چوتھے پارے کی پہلی آیت میں بیان ہوا کہ نیکی کا مرتبۂ کمال یہ ہے کہ اپنے پسندیدہ اور محبوب مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے۔ رسول اللہﷺ اونٹ کا گوشت کھاتے تھے اور اونٹنی کا دودھ نوش فرماتے تھے‘ اِس پر یہود نے اعتراض کیا کہ اونٹنی کا گوشت اور اُس کا دودھ شریعتِ ابراہیمی سے حرام چلا آ رہا ہے، رسول اللہﷺ نے یہود کو چیلنج کیا کہ اگر تمہارا دعویٰ سچا ہے تو تورات لے آؤ اور اُس میں یہ حکم دکھا دو‘ ورنہ یہ اللہ پر تمہارا افترا ہے کیونکہ شرعی طور پر کسی چیز کو حرام قرار دینا اللہ عزّوجل کا حق یا اُس کے اختیار سے اس کے رسول کا حق ہے۔ آیت 95 تا 97 میں صاحبِ استطاعت پر حج کی فرضیت کا حکم بیان ہوا اور یہ کہ زمین پر اللہ کی عبادت کیلئے سب سے پہلاگھر مکۂ مکرمہ میں بیت اللہ بنایا گیا جس میں واضح نشانیاں ہیں‘ مقامِ ابراہیم ہے اور یہ جائے امن ہے۔ آیت 103 تا 110 میں اتحادِ اُمّت‘ فرقہ بندی سے بچنے کا حکم بیان ہوا اور فرمایا کہ اسلام سے پہلے تم ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے اور اپنی بد اعمالیوں کے سبب آگ کے گڑھے کے کنارے پر پہنچ چکے تھے مگر نعمتِ بعثتِ مصطفی اور نعمتِ اسلام کی برکت سے اللہ نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اورتم بھائی بھائی بن گئے۔ آیت 110 میں امتِ مسلمہ کو بہترین امت قرار دے کر اس کی وجۂ فضیلت بیان کی کہ تمہیں اس مقصد کیلئے پیدا کیا گیا ہے کہ عالمِ انسانیت میں نیکیوں کو پھیلاؤ اور برائیوں کو روکو‘ یعنی اُمّت مُسلمہ کی ذمہ داری عالَمِ انسانیت کو دعوتِ حق دینا اور نبوی مشن کو سر انجام دینا ہے۔ آیت 112 میں بتایا گیا ہے کہ یہود پر اُن کے ناروا اعمال کے سبب ذلت مسلط کر دی گئی کیونکہ وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے‘ اس کے انبیاء کو ناحق قتل کرتے تھے اور حد سے تجاوز کرتے تھے۔ آیت 118 میں حکم ہوا کہ اہلِ ایمان کو چاہیے کہ وہ اپنے دین کے دشمنوں کو اپنا راز دار نہ بنائیں‘ وہ مسلمانوں کی بربادی میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے اور مسلمانوں کا مصیبت میں مبتلاہونا ان کی خواہش ہے‘ ان کی مسلمانوں سے نفرت کسی حد تک ان کی باتوں سے عیاں ہے اور جو بغض و عناد وہ اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں‘ وہ اس سے سوا ہے۔ ان کا شِعار منافقت ہے۔ مسلمانوں کی راحت سے انہیں تکلیف پہنچتی ہے اور دکھ سے انہیں راحت پہنچتی ہے۔ غزوۂ بدر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آیت 122میں فرمایا کہ منافقین کا ساتھ چھوڑنے کے بعد مسلمانوں کی دو جماعتوں (بنوحارثہ اور بنو سلمہ) کی ہمتیں پست ہو رہی تھیں کہ اللہ نے انہیں بچا لیا۔ آیت 123 تا 128میں غزوۂ بدر کا ذکر ہے‘ اللہ نے ایسے حالات میں کہ مسلمان ظاہری اعتبار سے کمزور تھے‘ تین ہزار فرشتے ان کی مدد کیلئے اتارے اور مزید نصرتِ غیبی کا وعدہ فرمایا۔ یہ بھی بتایا کہ مجاہدین کی مدد کیلئے فرشتوں کا نزول مومنوں کے اطمینانِ قلب کیلئے تھا۔ آیت 130 میں ایک بار پھر سود کی ممانعت کا حکم نازل ہوا کہ حرام طریقے سے مال کو دگنا چوگنا نہ کرو۔ آیت 133 اور 134 میں بیان ہوا کہ جنت کے حقدار اہلِ تقویٰ کا شِعار یہ ہے کہ خوشحالی ہو یا تنگدستی‘ ہر حال میں اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتے ہیں‘ غصے پر قابو پاتے ہیں اور لوگوں کی خطاؤں کو معاف کر دیتے ہیں۔ اگلی آیات میں امت کے گناہگاروں کو نویدِ مغفرت دی گئی کہ اگر تم نے اللہ کی نافرمانی اور بے حیائی کے کام کیے ہیں تو ایک بار پھر تمہیں دعوت ہے کہ پلٹ آؤ‘ اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرو؛ بشرطیکہ وہ گناہوں پر اصرار نہ کریں بلکہ انہیں ترک کر دیں۔ آیت 139 تا 143میں غزوۂ احد میں اَفرادی قوت اور اسباب میں کمی کے سبب دل چھوڑنے والے مجاہدین کو تسلی دی کہ ثابت قدم رہو‘ آخرکار تم ہی سرفراز ہو گے۔ اگر وقتی طور پر تمہیں کوئی تکلیف پہنچی ہے تو اہلِ حق کے ساتھ ایسا ماضی میں بھی ہوتا رہا مگر برے دن ہمیشہ نہیں رہتے اور یہ ابتلائیں مسلمانوں کیلئے درجات کی بلندی کا سبب بنتی ہیں اور جنت کے حصول کیلئے مسلمانوں کو مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ موت سے ڈرنا مسلمانوں کا شِعار نہیں۔ آیت 164میں اللہ تعالیٰ نے بعثتِ مصطفیﷺ کو اہلِ ایمان کیلئے اپنی نعمت اور احسان قرار دیا اور آپ کے فرائضِ نبوت کو ایک بار پھر بیان فرمایا۔ منافق غزوۂ احد کے مجاہدین کو بار بار ذہنی اذیت پہنچاتے ہوئے کہتے کہ اگر تم نے ہماری بات مانی ہوتی تو ان نتائج سے بچ جاتے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے شہداء کی عظمتِ شان کو مسلمانوں کی طمانیت کیلئے ان الفاظ میں بیان فرمایا: ''اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کر دیے جائیں (مردہ کہنا تو درکنار) انہیں مردہ گمان بھی نہ کرو‘ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں‘ انہیں رزق دیا جاتا ہے‘ اللہ نے اپنے فضل سے جو انہیں عطا فرمایا ہے ‘وہ اس پر خوش ہیں‘‘۔ کافروں کو بتایا گیا کہ انہیں جو دنیا میں ڈھیل دی جا رہی ہے‘ یہ ان کیلئے مزید تباہ کن ہو گی کیونکہ جتنی سرکشی وہ کرتے چلے جائیں گے انجامِ کار اس کا وبال اُن پر ہی آئے گا۔ آیت 180 میں ان بخیل مالداروں کو‘ جو اللہ کا دیا ہوا مال اس کی راہ میں خرچ نہیں کرتے‘ وعید سنائی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جو (مال) انہیں عطا کر رکھا ہے‘ وہ یہ گمان نہ کریں یہ ان کے حق میں بہتر ہے‘ بلکہ یہ ان کے حق میں برا ہے اور قیامت کے دن اُن کے اِسی جمع کئے ہوئے مال کا طوق بنا کر ان کے گلے میں ڈالا جائے گا۔ آیت 183 میں رسول اللہﷺ یہود کے اس مطالبے کا ذکر ہے کہ ان کے نزدیک نبی کی صداقت کی نشانی یہ ہے کہ وہ اللہ کیلئے قربانی پیش کرے اور آسمان سے آگ آئے اور اسے کھا جائے (یعنی جلا کر راکھ کر دے)۔ بتایا گیا کہ یہ محض ان کی ضد اور ہٹ دھرمی ہے‘ جن رسولوں نے یہ معجزہ پیش کیا‘ ان پر سب لوگ ایمان لائے؟ آیت 190 اور اس کے بعد والی آیات میں یہ بتایا کہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور نظامِ گردشِ لیل ونہار میں عقلمندوں کیلئے نشانیاں ہیں‘ یہ وہ لوگ ہیں جو حالتِ قیام میں‘ بیٹھے ہوئے اور کروٹوں کے بل لیٹے ہوئے (ہر حال میں) اللہ کا ذکر کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اللہ کی حکمتوں پر غور وفکر کرتے ہیں۔
اس کے بعد سورۃ النساء کی ابتدائی 23 آیات ہیں۔ پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے: اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو‘ جس نے تمہیں ایک شخص سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی (حوا) کو پیدا کیا اور پھر ان دونوں کے ذریعے کثیر تعداد میں مرد اور عورتیں زمین میں پھیلا دیے‘ یعنی تمام انسانیت کی اصل ایک ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ اپنے زیرِ کفالت یتیموں کے مال کو اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھاؤ‘ یہ بہت بڑا گناہ ہے‘ اسی طرح اپنے خراب مال کو یتیم کے اچھے مال سے تبدیل نہ کرو۔ اگلی آیت میں یہ بتایا کہ اگرچہ بوقتِ ضرورت ایک سے زیادہ چار تک شادیوں کی اجازت ہے‘ لیکن ازواج کے درمیان عدل کی کڑی شرط کے ساتھ۔ زیرِ کفالت یتیموں کے حوالے سے فرمایا کہ اگر وہ اپنے مال کی حفا ظت کا شعور نہیں رکھتے تو ان کے سرپرست کو چاہیے کہ ان کے مال کی حفاظت کرے‘ ان کی ضروریات کی کفالت کرے اور ان سے حسنِ سلوک کرے۔ یتیم کا مال اس وقت اس کے سپرد کرو جب وہ بالغ اور عقلمند ہو جائے۔ اس اندیشے سے یتیم کا مال جلدی جلدی ہڑپ نہ کرو کہ وہ بالغ ہوکر اپنے مال کا مطالبہ کرے گا اور جب یتیم کا مال اس کے حوالے کرو‘ احتیاطاً گواہ مقرر کر لو۔ قرآن نے یہ بھی بتایا کہ یتیم کا سرپرست اگر غنی ہے تو اپنی ذات اور ضروریات پر یتیم کے مال کو خرچ نہ کرے اور اگر وہ فقیر ہے تو صرف بقدرِ ضرورت اپنے اوپر خرچ کر لے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ مرد ہو یا عورت‘ شریعت میں اپنے مقررہ حصے کی وراثت پانے کا حقدار ہے‘ یعنی اسلام میں عورت کو وراثت سے محروم نہیں رکھا گیا۔ سورۃ النساء کی آیت 11 اور 12 میں وراثت کے مسائل بیان فرمائے گئے ہیں۔ آیت 16 اور 17 میں اللہ تعالیٰ نے قبولیتِ توبہ کا اصول بیان فرمایا ہے کہ جن لوگوں سے گناہ سرزد ہو جائے اور وہ غلطی کا احساس ہونے پر جلدی توبہ کر لیں تو ان کی توبہ کی قبولیت اللہ تعالیٰ کے ذمۂ کرم پر ہے‘ لیکن جو لوگ زندگی بھر گناہ کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ فرشتۂ اجل سر پر آ کھڑا ہو اور پھر کہیں کہ میں نے توبہ کی تو ان کی توبہ کی قبولیت کی کوئی ضمانت نہیں اور جن کی موت کفر پر واقع ہو جائے‘ ان کی آخرت میں نجات کی کوئی ضمانت نہیں۔ یہ بھی ارشاد ہوا کہ بیوی کا مقررہ مہر خواہ کم ہو یا زیادہ‘ ادا کرنا چاہیے۔ حدیثِ پاک میں ہے کہ جن عورتوں سے نسب کے رشتے سے نکاح حرام ہے‘ اُن سے رضاعت کے رشتے سے بھی حرام ہے اور آیت 23 میں بھی یہ مسئلہ بیان کر دیا گیا ہے۔