کہتے ہیں مارچ کے مہینے کی اپنی مہک ہوتی ہے جسے صرف محسوس کیا جا سکتا ہے لیکن جس کا بیان کرنا دشوار ہے۔ اس بار مارچ کا مہکتا ہوا مہینہ آیا تو اسلام آباد کا وہ سیکٹر جہاں میں رہتا ہوں کووڈ وبا کی وجہ سے لاک ڈائون کی زد میں تھا۔ گھر میں محصور ہو کر رہ جانا کتنا تکلیف دہ تجربہ ہے‘ اس کا احساس مجھے انہی دنوں ہوا۔ وہ مارچ کی ایک دلربا صبح تھی‘ میں نے کافی کا ایک کپ خود بنایا اور گھر کے مختصر سے صحن میں آ کر بیٹھ گیا۔ میں نے دیکھا‘ ہمارے گھر کی بیرونی دیوار پر لپٹی ہوئی گہرے سبز رنگ کی بیلوں میں زرد پھولوں کی چکا چوند تھی۔ سیاہ کافی کی چسکیاں لیتا ہوا میں اپنے اطراف پھولوں‘ پتوں اور شگوفوں کی شکل میں قدرت کے تخلیقی وفور کی کرشمہ سازی دیکھتا ہوں‘ پھر میں اپنے موبائل فون کی دنیا کھولتا ہوں‘ اب باہر کی دنیا سے میرا رابطہ یہی فون ہے۔ فیس بک پر ایک خبر مجھے دم بخود کر دیتی ہے۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ جہلم کے معروف پبلشر شاہد حمید صاحب انتقال کر گئے ہیں۔ مجھے یقین نہیں آتا۔ شاید اس لیے کہ کچھ لوگ زندگی کے رَس میں اتنے شرابور ہوتے ہیں کہ ان کے چلے جانے کا یقین نہیں آتا۔ شاہد حمید بھی زندگی سے ٹوٹ کر محبت کرنے والا ایسا ہی شخص تھا جس کا خمیر عشق اور جنون سے اُٹھا تھا۔
مجھے دو سال پہلے مارچ کا مہینہ یاد آ جاتا ہے جب مجھے شاہد حمید کا سندیسہ ملا تھا۔ یہ دراصل ان کی صاحبزادی رخسار کی شادی کا دعوت نامہ تھا‘ اس دعوت نامے کی پیشانی پر ''سندیسہ‘‘ لکھا تھا۔ ''سندیسہ‘‘ کا لفظ دیکھ کر میں مسکرا دیا۔ شاہد حمید کی شخصیت میں تخلیق کا رنگ گہرا تھا۔ وہ لفظوں کے صوتی اور معنوی حسن کا دل دادہ تھا۔ پامال راستوں کا سفر اسے کبھی نہیں بھایا۔ وہ ہر چیز میں ایک نیا پن دیکھنا چاہتا تھا۔ اپنے بچوں کے نام رکھنے کا مرحلہ آیا تو تب بھی اس کی جدت پسندی اسے انفرادیت کے راستے پر لے گئی۔ بڑے بیٹے کا نام گگن رکھا‘ دوسرے بیٹے کا امر‘ ایک بیٹی کا نام رخسار۔ ان سب ناموں میں انفرادیت‘ معنویت اور موسیقیت ہے۔ یہی شاہد حمید کی شخصیت کا خاصا تھا۔ وہ معیاری Content کے ساتھ ساتھ اس کی دلفریب پیش کاری پر بھی اتنا ہی یقین رکھتا تھا۔ اس کا یہی وصف اس کے ہمراہ تھا جب وہ کتابوں کی دنیا میں آیا۔ اس کے کتابوں کی دنیا میں آنے کی بھی ایک کہانی ہے۔ کہتے ہیں کم سِنی میں ہی اس کے والد کا سایہ اس کے سر سے چھن گیا تھا۔ پھر زمانے کی جھلسا دینے والی دھوپ تھی اور ایک دشتِ بے اماں کا سفر۔ ایسے میں کتابوں کی دنیا نے اسے اپنی آغوش میں پناہ دی۔ اب کتابیں ہی اس کی دوست اور غم گسار تھیں۔ والدہ نے اس بات کا اہتمام کیا تھا کہ وہ سکول اور کالج میں تعلیم حاصل کرے۔ زندگی کے اونچے نیچے راستوں کے سفر میں کتابوں نے اس کا ہاتھ تھامے رکھا۔ پھر زندگی کے عملی تقاضوں اور گھر کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو دیکھتے ہوئے شاہد حمید نے روزگار کی دہلیز پر قدم رکھا‘ لیکن سوال یہ تھا کہ روزگار کے لیے کیا کیا جائے؟ وہ چاہتا تھا کہ وہ کسی دفتر میں روٹین کی نوکری کے بجائے کچھ مختلف کرے۔ کچھ ایسا جس میں اس کا دل بھی اس کا ساتھ دے۔ شاید یہی لمحہ تھا جب اس کی دلبر کتابوں نے اس کے کان میں سرگوشی کی ''تو کیا تم ہمارا ساتھ چھوڑ دو گے؟‘‘ اس کے بدن میں جھرجھری سی آ گئی۔ وہ بے اختیار بول اٹھا ''نہیں نہیں میں تمہیں چھوڑ کر کہیں نہیں جائوں گا‘‘۔ تب اس کے ذہن میں ایک خیال جگمگایا اور اس کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔ اس نے اپنی ساری کتابوں کو سمیٹا اور ایک دکان میں انہیں سجا کر ایک عوامی لائبریری کی شکل دے دی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب گلی محلوں میں ایسی لائبریریاں عام ہوا کرتی تھیں‘ جہاں سے کرائے پر کتابیں ملتی تھیں۔ عرفِ عام میں انہیں آنہ لائبریری کہتے تھے۔ ان لائبریریوں میں ہر طرح کی کتابیں ملتی تھیں تاریخی‘ رومانوی اور جاسوسی کتابیں۔ اب وہ اپنی آنہ لائبریری میں بیٹھے کتابیں پڑھتا رہتا۔ گاہک آتے تو انہیں ان کی پسند کی کتاب دیتا اور پھر خالی وقت میں اپنی کتابوں کی دنیا میں لوٹ جاتا۔ لائبریری کے آغاز کو کئی برس بیت گئے تھے۔ شوق اور محنت نے اپنا رنگ دکھایا تھا اور قرب و جوار میں اس کی لائبریری کی شہرت ہو گئی۔ اب اسے یہ جگہ تنگ محسوس ہونے لگی تھی۔ اس کا شوق اسے فراخ راستوں پر لے جا رہا تھا‘ اس کی اگلی منزل کتابوں کی ایک معیاری دکان کا قیام تھا۔ اس کا یہ خواب بھی جلد پورا ہو گیا‘ لیکن خوابوں کے ساتھ ایک مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ جہاں ایک خواب کی سرحد ختم ہوتی ہے وہیں سے ایک نئے خواب کا آغاز ہوتا ہے۔ اس کا اگلا خواب کتابوں کی اشاعت کا منصوبہ تھا۔ اسے کتابوں سے عشق تھا‘ وہ جانتا تھا خوبصورت کتاب کی اشاعت میں اس کے منفرد مواد کے ساتھ ساتھ دیدہ زیب سرورق‘ کاغذ کے اعلیٰ معیار‘ املا کی غلطیوں سے مبرا ٹیکسٹ اور عمدہ جلد بندی کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اس کے ادارے کی شائع کردہ کتابیں دیکھیں تو ان میں یہ ساری خوبیاں ملیں گی۔ اسے اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ کتاب کی اشاعت محض ایک مرحلہ ہوتا ہے۔ کتاب کا اہم مرحلہ اس کی سرکولیشن ہوتی ہے۔ اس نے کتابوں کی سرکولیشن کے عمل میں بھی جدت کی راہیں تراشیں اور آن لائن شاپ کے بدیسی تصور کو اس خوبی سے استعمال کیا کہ قصبوں‘ شہروں اور ملکوں کی جغرافیائی حد بندیاں معدوم ہو گئیں۔
دو سال پیشتر مارچ کے مہکتے مہینے میں جب میں شاہد حمید کی صاحبزادی رخسار کی شادی میں شرکت کے لیے جہلم شہر پہنچا تو شادی گھر ڈھونڈنے میں دیر نہ لگی۔ وہاں جا کر اندازہ ہوا کہ میں ہمیشہ کی طرح وقت سے پہلے پہنچ گیا ہوں۔ ابھی اِکا دُکا مہمان آئے تھے۔ وہیں پہلی بار میں شاہد حمید سے ملا۔ سفید رنگ کے شلوار قمیص پر نیلے رنگ کا کوٹ‘ چہرے پر سفید داڑھی‘ سر پر سفید ٹوپی اور آنکھوں میں تیز سحر انگیز چمک۔ ان کے بیٹوں گگن اور امر نے مجھے ان سے ملوایا۔ ابھی بارات کے آنے میں دیر تھی۔ میں ان کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گیا۔ انہوں نے اپنی غیر معمولی روشن آنکھوں سے مجھے دیکھا اور میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر محبت سے بولے ''آپ نے یہاں آ کر ہمارا مان بڑھایا ہے۔ آپ کے آنے سے ہماری خوشی دوبالا ہو گئی ہے‘‘۔ اُس روز وہ مجھ سے دیر تک باتیں کرتے رہے۔ ہماری مشترکہ محبت کتابوں کی باتیں۔ بیتے زمانوں کی باتیں‘ آنے والی رُتوں کی باتیں۔ پھر اچانک بارات کی آمد کا شور بلند ہوا تو وہ بارات کے استقبال کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ میں نے دیکھا اب شادی گھر میں مہمانوں کی چہل پہل شروع ہو گئی تھی۔ یہ ایک یادگار تقریب تھی۔ اب رات بھیگ رہی تھی اور مجھے واپس اسلام آباد کا سفر بھی کرنا تھا۔ میں نے اجازت چاہی۔ انہوں نے گلے مل کر محبت سے رخصت کیا۔ یہ میری خوابوں کے صورت گر سے پہلی اور آخری ملاقات تھی۔ پھر دو سال کا عرصہ بیت گیا اور اب پھر وہی مارچ کا مہینہ جب اچانک ان کے جانے کی خبر ملی۔ یہ خبر سن کر دل میں ایک بے نام سی کسک جاگی ہے‘ بالکل مارچ کے مہینے کی مہک کی طرح جسے صرف محسوس کیا جا سکتا ہے لیکن جس کا بیان کرنا دشوار ہے۔