سے زیادہ شعور بھی ہے، اور وہاں کی حکومتوں نے لمبے لمبے عرصے کیلئے لاک ڈائون بھی لگائے۔ وہاں بھی کورونا کنٹرول ہونے میں نہیں آرہا۔ ہمارے ہی نہیں بہت سے سائنسدانوں کے عقیدے کے مطابق بھی اللہ ہی نئی سے نئی ایجادات اور ادویات کے فارمولے اُن کے دلوں میں القاء کرتا ہے۔ جناب محمد مصطفیٰﷺ کی حدیث پاک کے مطابق کوئی چیز تقدیر کو نہیں ٹال سکتی سوائے دعا کے۔ افسوس تو یہ ہے کہ ہم عمومی طور پر ''چشمِ تر‘‘ کی نعمت سے بھی محروم ہیں۔ امام نووی بہت بڑے محدث گزرے ہیں۔ انہوں نے بھی توبہ کی قبولیت کے باب میں لکھا ہے کہ اگر دل میں سچی اور حقیقی ندامت ہو تو دعا قبول ہوتی ہے۔ قبولیتِ توبہ کی شرط ندامت و پشیمانی ہے۔ اور ندامت اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان اپنا حقیقی محاسبہ کرتا ہے۔
اس حقیقت کو علامہ اقبال نے اپنی نوعمری کے دور کے اس شعر میں نہایت خوبصورتی سے بیان کیا ہے :
موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چن لیے
قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے
دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ اپنی زندگی پر نظر ڈالیں تو کسی بھی میدان میں ہم اظہارِ ندامت کرتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے۔ اگر سیاستدانوں نے کوئی غلط بات کہہ دی ہے اور کوئی معاہدہ توڑا ہے یا حکمرانوں نے اپنے وعدوں کے برعکس کیا ہے تو اس پر وہ کوئی ندامت یا تاسف محسوس نہیں کرتے۔
ہمیں چاہئے کہ ہم صدرِ مملکت جناب عارف علوی کی اپیل پر لبیک کہیں۔ سارے حکمران، سارے سیاست دان، سارے علمائے کرام اور عوام الناس من حیث القوم رمضان کے پہلے جمعۃ المبارک کو توبہ استغفار کریں۔ بیشک قائدین دوسروں کے سامنے اپنی غلطیوں کا اعتراف نہ کریں اور نہ ہی اپنی پشیمانی و شرمندگی کا اظہار کریں لیکن دل میں تو ندامت محسوس کریں۔ میرا دل گواہی دیتا ہے کہ اگر ساری قوم اللہ کے حضور صدقِ دل کے ساتھ گڑگڑائے گی، آہ و زاری کرے گی اور نہایت عاجزی کے ساتھ کورونا سے نجات کی دعا مانگے گی تو انشاء اللہ ہماری دعا قبول ہوگی۔
اپنے رویوں اور گناہوں پر ندامت اس وقت پیدا ہوتی ہے کہ جب انسان اپنا حقیقی محاسبہ کرتا ہے۔ پاکستان میں کئی طرح کے سیاسی و معاشی احتساب ہوتے رہتے ہیں مگر وہ محاسبہ دیکھنے میں نہیں آتا جو سچی پشیمانی و ندامت سے پھوٹتا ہے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی کی نظم ''محاسبہ‘‘ ذرا غور سے پڑھیے۔ نظم میں مذکور ''عبرت بھری ندامت‘‘ کو ہم اپنا انفرادی و قومی شعار بنا لیں تو ہمارے بہت سے دکھوں کا مداوا ہو سکتا ہے۔
محاسبہ
ہوا کہیں نام کو نہیں تھی
اذانِ مغرب سے دن کی پسپا سپاہ کا دل دھڑک رہا تھا
تمام رنگوں کے امتیازات مٹ چکے تھے
ہر ایک شے کی سیہ قبا تھی
شجر حجر سب کے سب گریباں میں سر جھکائے
محاسبہ کر رہے تھے دن بھر کے نیک و بد کا
ادھر مرا دل
دھڑک دھڑک کر
عجیب عبرت بھری ندامت سے سوچتا تھا
کہ آج کا دن بھی کٹ گیا ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved