حکومت اپوزیشن کو کرپشن کیسز میں
این آر او جاری نہیں کرے گی: صدر علوی
صدر مملکت عارف علوی نے کہا ہے کہ ''حکومت اپوزیشن کو کرپشن کیسز میں این آر او جاری نہیں کرے گی‘‘ اور چونکہ وزیراعظم نے اپنی حالیہ دو تین تقریروں میں اپوزیشن کو این آر او نہ دینے کا ذکر نہیں کیا تھا‘تو مجھے تشویش لاحق ہو گئی تھی ، اگرچہ میرا کام ضروری اقدامات کی توثیق ہے تاہم یہ بات چونکہ اُن کے معمولات کے سراسر خلاف تھی اس لیے مجھے لب کشائی کرنا پڑی، جس کا ایک مقصد اُن کو یاد دلانا بھی ہے کہ وہ اپنے لوازمات سے صرفِ نظر نہ کیا کریں کیونکہ اس سے عوام کے دل میں شکوک و شبہات پیدا ہو سکتے ہیں ۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
عید کے بعد تحریک کو تیز کیا جائے: نواز شریف
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''عید کے بعد تحریک کو تیز کیا جائے‘‘ اگرچہ کچھ جماعتیں پی ڈی ایم سے لا تعلق ہو چکی ہیں، اوپر سے شہباز شریف کی ضمانت ہو گئی اور اب وہ پارٹی کے سارے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے لیں گے اور میرے بیانیے کو پسِ پشت ڈال کر اپنا نحیف و نزاربیانیہ رائج کرنے کی کوشش کریں گے، جس سے میرے لیے بہت سے مسائل پیدا ہو گئے ہیں، اوپر سے مریم نواز کے لندن آنے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی جس کے لیے اپنے پسندیدہ ڈاکٹر کو بھی یہاں سے روانہ کر دیا گیا ہے۔ آپ اگلے روز لندن سے فون پر مولانا فضل الرحمن سے گفتگو کر رہے تھے۔
وزیراعظم وزرا کی کارکردگی کا مسلسل
احتساب کرتے ہیں:شہباز گل
وزیراعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گل نے کہا ہے کہ''وزیراعظم وزرا کی کارکردگی کا مسلسل احتساب کرتے ہیں‘‘ اور آئے دن ان کے تبادلے کر کر کے ان کی طبیعت صاف کرتے رہتے ہیں جس سے ان کی کارکردگی تو بہتر نہیں ہوتی البتہ انہیں عبرت ضرور حاصل ہو جاتی ہے کیونکہ کارکردگی تو آنی جانی چیز ہے، عبرت حاصل کرنا ایک مستقبل صورتحال ہے جو زندگی بھر اُن کے کام آتی رہے گی، جبکہ شاعر نے بھی کہہ دیکھا ہے کہ ع
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو
جس سے ایک بات اور واضح ہو جاتی ہے کہ عبرت دوستوں ہی کو حاصل کروانی چاہیے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں شریک تھے۔
عید کے بعد فیصلہ کن تحریک چلائیں گے: رانا تنویر
نواز لیگ کے سینئر رہنما اور پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین رانا تنویر حسین ایم این اے نے کہا ہے کہ ''عید کے بعد حکومت کے خلاف فیصلہ کن تحریک چلائیں گے‘‘ کیونکہ اب تک کی تحریک محض ریہرسل کے طور پر چلائی گئی تھی جس سے یہ مشق کافی پختہ ہو چکی ہے اور فیصلہ کن تحریک چلانے کے قابل ہو گئے ہیں کیونکہ اگر اب بھی فیصلہ نہ ہوا تو ہم سب تو کہیں نہ کہیں گھس جائیں گے، اصل سوال مولانا کا ہے کہ وہ کدھر جائیں گے جبکہ تحریک نے فیصلہ کن تو کیا ہونا ہے، مولانا کی صورت حال یہ ہو گی کہ ع
خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
آپ اگلے روز رکن اسمبلی پر عبدالرئوف اور دیگران سے ملاقات کر رہے تھے۔
اور، اب آخر میں ابرار احمد کی نظم:
میں نے ایک گھر بنایا ہے
پہلے میں اُس گھر میں رہتا تھا؍ جسے میرے باپ نے تعمیر کیا؍ تاکہ ہمیں پناہ میں رکھ سکے؍ رنگین کھڑکیوں، عافیت اور؍ سکون سے بھرا وہ گھر؍ ہمیں دربدری اور دھوپ سے بچا نہ سکا؍ لیکن کبھی ختم نہ ہونے والی؍کٹھن مسافت کے دوران اس گھر کی خوشبو؍ ہمیشہ میری سانسوں میں مہکتی رہی؍ اور وہ مہربان آنکھیں؍ میری ڈھارس بندھاتی رہیں؍ میں بہت گھروں میں رہا؍ ایک تعلق بھری مغائرت کے ساتھ؍ وہ کمرہ نما گھر جس کی اُداس شاموں میں؍ دُھول اڑا کرتی تھی؍ اور جس کی اداس شاموں میں؍ دور افتادہ یادوں اور؍ دوستوں سے رونق لگی رہتی تھی؍ ڈاکیے کے قدم جس کے؍ برآمدوں میں؍ روشنی کی طرح دکھائی دیتے تھے؍ پھر وہ خیمہ... جو ایک پُرشور؍ دریا کے کنارے؍ پہاڑی ہوائوں کی زد پر؍ ساری رات پھڑکتا تھا؍ جہاں پیٹرو میکس کی روشنی میں؍ میں نے پہلی مرتبہ؍ وار اینڈ پیس کا مطلب جانا؍ پھر ایک شہر میں بازار سے جڑا گھر؍ جہاں بہت بارش ہوتی اور؍ بہت مہمان آیا کرتے تھے؍ اور چند پھول میرے آنگن میں؍ کھل اٹھے تھے؍ اور ایک گھر؍ اور ایک گھر جو اِن گھروں سے پرے؍ میرے خوابوں ہی میں بنا رہا؍ گھر ہوتا ہے رہنے والوں کے لیے؍ اور یہاں قیام کس کو ہے؍ ویسے بھی؍ کچھ لوگوں کا گھر ہوتا بھی نہیں؍ یا پھر وہ گھروں کے نہیں ہوتے؍ اب ادھر اُدھر سے اینٹیں اکٹھی کر کے؍ میں نے ایک خوبصورت گھر بنایا ہے؍ اپنے بچوں کے لیے؍ ایک چھت... جو انہیں؍ دھوپ اور آندھی سے بچا سکے؍ ٹھنڈک سے بھرا ایک سایہ؍ لیکن شاید میرا تو کوئی ایسا سایہ بھی نہیں؍ پھر بھی زندگی کے گلی کوچوں سے گزرتے ہوئے؍ دُور نزدیک کی بستیوں میں گھر بناتے ہوئے؍ اس گھر کی خوشبو؍ اور میرے تھکے ماندے خوابوں کی چاپ؍ ہمیشہ ان کے ساتھ ساتھ؍ چلتی رہے گی؍ موجود اور معدوم کے کناروں تک...
آج کا مطلع
محبت ہے مگر اُس کو خبر ہونے سے ڈرتا ہوں
کہ اس خوشبوئے دل کے منتشر ہونے سے ڈرتا ہوں