تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     18-04-2021

محض ایک ہفتے میں ہونے والی بے عزتیاں

کالم کا آغاز منفرد لب و لہجے کے شاعر منیر نیازی مرحوم کے دو اشعار سے:
لازم نہیں کہ اس کو بھی میرا خیال ہو
جو میرا حال ہے وہی اس کا بھی حال ہو
کوئی خبر خوشی کی کہیں سے ملے منیر
ان روزوشب میں ایسا بھی اک دن کمال ہو
اب ہر وقت کا کیا رونا ڈالا جائے؟ لیکن کیا کریں‘ انسان ہیں‘ لاکھ کوشش کرتے ہیں کہ اب خرابیٔ حالات اور پریشانیٔ روزوشب سے اپنی جان چھڑوا کر کہیں جنگل میں جا کر چار دن گزار لیں یا صحرا کا رخ کر لیں لیکن کیا کریں، مجبوری یہ آن پڑی ہے کہ ادھر ملتان اور گردونواح میں دن گرم ہو گئے ہیں۔ رات غنیمت ہے مگر صحرا میں دن گزارنا اب ممکن نہیں رہا‘ اور یہی حال جنگل کا ہے۔ ادھر شہر میں رہتے تو ممکن نہیں کہ اخبار باہر صحن میں گرا پڑا ہو اور اسے اٹھا کر اندر نہ لائیں اور اپنی علت پوری نہ کریں۔ گزشتہ آٹھ سال سے کم از کم ایک سہولت اپنے لیے پیدا کر لی ہے اور وہ یہ کہ ٹیلی ویژن سے اپنی جان چھڑا لی ہے۔ ٹاک شوز دیکھے برسوں گزر گئے ہیں۔ خبریں صرف اخبار میں پڑھتا ہوں۔ اپنے سمارٹ فون میں دنیا اخبار کی ایپ اپ لوڈ کر رکھی ہے۔ چار چھ گھنٹوں بعد ''تازہ ترین‘‘ کو کلک کرکے تازہ خبر سے آگاہی کی ٹھرک پوری کر لیتا ہوں۔ مہینے دو مہینے بعد کمرے میں لگے ہوئے ٹی وی کو آن کرتا ہوں اور نیٹ فلیکس یا یُوٹیوب پر کوئی پرانی ''ویسٹرن مووی‘‘ دیکھ لیتا ہوں۔ پرسوں تو چار ماہ بعد ویسٹرن مووی دیکھی، یہ 2016 میں ریلیز ہونے والی فلم Kill or be killed تھی۔ اب اس فلم کے عنوان کا اپنے حالات سے کیا موازنہ کرنا؟ یہ فلم وقت گزاری کے لیے دیکھی تھی نہ کہ فلسفہ بگھارنے کے لیے۔
بات کہیں اور چلی گئی۔ کوشش کرتا ہوں کہ اب حالات کا ڈپریشن نہ لوں؛ تاہم گزشتہ ہفتہ اس حوالے سے بڑا زرخیز رہا۔ میرا مطلب ہے پریشانیوں کو بڑھاوا دینے کے حوالے سے گزشتہ ہفتہ خاصا جاندار ہفتہ تھا۔ ایک ہفتے میں اکٹھی چار بے عزتیاں ہمارا مقدر بنیں۔ ویسے تو یہ پوری پانچ بے عزتیاں تھیں مگر فی الوقت ایک بے عزتی پر پردہ ہی رہنے دیں تو بہتر ہے۔
یہ چار بے عزتیاں اس طرح سے ہیں۔ پہلی: یورپی یونین نے پی آئی اے پر غیر معینہ مدت کیلئے پابندی لگا دی ہے۔ دوسری: برطانیہ نے پاکستان کو سفری ریڈ لسٹ میں ڈال دیا ہے۔ تیسری: فٹ بال کی عالمی تنظیم فیفا نے پاکستان فٹ بال فیڈریشن پر پابندی عائد کر دی ہے۔ چوتھی: حکومت افغانستان نے کابل ایئرپورٹ کے اوپر پہنچ کر لینڈنگ کے منتظر جہاز کو ایئرپورٹ پر اترنے کی اجازت نہیں دی۔ اس جہاز میں پاکستان کی قومی اسمبلی کے سپیکر جناب اسد قیصر مہمان خاص تھے۔ پانچویں: ہمارے ایک تگڑے وفاقی وزیر کو برطانیہ نے ویزہ دینے سے انکار کر دیا ہے۔ اس ''تگڑے‘‘ سے خدانخواستہ میری مراد جناب پرویز خٹک بہرحال نہیں ہے؛ تاہم اس بے عزتی کی تفصیل پر پردہ ہی پڑا رہنے دیں تو بہتر ہے۔
پی آئی اے پر پابندی کا یہ سارا ڈرامہ تب شروع ہوا جب ہمارے وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے بلا تصدیق اڑھائی سو سے زائد پی آئی اے پائلٹس کے ہوا بازی کے لائسنسوں کو ملک کے سب سے موقر اور معزز فورم یعنی قومی اسمبلی کے فلور پر جعلی قرار دے دیا۔ ظاہر ہے جب کوئی متعلقہ وزیر اپنے محکمے کے بارے میں قومی اسمبلی پر کوئی بیان دے گا تو اسے سنجیدگی سے ہی لینا چاہیے۔ سو ہوا یہ کہ ہمارے ہاں تو کسی نے اس بیان کو سنجیدگی سے نہ لیا لیکن دنیا کی مہذب اقوام کے نزدیک قومی اسمبلی میں متعلقہ وزیر کا یہ بیان ایک بہت ہی سیریس معاملہ تھا، لہٰذا انہوں نے تو اس پر فوری ایکشن لیتے ہوئے پاکستان کی قومی ایئرلائن پر پابندی لگا دی۔ پہلے یہ پابندی تھوڑی مدت کیلئے تھی اور ہمارے وزیر صاحب اور ایئرلائن کہتی رہی کہ یہ پابندی عارضی ہے اور جلد ہی اٹھا لی جائے گی لیکن اب ہوا یہ ہے کہ یورپی یونین نے اس پابندی کو غیرمعینہ مدت کیلئے بڑھا دیا ہے اور ہماری حکومت بے فکر ہے، قومی ایئرلائن بے پروا ہے اور جس بیان کے نتیجے میں یہ سب کچھ ہوا‘ وہ دینے والا وزیر سب سے زیادہ سکون میں ہے۔ اگر کسی وزیر نے یہ حرکت سابق دورِ حکومت میں کی ہوتی تو عمران خان صاحب ہمیں ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر نہایت ہی درد مندی اور خلوص سے بتاتے کہ مہذب ملکوں میں ایسے وزیر استعفے دے دیتے ہیں‘ سیاست سے ساری عمر کیلئے تائب ہو جاتے ہیں اور لوگ ان کا سماجی بائیکاٹ کر دیتے ہیں۔ لیکن ظاہر ہے وہ یہ سب کچھ سابق حکومتوں کے لیے فرماتے تھے، اس قسم کے اخلاقی واقعات بیان کرنے سے ان کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھاکہ وہ خود بھی اپنے فرمودات پر عمل کریں گے۔
ایک عرصے سے ہم سنتے آرہے تھے کہ عمران خان صاحب کے مغرب کے ساتھ عموماً اور حکومت برطانیہ کے ساتھ خصوصاً، بڑے دھانسو قسم کے تعلقات ہیں لیکن موقع آیا ہے تو پتا چلا کہ یہ محض افواہ تھی۔ برطانیہ نے پاکستان سے سفر کرنے والوں کیلئے نئی پابندی عائد کرتے ہوئے اسے ریڈ لسٹ میں شامل کر دیا ہے اور مؤرخہ دس اپریل کے بعد پاکستان سے برطانیہ وزٹ ویزے پر جانے والوں پر پابندی عائد کر دی ہے۔ یاد رہے کہ بہانہ کورونا کو بنایا گیا ہے حالانکہ بھارت میں کورونا کے پھیلائو کی شرح پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے، لیکن بھارت اس پابندی کی زد میں نہیں آیا اور بات صرف بھارت تک ہی نہیں اور بہت سے ممالک جہاں کورونا کی شرح پاکستان سے کہیں زیادہ ہے، اس ریڈ لسٹ میں نہیں آئے؛ تاہم پاکستان اپنی ''بہترین خارجہ پالیسی‘‘ اور ہمارے وزیر خارجہ جناب شاہ محمود قریشی کی انتھک کوششوں سے اس لسٹ میں آ گیا ہے۔
تیسری بے عزتی یہ ہوئی ہے کہ فٹبال کی عالمی تنظیم فیفا (فیڈریشن انٹرنیشنل ڈی فٹبال ایسوسی ایشن) نے پاکستان کی فٹ بال فیڈریشن (پی ایف ایف) پر عالمی مقابلوں میں شرکت سمیت تمام پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پی ایف ایف کی موجودہ باڈی نے معاملات کو سلجھانے کے لیے فیفا کی طرف سے مقرر کردہ ''نیوٹریلائزیشن کمیٹی‘‘ (این سی) کو نہ صرف کام نہیں کرنے دیا بلکہ اسے زبردستی پی ایف ایف کے لاہور میں واقع ہیڈ کوارٹر سے نکال کر اس کی عمارت پر قبضہ کر لیا۔ اس بارے میں فیفا کی بار بار کی وارننگ کے باوجود ہیڈ کوارٹر کا قبضہ واگزار نہیں کروایا گیا؛ تاہم نہایت ہی خوشی کی بات یہ ہے کہ اس دوران وزیر اعلیٰ پنجاب نے اربوں روپے کے قبضے ختم کروا کر بنی گالا میں اپنی کارکردگی رپورٹ جمع کروا کر شاباش وصول کر لی ہے۔ یاد رہے کہ فیفا نے یہ پابندی گزشتہ پانچ سال کے دوران دوسری بار عائد کی ہے۔
چوتھی بے عزتی یہ ہوئی ہے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی کے سپیکر جناب اسد قیصر کا جہاز کابل ایئرپورٹ کے اوپر لینڈنگ کی اجازت کا منتظر گھومتا رہا لیکن اسے اترنے کی اجازت نہ ملی اور وہ ناکام و نامراد واپس آ گیا۔ یہ صرف ایک ہفتے کے دوران ہونے والی وہ معمولی بے عزتیاں تھیں جو پی ڈی ایم کے باہمی جھگڑے اور بلاول کی جانب سے شاہد خاقان عباسی کا نوٹس پھاڑنے جیسے عالمی سطح کے انتہائی اہم معاملات میں دب کر رہ گئیں۔ جہاں پی ڈی ایم کی طرف سے پیپلز پارٹی کو بھیجے گئے خط کو پھاڑنے پر آٹھ کالم کی سرخی لگے، وہاں پر ایسی معمولی معمولی بے عزتیاں نہ سرکار کے لیے کسی خاص اہمیت کی حامل ہیں اور نہ عوام کو ہی ان سے کوئی غرض ہے۔ رہ گئی بات وفاقی وزیر کو ویزہ نہ ملنے کی، تو وہ خان صاحب کے لیے براہ راست چیلنج ہے کہ ان کے دعوے کے برعکس سبز پاسپورٹ کی عزت و توقیر بڑھنے کے بجائے گرتے گرتے کہاں تک پہنچ گئی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved