اس بار پشاور بہت مدت بعد جانا ہوا۔ شاید دس سال کے بعد، ورنہ یہ دیارِ خواب اور شہرِ خوباں مجھے ہر سال اپنی طرف کھینچ لیتا تھا۔ داستانی کوہِ ندا کی طرح جس کی طرف میں تمام بندھی ہوئی زنجیروں کے باوجود اور ان کے ساتھ کھنچتا چلا جاتا تھا۔ زمین کی کشش میں شہر کی کشش شامل ہوجائے تو اس دوآتشہ حسن کا مقابلہ کون کرسکتا ہے؟
کشش؟ کوئی ایسی ویسی کشش؟ بچپن کے سنے اور گونجتے ہوئے گیت، ''پشاور سے مری خاطر دنداسہ لانا‘‘ کے بول ایک دم ذہن میں گونجتے ہوئے۔ خاص پشتون موسیقی اور پٹھانی لہجہ، پشاور یونیورسٹی، اسلامیہ کالج کی تاریخی عمارتیں، قلعہ بالا حصار کی پُرشکوہ فصیل۔ خوبصورت صحت مند چہرے۔ پٹھان لہجے کی اردو جس پرویسے ہی پیار آنے لگتا ہے، بچھ جانے والی مہمان نوازی۔ نمک منڈی کا انگاروں پر سنکا ہوا دنبے کا لذیذ نمکین گوشت۔ بھنے ہوئے برّے کی پاگل کردینے والی اشتہا انگیز خوشبو۔ قصہ خوانی بازارکے سماوار اور قہوے کے چھوٹے پیالے جن میں نقرئی بھاپ اور مدہوش کن مہک اڑاتا سنہری مشروب جھلملاتا ہے۔ صحت بخش آب وہوا۔ لذیذ پانی۔ باڑہ کا بازار اورذہن میں گونجتے پٹھان بھائیوں کے لطیفے جنہیں ان کے سامنے سنانا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ کشش یکطرفہ کہاں ہے۔ کوہِ ندا کی تو ایک آواز ہوگی۔ یہ شہرتو ہزار صداؤں سے بلاتا ہے، ہزار آنکھوں سے دیکھتا ہے۔ شہرِ خوباں کا لفظ جس طرح اس شہرپر سجتا ہے، ایسا کیا کسی پرسجے گا۔
میں موٹروے ایم2 سے باہر نکل کر پشاور میں داخل ہورہا تھا اور میرا ذہن کم عمری کے پہلے سفر کو یاد کررہا تھا جب چہرہ بہ چہرہ روبہ رو پشاور سے پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ کم و بیش 45 سال پہلے کا شہر جو اپنے سکون، خوبصورتی اور روایات کی وجہ سے دل کو بھاگیا تھا۔ اس وقت پشاورکا سفر کتنا دور اوردشوار لگتا تھا۔ ٹرین ہی سب سے بہتر اور سستا ترین ذریعہ تھی جس کا سفر خوبصورت وادیوں دریاؤں اور میدانوں سے گزرتا تھا۔ اور اب میں موٹروے کی خوبصورت، معیاری اور آرام دہ سڑک سے یہاں پہنچا ہوں جس میں پٹرول اور سہولیات کی کمیابی کے سوا اور کوئی مسئلہ نظر نہیں آتا۔ اسلام آباد سے پشاور تک دو گھنٹے کے سفر میں صرف ایک جگہ درمیان میں قیام و طعام اور پٹرول کی سہولت نظر آئی حالانکہ یہ سہولیات ہر 50 کلومیٹر پر ہونی چاہئیں۔ کیا وزیر مواصلات اور موٹروے ایم 2 کے حکام اس طرف توجہ کریں گے؟
پشاور بہت تبدیل ہوگیا ہے اور یہ تبدیلی مثبت ہے۔ آخری بار جب دس سال پیشتر یہاں آیا تھا تو نہ اتنے فلائی اوورز تھے، نہ بی آرٹی کی پبلک ٹرانسپورٹ، نہ رنگ روڈ اور نہ شہر اتنا پھیلا ہوا لگتا تھا۔ گزرتے وقت نے پشاور کو اہم تر اور وسیع تر کردیا ہے اور اس کا کریڈٹ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کو، کئی تحفظات کے باوجود، بہرحال ملنا چاہیے‘ لیکن ان باتوں پر تو بات اس وقت کی جائے جب ذہن حاضر ہو۔ ابھی تو گاڑی آگے کی طرف اور ذہن پیچھے کی طرف دوڑ رہا تھا۔ میں چشم تصور سے پشاور کوبہت سے تاریخی ادوار سے گزرتے دیکھ رہا تھا۔ وہ سب ادوار جو میں نے کتابوں میں بہت بار پڑھے تھے اور جنہیں چند منٹ میں پڑھ کر گزرا جاسکتا تھا‘ لیکن اس وقت میں جاکر، اس عہد میں پہنچ کر دیکھیے تو پتہ چلے گا کہ یہ واقعات کیسے رونما ہورہے ہیں۔ کسی ایک گوشے میں چھپ کر جہاں سے آپ سب کو دیکھ سکتے ہوں لیکن آپ کو کوئی نہ دیکھ سکتا ہو۔ اس وقت کی گھڑی کی ٹک ٹک کو اپنے دل کی دھک دھک کے ساتھ ہم آہنگ کیجیے جب وہ ماہ و سال گزر رہے تھے۔ سورج نکلتا اور ڈھلتا تھا تو دن کی سبک خرامی محسوس ہوتی تھی۔ گجردم سے رات کے آخری پہر تک گھڑیال پر ضربیں لگتی تھیں تو روزوشب کی آہستہ روی دیکھی جاسکتی تھی۔ وہاں پہنچ کر آپ کو اس تاریخ کا درست علم ہوگا۔ انقلابات کو کتابوں میں پڑھنا اور ہے، خود پر گزرتے دیکھنا بالکل اور۔
لیکن ذرا پہلے مغل پشاور سے مل لیں۔ اصل اہمیت پشاور کو اکبر اعظم کے دور میں ملی۔ اسے بتایا گیاکہ اس کا نام ''پرش آور‘‘ ہے۔ اس کا مطلب اکبر نہیں سمجھتا تھاکہ یہ قدیم زبانوں کا شبد تھا۔ اکبر نے کہا کہ یہ ''پیش آوردان‘‘ ہے یعنی آنے والا پہلا شہر۔ درّہ خیبر کی طرف سے برصغیر میں افغان فاتحین داخل ہوتے تھے تو پہلا شہر پشاور پڑتا تھا‘ اور اکبر کی مراد یہی تھی۔ ''پرش آور‘‘ اس کا قدیم نام تھا جو خود سنسکرت کے نام ''پُرشا پورا‘‘ کی تبدیل شدہ شکل تھی۔ ''پُرشا پورا‘‘ کا مطلب تھا آدمیوں کا شہر، یا ''پرشا‘‘ کا شہر۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ شہر بسانے والے ہندو راجہ کا نام ''پرشا‘‘ تھا۔ یہ تمام علاقہ بدھ مذہب کی جولان گاہ اور مرکز سلطنت رہا۔ اس زمانے میں یہ سارا علاقہ گندھارا کہلاتا تھا۔ پشاور گندھارا کی وادی کااہم شہرتھا اور خروشتی طرز تحریر میں لکھی گئی سنسکرت بدھوں کی علمی زبان۔ اور یاد رہے کہ یہ سب سے قدیم تاریخی ریکارڈ کا دور ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایک قدیم تحریر میں جس شہر کا نام ''پوشاپورا‘‘ (پھولوں کا شہر) لکھا ہے، وہ یہی پشاور شہرہو۔ دسویں صدی عیسوی کے وسط میں عرب مؤرخ اور جغرافیہ دان المسعودی نے اسے ''پرش آور‘‘ اور البیرونی نے ''پرشاوار‘‘ درج کیا ہے۔ اکبر کے عہد میں ابوالفضل ابن مبارک اسے ''پرش آوار‘‘ اور ''پیش آور‘‘ دونوں طرح سے لکھتا ہے۔
کسی بستی کسی شہر کا پس منظر جانے بغیر اس سے ملاقات کیا معنی؟ اور جاننے کے لیے آپ کو ماضی کی اس گرینڈ ٹرنک روڈ پر جانا پڑتا ہے جو لمحۂ موجود سے زمانہ قبل از تاریخ تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس شاہراہ کو جابجا دھند اور غبار نے ڈھانپ رکھا ہے لیکن کچھ منظر بہت صاف ہیں۔ یہی نہیں، کسی فاتح، کسی حکمران کی خوبیوں خامیوں اور طرز حکمرانی کے لیے آپ کو اس محل میں داخل ہونا پڑتا ہے‘ جسے تاریخ کہتے ہیں۔ آئیے میرے ساتھ آئیے۔ اس جی ٹی روڈ اور اس قصر کی سیر پُرلطف ہے۔ کچھ دیر یہاں گزار کرتو دیکھیں۔
ہم اس شاہراہ کے ایک طرف کھڑے ہوکر اڑتی دھول اور شور کا حصہ بنتے ہیں۔ یہ 326-27 قبل مسیح ہے۔ سکندر اعظم کی فوجیں اپنے یونانی خدوخال کے ساتھ پشاور، سوات اور بونیر پر یلغار کررہی ہیں۔ پشاور ان کا مستقر نہیں صرف راہ کی منزل ہے لیکن ان کی غارت گری کے زخم گہرے ہیں۔ سکندر اپنا انتظام کرکے آگے کی منزلوں کی طرف بڑھ جاتا ہے۔ یہ علاقہ سیلیوسس کے زیر نگین آجاتا ہے۔ عہد جدید میں پشاور سے دریافت ہونے والا ایک برتن کا ٹکڑا جس پر اس دور کے مناظر بنے ہوئے ہیں، یونانی عہد کی ترجمانی کرتا ہے۔ کچھ زمانے گزرتے ہیں اور پشاور گنڈوفاریس کے تحت آجاتا ہے۔ یہ وہی حکمران ہے جس نے نزدیکی تخت بھائی، جس کا اصل نام تخت باہی ہے، کی پہاڑی پر خانقاہ تعمیر کروائی جو بعد کے ادوار میں بدھ خانقاہ میں تبدیل ہوگئی۔ غبار اور شور بلند ہوتے ہیں، منظر بدلتا ہے۔ اب پرش آور بدھوں کے پاس ہے جو اس پورے علاقے اس پوری سلطنت کوگندھارا کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ پشاور گندھارا کا ایک اہم شہر ہے۔ 260 CE میں ساسانی بادشاہ شاپور اس پر یلغار کرتا ہے اور قبضہ کرتے ہی بدھوں کے سٹوپا اور تاریخی آثار مسخ کردیتا ہے۔ یہ دور بدھوں کیلئے آزمائش کا ہے۔ ہم شاہراہ پرتیزی سے آگے بڑھ کر ساتویں صدی عیسوی میں پہنچتے ہیں۔ اس صدی کے اواخر میں اسلام کی کرنیں پشاور پر پڑتی ہیں۔ پہلا پشتون قبیلہ دلازاک، پشاور اور نواحی وادیوں میں آباد ہوتا ہے۔ اس سے قبل پشتون قبائل اس علاقے میں تھے ہی نہیں۔ اور کابل کے ہندو حکمران پشاور پر بھی راج کرتے تھے۔ ان ہندو راجاؤں کا مسلم افواج سے پہلا ٹکراؤ 986-87CE میں ہوتا ہے جب غزنی کا حکمران سبکتگین ہندو راجا آنند پال کے مقابلے پر آیا اور اس پورے خطے کی تقدیر بدل دی۔ (جاری)