تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     17-04-2021

پیپلز پارٹی اکھاڑے سے باہر ہو گئی؟

پیپلز پارٹی کی پی ڈی ایم سے علیحدگی کا ایک مطلب تو یہ نکلتا ہے کہ اب سابق صدر آصف علی زرداری کی مفاہمتی حکمت عملی کارگر نہیں رہی اس لئے جمہوریت پسندوں اور مقتدر قوتوں کے مابین جاری کشمکش جلد کسی فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو جائے گی۔ یہ عین ممکن ہے کہ عید کے بعد ایسی ہمہ گیر سیاسی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے جو یہاں کے روایتی سیاسی کلچر کے علاوہ تقسیمِ اختیارات کے فارمولے کو بھی منتشر کر دے لہٰذا پاکستان پیپلز پارٹی کی محتاط قیادت نے گہری سوچ بچار کے بعد اُس نامطلوب کشمکش سے دامن چھڑا لیا جو پیپلزپارٹی کے کمزور وجود کو نگل سکتی تھی مگر یہی شعوری پسپائی انہیں قومی سیاست کے فعال دھارے سے دور بھی کر سکتی ہے۔ اگر ہمارا اندازہ درست ثابت ہوا تو پھر اِسی جدلیات کے نتیجے میں ابھرنے والے مستقبل کے دبستانوں میں پیپلزپارٹی اور اے این پی کا کردار محض علامتی رہ جائے گا لیکن پیپلزپارٹی کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ بھی تو نہیں بچا۔ اگر وہ اس ممکنہ ٹکرائو کا حصہ بنی تو بھی ماسوائے داد و ستائش کے اس کے ہاتھ میں اقتدار کا کوئی سرا نہیں آئے گا۔ پیپلزپارٹی فی الوقت اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ موجودہ حالات میں ذوالفقارعلی بھٹو مرحوم کی سیاسی وراثت کو دوام ملنے کے امکانات ختم ہونے والے ہیں، اس لئے پی پی پی کا تنظیمی ڈھانچہ کمزور اور اس کی عوامی حمایت کا دائرہ بتدریج سکڑتا چلا جائے گا۔ سیاست کے طالبعلم اس موضوع پہ تحقیق کر سکتے ہیں کہ نصف صدی بعد کی ملکی سیاست پہ ذوالفقار علی بھٹو کی کرشماتی شخصیت کے اثرات باقی رہ سکتے ہیں؟ یا پھر وہ بھی جواہر لعل نہرو کی طرح قومی سیاست کا محض ایک حوالہ ہی رہ جائیں گے۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کو سوچنا چاہیے کہ نئی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے جلو میں اٹھنے والی سماجی تحریکات کی بنا پہ ہمارے عقلی ورثے کو کن تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ قومی سیاست کو نئے نعروں کے ساتھ ایسے نئے کردار بھی مطلوب ہیں جو اپنے زمانے کے تقاضوں کا ادراک رکھنے کے علاوہ اس پیچیدہ عہدکی اجتماعی دانش سے نئی اصطلاحات کے ساتھ ابلاغ کرسکیں کیونکہ ''جئے بھٹو‘‘ یا ''روٹی کپڑا اور مکان‘‘ کے نعروں میں اب کوئی کشش باقی نہیں رہی۔ بہرحال تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی رجحانات کے باعث اقتدار کی سیاست میں پیپلزپارٹی کی بارگیننگ پوزیشن کمزور اور سیاسی کردار اندرونِ سندھ تک محدود ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے پلیٹ فارم سے انہیں قومی سیاست میں کچھ کردار ادا کرنے کا سنہرا موقع ملا تھا لیکن حالات کا جبر انہیں پھر اسی کوئے ملامت کی طرف دھکیل رہا ہے جہاں سے انہیں موجودہ بندوبست میں نقرئی زنجیروں میں جڑا اقتدار کا مناسب حصہ ملا تھا، گویا بقا کے تقاضے اسے مقتدرہ سے تعلق توڑنے کی اجازت نہیں دیں گے لیکن پی ڈی ایم سے علیحدگی اس کی مفاہمتی سیاست کو متروک بنا دے گی۔
لاریب! تاریخ کا اہم ترین اصول یہی ہے کہ جو چیز ابھرتی ہے وہ گرتی ضرور ہے۔ اب اہم سوال یہ ہے کہ کیا پیپلزپارٹی کی لیڈر شپ فنا و بقا کے درمیان حائل خطِ امتیاز پر چلنے کی کوشش میں عوام اور مقتدرہ دونوں کا اعتماد کھو بیٹھی ہے؟ پیپلزپارٹی موجودہ بندوبست کے دوام کیلئے اایک مہمل سی پوزیشن لے کر اپنی سیاسی ساکھ بچانے اور سودابازی کی قوت کو بہتر بنانے کیلئے کوشش ضرور کرتی رہی اور اس کھیل میں اسے وقتی نوعیت کے کچھ ریلیف بھی ملے لیکن بالآخر یہی دُہری حکمت عملی اس کے پاؤں کی زنجیر بن گئی؛ چنانچہ جب پی ڈی ایم کی پختہ کار قیادت نے اسے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کا منصب پانے کے لئے 'باپ‘ سے تعاون لینے کی بابت اپنی پوزیشن واضح کرنے کو کہا تو وہ طیش میں آ گئی۔ اس بات کا اندازہ بلاول بھٹو زرداری کے پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کونسل کے اجلاس سے خطاب سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے پی ڈی ایم کے جنرل سیکرٹری شاہد خاقان عباسی کی طرف سے مانگی گئی وضاحت کا خط پھاڑ کے داخلی اضطراب کو چھپانے کی ناکام کوشش کی۔ یہ پُر جوش تقریر دراصل کسی سیاسی یا اخلاقی قوت کا اظہار نہیں بلکہ وہ جذباتی التجائیں تھیں جو ان کی بے بسی پہ دلالت کر رہی تھیں۔ ماضی قریب میں پی ڈی ایم کی بڑی جماعتوں کے مابین پائی جانے والی شکررنجیوں کے دوران بلاول بھٹو زرداری نے جس نوع کی بیان بازی جاری رکھی‘ اس سے بھی یہی ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اب تک شاید اپوزیشن کی سیاست کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور اب جب انہیں تنہا اس دشت کی آبلہ پائی کا مرحلہ پیش آیا ہے تو وہ گھبرانے لگے ہیں۔ بہرحال یہ خفیف سا سیاسی جھٹکا انہیں اپنی جماعت کی حقیقی سیاسی قوت کا درست تخمینہ لگانے اور اپنی سیاسی بصیرت کو آزمانے کا موقع ضرور دے گا۔ البتہ پیپلز پارٹی کے برعکس پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن کا طرزِ عمل زیادہ سنجیدہ، باوقار اور پُر اثر واقع ہوا جس سے ان کا شخصی اعتماد جھلکتا تھا۔ ان کی متوازن گفتگو قومی سیاست پر پی ڈی ایم کی مضبوط ہوتی گرفت کا مظہر تھی۔ مولانا فضل الرحمن نے پیپلزپارٹی کو اپنے عاجلانہ فیصلوں پہ نظرثانی کرکے پی ڈی ایم میں واپس آنے کی دعوت دے کر جہاں ہمدردی کا پیغام بھیجا‘ وہاں انہوں نے سیاسی حلیفوں پہ اپنی اخلاقی برتری بھی قائم رکھی جس سے پیپلز پارٹی کی قیادت کو یہ باور کرانا مقصود تھا کہ وہ ان کی ہوشیاری سے خوفزدہ نہیں بلکہ ایک مہربان دوست کی طرح ان کی شاطرانہ چالوں کے زخم سہنے کی سکت رکھتے ہیں۔ کسی جذباتی ردعمل کے بجائے مولانا کا نپا تلا انداز ان کی قوتِ ارادی کو ظاہر کر رہا تھا ۔سپائی نوزا نے کہا تھا ''کسی سے نفرت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی کم مائیگی اور خوف کا اعتراف کرتے ہیں۔ طاقتور لوگ مہربانی میں رفعتِ ذہنی پاتے ہیں اور وہ کسی ایسی چیز کی تمنا ہرگز نہیں کرتے جس کے حصول کی کھلے دل کے ساتھ دوسروں کو اجازت نہ دے سکیں‘‘۔
اے این پی کی جہاں دیدہ قیادت نے اپنی سیاسی پسپائی کا وبال پیپلزپارٹی کے کندھوں پہ لاد کر خوب حکمت عملی اپنائی وہ پہلے بھی اسی طرح کے فائدے اٹھاتی رہی ہے۔ 2008ء میں اے این پی نے نہ صرف خیبر پختونخوا کی وزارتِ عالیہ حاصل کی بلکہ صوبے کا نام تبدیل کرا کے ایک بڑا سیاسی سنگ میل بھی عبور کیا جو وہ اپنی پارٹی جدوجہد کے ذریعے کبھی سر نہ کر پاتی، حالانکہ صوبے کا نام تبدیل کرنے کے نتیجے میں یہاں پیپلزپارٹی کا صفایا ہو گیا کیونکہ نام تبدیل ہونے سے صوبے میں ہندکو اور سرائیکی بولنے والوں سمیت غیر پشتونوں کی تہذیبی شناخت کمپرومائز ہو گئی ہے۔ 2013ء کے عام انتخابات میں اسی ناراض ووٹر نے پیپلزپارٹی سے خاموش انتقام لینے کی خاطر اپنا وزن تحریک انصاف کے پلڑے میں ڈال دیا۔ شاید عام لوگوں کو یہ بات معلوم نہ ہو کہ خیبر پختونخوا میں بولی جانے والی زبانوں کی سرکاری طور پہ تسلیم شدہ تعداد 31 ہے۔ جنوبی خیبر پختونخوا کا ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن، جو کبھی پیپلزپارٹی کا دوسرا ''لیاری‘‘ سمجھا جاتاتھا‘ کی اکثریتی زبان بھی سرائیکی ہے۔ پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے پہلا الیکشن یہیں سے لڑا تھا۔
بہرحال اقتدار سے علیحدگی کے بعد جوابدہی سے بچنے کیلئے اے این پی کے پاس خاموش تعاون کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں بچا تھا، اس لین دین میں پیپلزپارٹی نے اس کا ہاتھ بٹا کے باہمی تعلق کو زیادہ مضبوط بنا لیا۔ قصہ مختصر، غیر پشتونوں کی وہ اکثریت جو کبھی پیپلزپارٹی کا دم بھرتی تھی وہ اور ان کی نئی نسلیں اب تحریک انصاف کا دست و بازو ہیں، یہی وجہ تھی کہ صوبے کا نام خیبر پختونخوا رکھنے کے بعد پیپلزپارٹی کا نہ صرف یہاں سے مکمل صفایا ہو گیا بلکہ مرکزگریز جماعتوں کے ایجنڈے کو توانائی فراہم کرنے کی بدولت پنجاب میں بھی پیپلزپارٹی کو ناقابل تلافی پہنچا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved