تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     17-04-2021

بھارتی خارجہ پالیسی: بنیادی اقدام ضروری

چین اور امریکہ کے حالیہ رویے سے ہمیں معلوم ہو رہا ہے کہ بین الاقوامی سیاست کا کھیل کتنا مذاق ہے۔ چین ہمیں بتا رہا ہے کہ ہمیں امریکہ سے محتاط رہنا چاہئے اور امریکہ ہمیں کہہ رہا ہے کہ چین پر بالکل بھی اعتبار نہ کریں‘ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ بھارت کو چین اور امریکہ دونوں سے محتاط رہنا چاہئے۔ آنکھ بندکر کے کسی پر اعتبار نہ کریں۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کے اخبار 'گلوبل ہیرالڈ‘ نے امریکی دادا گیری کے خلاف حکومتِ ہند کو متنبہ کیا ہے۔ یہ کہا گیا ہے کہ امریکی ساتویں بیڑے کے جنگی جہاز سات اپریل کو بھارت کے 'خصوصی معاشی زون‘ میں داخل ہوئے‘ یہ امریکہ کی سراسر دادا گیری کی علامت ہے۔ یہ کام جو اس نے پہلے بحیرہ جنوبی چین میں کیا تھا‘ اب بحرِ ہند میں بھی کر رہا ہے۔ چین کی شکایت یہ ہے کہ بھارت نے امریکہ کے ساتھ نرمی کا مظاہرہ کیوں کیا؟ کیوں اس نے امریکی دادا گیری کی پوری مخالفت نہیں کی؟ چین کا کہنا ہے کہ امریکہ صرف اپنے مفادات کا دوست ہے‘ خود غرضی کی خاطر وہ کسی بھی دوست کو دھوکہ دے سکتا ہے۔ دوسری طرف‘ اپنی حالیہ رپورٹ میں امریکی حکومت کے محکمہ انٹیلی جنس نے کہا ہے کہ چین اور پاکستان بھارت کیلئے ایک بڑا خطرہ ہیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین آج کل بھارت سے سرحدی تنازع کے بارے میں بات کر رہا ہے لیکن تائیوان‘ ہانگ کانگ‘ جنوبی کوریا اور جاپان سب چین کی توسیع پسندانہ پالیسی سے تنگ آ چکے ہیں۔ چین نے حال ہی میں ایران کے ساتھ 400 بلین ڈالر کے معاہدے پر بھی دستخط کئے ہیں اور وہ افغان بحران میں بھی سرگرم کردار ادا کر رہا ہے‘ جہاں بھارت خاموش تماشائی ہے۔ اب امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ یکم مئی سے 11 ستمبر تک افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلا لے گا۔ ایسی صورتحال میں بھارتی وزارتِ خارجہ کو زیادہ محتاط اور متحرک رہنے کی ضرورت ہے۔ جے شنکر ایک پڑھے لکھے وزیر خارجہ اور ایک تجربہ کار سفارت کار ہیں‘ اگر جے شنکر خارجہ پالیسی کے معاملے میں کوئی بنیادی اقدام کرتے ہیں تو بی جے پی کی قیادت ان کے راستے میں نہیں آئے گی۔
آئی اے رحمان اور جوشی
میں نے گزشتہ ہفتے اپنے دو دوستوں کو کھو دیا۔ ایک پاکستان کے مسٹر آئی اے رحمان‘ دوسرے اندور کے مسٹر مہیش جوشی۔ یہ دونوں اپنی نوعیت کے انوکھے لوگ تھے۔ دونوں نے سیاست اور عوامی زندگی میں نام کمایا اور ایسی زندگی گزاری جو دوسروں کو متاثر کرے۔ مسٹر آئی اے رحمن کا پورا نام ابن عبدالرحمن تھا۔ 90 سالہ رحمان صاحب ہریانہ میں پیدا ہوئے تھے اور تقسیم ہند کے بعد پاکستان چلے گئے تھے۔ وہ نظریات سے مارکسی تھے لیکن ان کی طبیعت میں جنونیت نہیں تھی‘ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی سیاسی جماعتوں کے تمام رہنما ان کا احترام کرتے تھے۔ انہوں نے ساری زندگی انسانیت کا جھنڈا بلند کیے رکھا۔ 1971ء میں یحییٰ خاں کی حکومت کے سلوک کے خلاف انہوں نے آواز اٹھائی تھی۔ جنرل ایوب اور جنرل ضیاالحق کے دور میں بھی وہ جمہوریت اور انسانی حقوق کے لئے لڑتے رہے۔ جب جنرل ضیا نے پاکستانی اخبارات پر گرفت کی تو وہ ان کے خلاف تحریک میں پیش پیش تھے۔ انہیں حکومت نے گرفتار بھی کیا۔ اسی دوران 1983ء کے قریب میں نے رحمن صاحب اور مشہور دانشور اور سابق پاکستانی وزیر خزانہ ڈاکٹر مبشر حسن سے ملاقات کی۔ مبشر صاحب بھی پانی پت میں پیدا ہوئے تھے۔ دونوں نے پاکستان اور بھارت کے مابین امن‘ دوستی اور جمہوریت کو مستحکم کرنے کیلئے متعدد تنظیمیں تشکیل دی تھیں۔ انہوں نے لاہور‘ دہلی اور کلکتہ میں بھی اپنے اجلاس منعقد کئے۔ مجھ جیسے کچھ بھارتی مہمانوں کو ہمیشہ ان کنونشنز میں مدعو کیا جاتا تھا۔ وہ پاک بھارت تعلقات کے بارے میں ہمارے دو طرفہ خیالات کو ہمیشہ احترام کے ساتھ سنتے تھے۔ یہاں تک کہ جب انہوں نے اپنے اختلافات کا اظہار کیا تب بھی ان کی زبان کبھی ناگوار نہیں تھی۔ وہ بہت میٹھے‘ ملنسار اور پُرجوش تھے۔ ان سے ملنے پر ہمیشہ ایسا لگتا تھا کہ ہم کسی پرانے ساتھی کے ساتھ ہیں۔ وہ مشہور اخبار 'پاکستان ٹائمز‘ کے ایڈیٹر اور ہیومن رائٹس کمیشن کے چیئرمین بھی رہے۔ اپنی علالت کے باوجود‘ انہوں نے بے باک اور غیرجانبدارانہ مضامین لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ جو لوگ پورے جنوبی ایشیا کو ایک ہی کنبہ سمجھتے ہیں‘ وہ رحمن صاحب‘ مبشر جی اور عاصمہ جہانگیر جیسے لوگوں کو کبھی نہیں بھول سکتے۔ اسی طرح‘ میرے دوسرے دوست اور چھ سال اندور کرسچین کالج میں میرے ہم جماعت مہیش جوشی کئی بار اندور سے کانگریس کے ایم ایل اے رہے۔ احتجاج میں انہوں نے میرے ساتھ جیل بھی کاٹی اور پولیس کی لاٹھیاں بھی کھائیں۔ میرے متحرک ساتھیوں میں مہیش جوشی ایم پی میں وزیر بنے اور وکرم ورما مرکز میں وزیر بنے۔ جوشی راجستھان کے کوشل گڑھ میں پیدا ہوئے تھے‘ لیکن وہ اندور میں ہی رہتے تھے۔ اگرچہ مہیش جوشی اپنے دو ٹوک انداز کیلئے جانے جاتے تھے‘ لیکن وہ ہمیشہ کسی سیاسی امتیاز کے بغیر ہر کسی کی مدد کیلئے تیار رہتے تھے۔ ایسے دونوں دوستوں کو میرا روحانی خراج تحسین۔
سواستیکا: ہمارا یا ہٹلر کا؟
امریکہ کی ریاست میری لینڈ کی اسمبلی میں ایک بل پیش کیا گیا ہے جس سے بھارتی عوام کو بڑی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اگر یہ بل قانون بن جاتا ہے تو بائیڈن اور مودی انتظامیہ کے مابین تناو ٔمیں بھی اضافہ ہوسکتا ہے۔ امریکہ کا ساتواں بیڑا پہلے ہی بھارت اور امریکہ کے تعلقات کو کشمکش میں ڈال چکا ہے اور اگر میری لینڈ اسمبلی نے اس بل کو قانون بنا دیا تو حکومتِ ہند کو اپنی خاموشی توڑنا پڑے گی۔ یہ بل کیا ہے؟ اس بل میں سواستیکا کو قابلِ نفرت علامت قرار دیا گیا ہے اور اس کے کپڑوں‘ گھروں‘ برتنوں‘ بازاروں یا کہیں بھی استعمال ہونے پر پابندی عائد کرنے کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ آج کل‘ امریکہ کے نئے نازی یا خانہ بدوش سفید فام لوگ اس سواستیکا کا شدت سے دکھاوا کرتے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ہٹلر نے اپنی نازی پارٹی کا علامتی نشان سواستیکا تخلیق کیا تھا اور اسے دکھا کر لاکھوں یہودیوں کو مار ڈالا تھا اور جرمنی سے کھدیڑ کر بھگا دیا تھا۔ لیکن حقیقت مختلف ہے۔ ہٹلر نے اپنی بدنام زمانہ کتاب ''مین کیمپف‘‘ میں سواستیکا کا لفظ استعمال نہیں کیا ہے۔ اس نازی علامت کیلئے اس نے جرمنی کا لفظ ''ہیکن کروز‘‘ استعمال کیا ہے۔ ہٹلر نہ سنسکرت جانتا تھا اور نہ ہی ہندی۔ اسے کیا معلوم تھا کہ سواستیکا کا کیا مطلب ہے؟ ہیکن کروز کا مطلب ہے فولڈ کراس۔ لیکن جب انگریزی کے پادری جیمس مرفی نے ''مین کیمپف‘‘ کا انگریزی میں ترجمہ کیا تو اس نے ''ہیکن کروز‘‘ کو ''سواستیکا‘‘ کے نام سے پکارا تاکہ یورپ کے عیسائی ہٹلر کے خلاف ہو جائیں‘ کیونکہ صلیب عیسائیت اور سواستیکا ہندوتوا کی علامت ہے‘ لیکن لوگوں کو اندازہ نہیں ہے کہ عیسائی حکمران اور پوپ گزشتہ کئی صدیوں سے یہودیوں پر ظلم ڈھا رہے تھے‘ ہٹلر نے ان مظالم کو ایک خوفناک اور بھیانک شکل دی۔ اس کا لفظ سواستیکا سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ہٹلر کا سواستیکا ٹیڑھا ہے‘ بھارت کا سواستیکا سیدھا ہے۔ یونان‘ یورپ اور عرب ممالک میں استعمال ہونے والا کراس اکثر ٹیڑھا اور کبھی الٹا ہوتا ہے۔ بھارت کا سواستیکا خیر خواہی کی علامت ہے جبکہ ہٹلر کا سواستیکا ظلم اور نفرت کی علامت ہے۔ بھارت کے سواستیکا پر کسی امریکی‘ یہودی‘ عیسائی یا مسلمان کو کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا‘ لیکن انگریزی زبان کی مہربانی کے سبب ہٹلر کے ''ہیکن کروز‘‘ کو سواستیکا سمجھنے کی غلط فہمی ہو سکتی ہے۔ امید ہے کہ اس معاملے میں بھارتی سفارت خانہ خاموش نہیں بیٹھے گا‘ بصورت دیگر ہندوؤں کا امریکہ میں رہنا مشکل ہو جائے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved