تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     17-04-2021

غیر معقول غیر اسلامی

پچھلے چند روز سے پورا ملک عام طور پر اور پنجاب خاص طور پر شدید احتجاج کی زد میں ہے، حکومت نے نومبر 2020ء میں ایک مذہبی جماعت سے تحریری وعدہ کیا تھا کہ فرانس کے سفیر کو نکالنے اور فرانسیسی مصنوعات کی درآمد پر پابندی کا معاملہ پارلیمنٹ کے سامنے رکھا جائے گا۔ قبل ازیں فیض آباد انٹرچینج پر دھرنا ہوا اور دارالحکومت کا جی ٹی روڈ اور مری روڈ سے رابطہ منقطع ہو گیا۔ اس سے پہلے 2017ء میں بھی اسی مقام پر لمبا دھرنا ہوا تھا اور بیس روز تک جڑواں شہروں کے درمیان ٹریفک معطل رہی تھی۔ فرانس کے خلاف غم و غصہ کی وجہ وہاں ایک میگزین میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت تھی۔
فرانس میں مسلمانوں کی خاصی بڑی تعداد آباد ہے لیکن اس میں اکثریت الجزائر اور مراکش سے آئے لوگوں کی ہے۔ پاکستانیوں کی تعداد تقریباً سوا لاکھ ہے۔ فرانس میں مقیم اکثر پاکستانی اپر پنجاب کے ضلع گجرات، منڈی بہائوالدین اور جہلم سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے بعد لاہور اور فیصل آباد کا نمبر آتا ہے۔ ان میں سے کئی ایک نے وہاں اپنے ریسٹورنٹ کھول رکھے ہیں۔ چند ایک نے چھوٹے چھوٹے سٹور کھولے ہوئے ہیں۔ میں فرانس سیر کے لیے اس زمانے میں گیا تھا جب میری پوسٹنگ یونان میں تھی۔ فرانس چونکہ سوشل ویلفیئر سٹیٹ ہے۔ لہٰذا بے روزگاری کی صورت میں بھی معقول الائونس ملتا ہے۔ میں نے پاکستانیوں کو عمومی طور پر خوش پایا لیکن یہ بیس سال پہلے کی بات ہے۔
2002ء میں کراچی کے ایک فائیو سٹار ہوٹل کے باہر گیارہ فرانسیسی انجینئرز ایک خود کش حملے میں مارے گئے تھے۔ الزام القاعدہ پر لگا‘ چند گرفتاریاں بھی ہوئیں، مگر ملزمان کو عدالت نے رہا کر دیا۔ یہ فرانسیسی انجینئر آگسٹا آبدوز کے سلسلے میں پاکستان کی ٹیکنیکل مدد کے لیے آئے تھے۔ 2015 میں فرانس کے مسلمان پھر سڑکوں پر تھے۔ ایک فٹ بال سٹیڈیم میں دھماکے ہوئے تو انگلیاں مسلمانوں کی طرف اٹھیں۔ دو سال پہلے ایک چرچ میں دہشت گردی کا واقعہ ہوا تو ایک تیونس کا نوجوان مسلمان گرفتار ہوا‘ لیکن فرانس میں موجود پاکستانی نسبتاً امن پسند ہیں‘ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ ہمارا بیرونِ ملک امیج پاکستان کے اندر ہونے والے واقعات کی وجہ سے خراب ہوا ہے اور وجہ یہ ہے کہ کسی حکومت نے یکسوئی اور پختہ ارادے سے انتہا پسندی کے ناسور کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ سب نے ڈنگ ٹپائو قسم کی پالیسیاں اختیار کیں۔
غالباً 2006ء کی بات ہے، ڈنمارک میں کسی نے گستاخانہ کارٹون شائع کرنے کی جسارت کی تھی۔ کئی مسلمان ممالک نے دانش مندی کا مظاہرہ کیا اور ڈنمارک کی اشیا کا عوامی لیول پر بائیکاٹ کیا۔ آپ کو علم ہو گا کہ ڈنمارک بڑے پیمانے پر ڈیری فارم میں بنائی گئی اشیائے خوردنی مثلاً مکھن اور پنیر برآمد کرتا ہے۔ جب مڈل ایسٹ میں ان غذائی اشیا کی طلب یک دم کم ہوئی تو ڈنمارک کو واضح پیغام گیا؛ چنانچہ اس کے بعد وہاں ایسی قبیح حرکت نہیں ہوئی۔
مگر پاکستانیوں کا رد عمل وکھرا تھا۔ ہم نے اپنی املاک جلائیں‘ غیر ملکی بینکوں کو نشانہ بنایا، نتیجہ یہ نکلا کہ غیر ملکی بینک اکثر پاکستان سے جا چکے ہیں۔ کتنے پاکستانی مسلمانوں کی جابز ختم ہوئیں، یہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔ مجھے اکثر خیال آتا ہے کہ مذہب سے متعلق ہماری جذباتیت کو کوئی دشمن ملک پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ ہم میں سے کئی ایک کو 1970 میں لاہور ایئر پورٹ پر انڈیا کے اغوا شدہ طیارے کو جلانے کا واقعہ یاد ہو گا۔ یہ پورا ڈرامہ انڈیا کی ایجنسیوں نے رچایا تھا تا کہ پاکستان کی ہندوستان کی فضائوں سے پروازوں کو روکا جا سکے اور ہم دشمن کے ہاتھوں میں کھیل گئے۔
فرانس اُن ممالک میں شامل رہا ہے جو پاکستان کو باقاعدگی سے مالی امداد دیتے تھے۔ دو سال پہلے تک پاکستان پر فرانسیسی قرضہ نوّے کروڑ یورو تھا۔ آپ کو یہ بھی یاد ہو گا کہ جب پاکستان مغربی ممالک کی آنکھوں کا تارا تھا تو اسے امداد دینے والے ممالک کو پیرس کلب کہا جاتا تھا۔ فرانس پاکستان کے ٹیکسٹائل اور گارمنٹس آئٹمز کا بڑا امپورٹر بھی ہے۔
پچھلے سال جب فرانس میں مسلمانوں پر سخت وقت آیا تو ترکی کے صدر طیب اردوان اور وزیر اعظم عمران خان نے ڈٹ کر تنقید کی بلکہ ہمارے وزیراعظم تو یہاں تک کہہ دیا کہ فرانس میں مسلمانوں پر جو ظلم ہو رہا ہے وہ جرمنی میں یہودیوں کے ساتھ کئے گئے ظلم سے ملتا جلتا ہے۔ ترک صدر کو بھی فرانس پر بڑا غصہ تھا۔ انہوں نے صدر میکرون کو ذہنی مریض کہا۔ فرانس نے انقرہ سے اپنا سفیر واپس بلا لیا، مگر ترکی نے پیرس سے اپنا سفیر نہیں بلایا۔ سفارتی میدان میں فیصلے ہوش سے کئے جاتے ہیں، جوش سے نہیں۔ اور بے لگام جتھوں کو ریاست کی رٹ چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
ابھی پچھلے ہفتے برطانیہ نے پاکستان کو اکیس ہائی رسک ممالک کی لسٹ میں شامل کیا ہے۔ یہ وہ ممالک ہیں جہاں ہمہ وقت کوئی نہ کوئی جھگڑا یا تنائو جاری رہتا ہے۔ ہمارے ساتھ یمن، شام، شمالی کوریا، ایران وغیرہ کو شامل کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی اکثر مغربی میڈیا کہتا ہے کہ پاکستان میں ایٹمی ہتھیار انتہا پسندوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔ اسی لیے میرے نزدیک فرنچ سفیر کو نکالنے کا حالیہ مطالبہ پاکستان دشمن ایجنڈے کا حصہ ہے۔ فرانس انڈیا کے مزید قریب ہو گیا ہے۔
پاکستان میں تقریباً چار سال سے جو فرانس کے سفیر ہیں انہیں میں مسقط کے زمانے سے جانتا ہوں۔ مارک بارٹی (Mark bartey) تعلیم کے اعتبار سے مستشرق (Orientalist) ہیں۔ اسلامی تاریخ سے خوب واقف ہیں۔ عربی زبان روانی سے بولتے ہیں اور بے حد نفیس انسان ہیں۔ ان سے ملاقات ہوئے اب دو سال سے زائد ہو گئے ہیں۔ شروع میں خاصے پُر جوش تھے۔ مجھے بتایا کہ فرانس فیصل آباد میں کاریں اسمبل کرنے کے لیے بڑی سرمایہ کاری کرے گا۔ لیکن لگتا ہے کہ بعد کے حالات نے اس منصوبے کو تعطل کا شکار کر دیا۔
اے کاش کہ پاکستانی غیرت مند قوم یک جان ہو کر نوے کروڑ یورو جمع کر کے اپنی حکومت کو دیتی کہ فرانس کا تمام قرضہ واپس کر دیا جائے۔ عوامی سطح پر فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ ہوتا تا کہ حکومت پر حرف نہ آتا۔ حکومتی سطح پر ہم کہتے کہ پاکستان کے ساتھ دفاعی تعاون پھر سے شروع کیا جائے‘ ہمارے ہاں سرمایہ کاری کی جائے، لیکن جو قوم عقل کو تین طلاقیں دے چکی ہو اس سے یہ توقع عبث ہے۔
ہم جس عظیم دین کے پیروکار ہیں، وہاں ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور شارع عام کو بند کرنے کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے‘ اور یہاں دو دن ایمبولینس تک حرکت نہ کر سکیں۔ آکسیجن کے سلنڈر بروقت ہسپتال نہ پہنچ پائے۔ کچھ لوگ اپنے ہی گھروں تک پہنچنے کے لیے گھنٹوں تگ و دو کرتے رہے کہ راستے میں ڈنڈا بردار حائل تھے جن کا دعویٰ تھا کہ ہم سر تا پا عشق ہیں۔ میں نے پانچ اسلامی ممالک میں سفارت کاری کی ہے لیکن ایسی صورت حال کہیں نہیں دیکھی۔
ان ہنگاموں میں کانسٹیبل افضل اور کانسٹیبل علی عمران شہید ہوئے ہیں تو کیا ان کا تعلق فرانس سے تھا۔ ان پُر تشدد مظاہرات کا مقصد صرف پاکستان اور اسلام کو بدنام کرنا تھا۔ دشمن کے ایجنڈے پر عمل کیا گیا۔ حکومت کا ایک جماعت پر پابندی لگانے کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ خدا کرے کہ حکومت اپنے فیصلے پر من و عن عمل کرائے۔ اس پارٹی نے جو کچھ کیا ہے اس کا نہ کوئی تعلق عقل سے ہے اور نہ ہی اسلام سے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved