پاکستان کو قرضوں کی ادائیگی پر ریلیف ملنے کا سلسلہ جاری ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین کی جانب سے قرضوں کی ادائیگی میں مزید ایک سال کی توسیع ملنے کے بعد جی 20 ممالک نے بھی قرضوں کی ادائیگی میں توسیع دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ریلیف دینے کے تیسرے مرحلے میں تقریباً ایک ارب ڈالر کے قرضوں کی ادائیگیاں مؤخر ہو سکیں گی۔ اس میں 785 ملین ڈالر پرنسپل اور بقیہ سود کی ادائیگی ہے۔ اس سہولت کی وجہ کورونا وبا ہے‘ جس کے پیش نظر ترقی پذیر ممالک کو قرضوں کی ادائیگی میں عارضی ریلیف دیا گیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے پچھلے سال کورونا وبا کے آغاز پر جی 20 ممالک اور آئی ایم ایف سے درخواست کی تھی کہ غریب ممالک کے قرض معاف کیے جائیں۔ قرض معاف تو نہ ہو سکے لیکن ادائیگی کے وقت میں توسیع مل گئی۔ موجودہ توسیع بھی اسی پروگرام کے تحت ہے۔ آئی ایم ایف نے بھی اس میں حصہ ڈالا ہے اور تقریباً اڑھائی ارب ڈالر کی ادائیگیوں میں توسیع کر دی گئی ہے۔ جی ٹونٹی اور آئی ایم ایف کا ریلیف مل کر تقریباً ساڑھے تین ارب ڈالر کا عارضی ریلیف بنتا ہے۔ فی الحال جولائی 2021ء سے دسمبر 2021ء تک توسیع کی گئی ہے۔ امید ہے کہ اس میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔ ساڑھے تین ارب ڈالر کے اس ریلیف نے حکومت پاکستان کے اگلے مالی سال کے لیے قرضوں کی طلب بھی ساڑھے تین ارب ڈالر سے گرا دی ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق اگلے سال کی قرض ڈیمانڈ تئیس اعشاریہ چھ بلین ڈالر ہو گی۔ پاکستان نے دیگر 76 افریقی ممالک کے ساتھ اس پروگرام کے لیے کوالیفائی کیا تھا لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ کورونا کے باعث ملنے والے ریلیف سے زیادہ فائدہ ملتا دکھائی نہیں دے رہا۔ عالمی مبصرین اس بات پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کہ پاکستان ابھی تک کورونا ویکسین کی خریداری اور عوام تک اسے پہنچانے میں مطلوبہ دلچسپی نہیں دکھا رہا۔ علاقائی اور اپنے ہمسایہ ممالک میں عوام کو ویکسین لگانے میں پاکستان کا نمبر آخری ہے‘ جن دس لاکھ لوگوں کو ویکسین لگانے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے‘ ان میں سے بھی ستر فیصد کے ایڈریس اور شناختی کارڈ نمبرز کی تفصیل مہیا نہیں کی جا رہی جس کی ممکنہ وجہ حساب نہ رکھنا یا غلط اعداد وشمار پیش کرنا ہے۔
گزشتہ اگست سے پاکستان جی 20 ممالک کا تقریباً پچیس اعشاریہ چار ارب ڈالر کا مقروض ہے۔ اس وقت پاکستان کے قرضوں کی حالت بے حد خراب ہو چکی ہے کیونکہ واجب الادا رقم جی ڈی پی کے 94 فیصد سے بڑھ چکی ہے۔ یہ صورتِ حال ایسے ملک کے لیے مزید خطرناک ہو جاتی ہے جو پرانے قرض اتارنے کے لیے نئے قرض لینے پر مجبور ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق‘ مالی سال 2022ء میں پبلک سیکٹر کی جانب سے واجب الادا قرض کی رقم تقریباً 14 ارب ڈالر ہو سکتی ہے۔ ان میں چھ اعشاریہ ایک بلین ڈالرز قلیل مدتی اور سات ارب ڈالر طویل مدتی قرض شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ایک ارب ڈالر بانڈز کی ادائیگی بھی کرنا ہے۔ پاکستان کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی ملک یا ادارہ پاکستان کو مزید قرض دینے کے لیے تیار نہ ہوتا اگر آئی ایم ایف چھ ارب ڈالر کا قرض پیکیج بحال نہ کرتا۔ اس بحالی نے قرض دینے والے ممالک کو تسلی کرا دی ہے کہ پاکستان اگلے سالوں میں بہتر پرفارم کر سکتا ہے اور قرض کی ادائیگی کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس طرح کی صورتحال میں خوشی کے شادیانے بجانے کے بجائے یہ سوچنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ کب تک سہاروں کی بنیاد پر ملک گھسیٹا جاتا رہے گا۔ ایسی صورتحال غیر تسلی بخش ہوتی ہے جہاں قرض خواہوں کو یقین دلانے کے لیے دوسرے ملکوں اور اداروں کی سفارش کروانا پڑے اور اگر سفارشی ادارہ آئی ایم ایف ہو تو پھر ملک کا اللہ ہی حافظ ہے کیونکہ آئی ایم ایف کی پالیسیاں ایسی ہوتی ہیں کہ سارا بوجھ عوام کے کندھوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔ مشہور مقولہ ہے کہ دنیا میں کوئی بھی ڈنر مفت نہیں ہوتا، لہٰذا آئی ایم ایف کی پاکستان کو عارضی سپورٹ کسی خطرے سے خالی نہیں ہے۔
ایک طرف ملکی قرضوں میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے اور دوسری طرف اڑھائی سالو ں میں چھٹا نیا چیئرمین ایف بی آر آ گیا ہے۔ آئی ایم ایف نے مالی سال 2022ء کے لیے چھ کھرب روپے کا ٹیکس ہدف مقرر کیا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسے حاصل کیسے کیا جائے گا؟ کسی بھی ادارے کو کامیابی سے چلانے کے لیے مستقل مزاجی کی ضرورت ہوتی ہے۔ موجودہ حکومت میں اس کی سب سے زیادہ کمی نظر آتی ہے۔ نیا چیئرمین آ کر نئی ٹیکس پالیسی بناتا ہے اور ابھی وہ مکمل طور پر اپنی پالیسی کو چلا بھی نہیں پاتا کہ اسے تبدیل کر دیا جاتا ہے اور کوئی دوسرا چیئرمین آ جاتا ہے۔ چھ چیئرمین آ چکے ہیں لیکن پالیسی ابھی تک واضح نہیں ہے کہ چھ کھرب روپے ٹیکس کیسے اکٹھا ہو گا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اِن ڈائریکٹ ٹیکسز لگا کر ہدف پورے کرنے کا قلیل مدتی منصوبہ پیش کر دیا جاتا ہے۔ جس سے ایف بی آر کے بابوؤں کی جان تو چھوٹ جاتی ہے لیکن ٹیکس دینے والے عوام اس شکنجے میں پھنس جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر اِن ڈائریکٹ ٹیکسز سے ہی ملک چلانا ہے تو پھر ایف بی آر میں افسروں کی اتنی بڑی فوج کی کیا ضرورت ہے؟
چیئرمین ایف بی آر وزیر خزانہ سے بھی جڑا ہوتا ہے اور بدقسمتی دیکھیے کہ پونے تین سالوں میں تین وزیر خزانہ اور چھ چیئرمین ایف بی آر آئے ہیں۔ اگر انتخاب کے طریقہ کار پر نظر ڈالی جائے تو وہ بھی مبینہ طور ذاتی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ حماد اظہر کی بطور وزیر خزانہ تعیناتی کے بعد چیئرمین ایف بی آر کی تبدیلی بھی متوقع تھی جو اب عمل میں آ چکی ہے اور عاصم احمد نئے چیئرمین ایف بی آر تعینات کیے گئے ہیں۔ عاصم احمد ان لینڈ ریونیو میں اکیسویں گریڈ کے آفیسر تھے اور ممبر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ مبینہ طور پر وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے ریونیو ڈاکٹر وقار مسعود خان نے عاصم احمد کا نام تجویز کیا۔ اس کے علاوہ وہ حماد اظہر صاحب سے بھی ملاقات کر چکے ہیں؛ البتہ یہ تعیناتیاں حکومت کی صوابدید ہوتی ہیں، ممکن ہے کہ حکومت کو عاصم احمد میں قابلیت کے جوہر نظر آئے ہوں۔
ایف بی آر آسان ڈپارٹمنٹ نہیں ہے۔ نئے چیئرمین کا سب سے پہلا ٹارگٹ اپنے پاؤں جمانا اور قابل ٹیم کو سامنے لے کر آنا ہو گا کیونکہ یہ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ ماضی کے چیئرمینوں کی طرح موجودہ چیئرمین بھی چند ماہ کے ہی مہمان ہوں گے۔ اس کے علاوہ پچھلے چیئرمینوں نے ماضی میں بہت سی ایسی تعیناتیاں کیں جن پر آج تک سوال اٹھائے جا رہے ہیں‘ امید کی جا رہی ہے کہ موجودہ چیئرمین اس نظام میں بہتری لا سکیں گے۔ پچھلے چیئرمین محض 100 دن چیئرمین رہنے کے بعد رخصت ہو گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ ان کی سروس عمر مکمل ہو چکی تھی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس شخص کے بارے میں علم ہو کہ اس کی ریٹائرمنٹ میں دو‘ تین مہینے رہ گئے ہیں‘ اسے ملک کا اہم ادارہ کیوں سونپا گیا؟ ایک طرح سے یہ سو دن دانستہ طور پر ضائع کیے گئے۔ موجودہ معاشی حالات کے تناظر میں ایک ایک دن اہمیت کا حامل ہے۔ اس وقت جب حکومت ختم ہونے میں لگ بھگ سوا دو سال رہ گئے ہوں‘ اگلا سال الیکشن کی تیاری کا ہو‘ ایک ایسے شخص کو دانستہ طور پر صرف چیئرمین ایف بی آر لگا دینا‘ جو کچھ دنوں بعد ریٹائر ہونے والا ہو‘ کہاں کی سمجھداری ہے؟ حکومت سے گزارش ہے کہ آفیسرز کے انتخاب سے پہلے ورکنگ مکمل کرے اور جب کسی کو سیٹ پر بٹھا دے تو اسے آزادانہ طور پر کام کرنے دے۔ جہاں غلطی ہو وہاں اس کا سمت درست کرنے کی کوشش ضرور کرے مگر اسے کچھ وقت دے تاکہ وہ اپنی پالیسیوں کو لاگو کر سکے۔ ادارے اسی طرح مضبوط ہو سکتے ہیں۔