تحریر : ڈاکٹر منور صابر تاریخ اشاعت     18-04-2021

Speed Breaker

سیاہ رنگ تمام رنگوں پر ہی نہیں بلکہ تمام گہرے رنگوں پر بھی بھاری مانا جاتا ہے ۔تمام رنگ مختلف مواقع اور حوالوں سے استعمال ہوتے ہیں ‘جیسا کہ سفید رنگ امن کی علامت کے طور پر استعمال ہوتاہے‘ سرخ رنگ کو کمیونزم کے انقلاب نے بالکل نئے اور نمایاں معنی دے دیے‘ جبکہ سبز رنگ کیپٹل ازم یعنی سرمایہ دارانہ نظام کی پہچان مانا جاتا تھا۔ مارشل آرٹس یا کراٹے سیکھنے والوں کو سب سے شروع میں سفید رنگ کی بیلٹ باندھی جاتی ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ بندہ ابھی بے رنگ ہے اور ابھی سیکھنا شروع کیا ہے ۔ تربیت کے کچھ عرصہ اور امتحان پاس کرنے کے بعد اس بندے کو پیلے رنگ کی بیلٹ عطا کی جاتی ہے ۔اس کے بعد مزید تربیت اور امتحان پاس کرنے کے بعد اسے بالترتیب زرد ‘سبز‘نیلی ‘ برائون اور سب سے آخر میں سیاہ بیلٹ باندھی جاتی ہے اور وہ بڑے فخر سے یہ کہتا ہے کہ اس کے پاس Black Beltہے ۔ اس کا فلسفہ کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ اگر پیلے‘ اورنج‘سبز ‘نیلے اور برائون رنگ کو مکس کر دیا جائے تو سیاہ رنگ تشکیل پاتا ہے ‘لہٰذا سیاہ بیلٹ کا مطلب یہ بن جاتا ہے کہ اس بندے یا کھلاڑی کے تمام رنگ پورے ہو گئے ہیں اور یہ ایک ماہر اور مستندکھلاڑی بن چکا ہے ۔
سیاہ رنگ میں سورج کی تپش جذب کرنے کی صلاحیت بھی سب سے زیادہ ہوتی ہے‘ اسی لئے سیاہ لباس گرمیوں میں کم اور سردیوں میں زیادہ پہنا جاتا ہے۔ سیا ہ رنگ تاریکی ‘ جہالت اور ظلمت کا نشان بھی ہے۔ سیاہ رنگ کی ایک بڑی پہچان وکلا حضرات کاعدالتی لباس بھی ہے‘ یعنی قانون اور انصاف کی علامت بھی سیاہ رنگ ہی بن چکا ہے۔ تقریباً تین سال پہلے تک پنجاب پولیس کی وردی میں شرٹ سیاہ رنگ کی ہوتی تھی جبکہ ایلیٹ فورس کے اہلکارابھی تک سیاہ رنگ کی وردی پہنتے ہیں۔
اب آتے ہیں ایک ایسے انگریزی محاورے کی طرف جو زیادہ مشہور تو نہیں ہو سکا مگر ہے بہت مزے کا‘ خاص طور پر پاکستان کے حوالے سے۔یہ محاورہ Speed Breaker سے متعلق ہے اور کچھ یوں ہے : sleeping policeman۔ اب آپ اندازہ لگائیں کہ اس کا مطلب کیا ہو سکتا ہے ؟ چلئے وضاحت کرتے ہیں ‘اس کا مطلب کچھ یوں بنتا ہے کی ایک سپیڈ بریکر سامنے آنے پر آپ گاڑی کی رفتار کم کردیتے ہیں مگر رکتے نہیں ہیں یعنی اگر آپ کسی جگہ سے گزر رہے ہوں اور وہاں راستے کے ایک طرف پولیس والا سویا ہو تو آپ اگر کچھ غلط بھی کر رہے ہوں گے تو آپ باز نہیں آئیں گے کیونکہ پولیس والا سویا ہوا ہے یعنی اس کی حیثیت ایک سپیڈ بریکر جتنی ہے ۔اب آپ کو یقیناحیرانی ہو گی کہ بین الا قوامی سطح پر یعنی International Relations میں قوموں کے درمیان جو بھی تنازعات یا مسائل پائے جاتے ہیں ان کے حل کے لئے جو International Lawپایا جاتا ہے وہ ایک مخصوص اور محدود حد تک ہی کارفرما ہوتا ہے‘ جبکہ اکثر مواقع اور جگہوں پر ابھی تک طاقت کا قانون ہی چلتا ہے۔
آپ کشمیر ‘افغانستان‘عراق اور اس طرح کی دیگر متعدد مثالیں لے لیں ۔ اس کو جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون بھی کہا جاسکتا ہے ۔اس طرح کی صورتحال کو بیان کرتے ہوئے ماضی یا سیاہ دور سے تشبیہ دی جاتی ہے کہ فلاں علاقے میں لا قانونیت ہے کیونکہ وہاں صرف طاقتور لوگوں ہی کی حکمرانی ہے‘دن دیہاڑے لوگ لٹ جاتے ہیں ‘زمینوں پر قبضے ہو جاتے ہیں اور کوئی بھی پوچھنے والا نہیں ہے ۔دنیا کی سیاسی تاریخ میں جب تک جمہوریت نہیں تھی تو بادشاہ اور اس کا خاندان جہاں تاحیات تمام طاقت کا منبع اور مرکز ہوتے تھے وہیں پر ایک طرف خودتو قانون سے بالا تر ہوتے تھے تو دوسری طرف عدالت بھی خود ہی لگاتے تھے اور من پسند یا من مرضی کے فیصلے کیا کرتے تھے۔ان کا بولا ہوا لفظ یا محاورہ ہی قانون کی حیثیت رکھتا تھا۔ جمہوریت کے نظام سے اتنا ضرور ہوا کہ عدالتیں ایک علیحدہ ادارہ یا ستون بن گئیں ‘اسی طرح انتظامیہ بھی ایک علیحدہ ستون بن گئی۔
بادشاہت کا ذکر کریں تو ذہن نشین کرنا پڑتا ہے کہ دینا میں اس وقت بھی ایک تقریباً پورا علاقہ ایسا ہے جہاں خاندانی بادشاہت (Monarchy)تا حال برقرا رہے اور یہ علاقہ مسلم اُمہ کے ممالک پر ہی مشتمل ہے۔ آپ کو خیال آگیا ہو گا کہ یہ مشرق وسطیٰ کا علاقہ ہے ‘بادشاہت کے علاوہ مکمل اور بے پناہ طاقت کے استعمال اور طرز ِحکومت کی ایک اور مثال مارشل لاز کی شکل ہے اس سلسلے میں بھی مسلم ممالک ہی اس طرز کی حکومت کی اس وقت سب سے بڑی مثال ہیں ۔ ایک بڑے مسلم ملک ‘مصر میں تا حال ایک ڈکٹیٹر قابض ہے ۔ طالب علموں کے لیے وضاحت کرتا چلوں کہ اگر آپ کو خیال آ رہا ہے کہ برطانیہ اور جاپان جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی تو بادشاہت ہے تو واضح رہے کہ وہاں پر بادشاہت صرف symbolic اور ceremonialہے ۔
اب واپس آتے ہیں سیاہ رنگ کی بحث اور تکرار کی طرف تو ایک حوالہ اور بھی ہے اور وہ بھی تاریکی اور ظلمت ہی کا غماز ہے اور اس حوالے کے لیے ہمیں بر اعظم افریقہ کی طرف چلنا پڑتا ہے اس بر اعظم کا نام ہی Dark Continentہے‘ جو اس علاقے کی پسماندگی کی وجہ سے دیا گیا ہے‘لیکن اگلا حوالہ بہت تلخ ہے اور وہ اس خطے کے سیاہ فام وہ لوگ ہیں جو اس وقت بظاہر تو امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک کے نسلوں سے باسی ہیں مگر ان کے ساتھ ابھی تک سلوک دوسرے بلکہ غلام شہری والا ہی کیا جا رہا ہے۔حال ہی میں ایک اور سیاہ فام شہری کا پولیس کے ہاتھوں قتل اس کی بھیانک مثال ہے‘واضح رہے کہ امریکہ میں سیاہ رنگت کے امریکی شہریوں کو ووٹ کا حق 1960 ء میں ملا تھا جبکہ کسی گورے اور کالے کے درمیان شادی کی اجازت 1969ء میں جا کر ملی تھی۔یہاں سب سے مقبول امریکی صدر ابراہم لنکن کا ذکر بھی بہت ضروری ہے جن کو صرف اس لئے قتل کر دیا گیا تھا کہ انہوں نے امریکہ میں سیاہ فام لوگوں کی غلامی ختم کرنے کا قانون منظور کیا تھا ۔
سیاہ رنگ کے ان حوالوں اور بحث کے ساتھ اب آجائیں اپنے ملک کی صورتحال پر تو آ پ کے ذہن میں جو نقشہ ابھرتا ہے وہ کوئی اور رنگ نہیں لئے ہوئے بلکہ سیاہ رنگ ہے ا ور اب یہ طے کرنا بھی زیادہ مشکل نہیں کہ ملک میں سیاہ رنگ بلیک بیلٹ کی طرح ایک تکمیل یا مستند ہونے کی بجائے اس کا متضاد ہی بنتا ہے ۔ملک کی سیاسی صورتحال ہو یا معاشی یہاں تک کہ سماجی ساخت کو دیکھ لیں‘ معاشرہ بے بسی ‘ حدت والی شدت پسندی ‘ خیالا ت و افکار کی خود ساختہ خود پسندی جس میں صرف اپنی مرضی کا سچ کُل حقیقت بن چکا ہے‘اس سب نے ایک تو لوگوں کے دماغوں کو آلودہ ‘زنگ زدہ اور دھندلاہی نہیں بلکہ دھند زدہ کر دیا ہے ۔ یہ کیفیت ایک ایسی کشتی کی ہے جس میں سوراخ بھی ہو چکے ہیں اور آگ بھی لگی ہوئی ہے ۔رہی بات قانون کی تو اس کی بحیثیت مجموعی حالت ایک سوئے ہوئے پولیس والے (Speed Breaker)جتنی بھی نہیں ہے‘ بلکہ زیادہ سے زیادہ ایک ایسے پتھر کی مانند ہے جو گاڑی کے ٹائر کے نیچے آکر کبھی کسی جانب نکل گیا یا کچلا گیا ۔پتہ نہیں قانون کب کسی طاقتور کی گاڑی کے لیے ہلکی سی رکاوٹ ہی بنے گا ۔رہی بات عام آدمی کی تو وہ ایک پیدل یا سائیکل سوار کی طرح ہے ‘اس کی کمزور رفتار اور حرکت کے سامنے ساری سڑک ہی Speed Breakerہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved