ریاست کمزور ہو جائے تو وہی ہوتا ہے جو ہم گزشتہ چند عشروں سے وطنِ عزیز میں کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ پتا نہیں آپ کی نظریں کہاں ہوں‘ میں نے تو اس ملک اور غریب عوام کو لٹتے ہوئے دیکھا ہے۔ اگر کچھ لٹیرے رنگے ہاتھوں پکڑے جائیں‘ ثبوت موجود ہوں‘ اور معاملات عدالتوں تک جائیں تو اس طبقے کے پاس دفاع کے لیے سب سے مضبوط ہتھیار فقط چند مختصر فقروں تک محدود نظر آتا ہے۔ لوٹنے والے کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو‘ یا نوکر شاہی کے اس ٹولے سے تعلق رکھتا ہو‘ جس کا مقصد خدمت نہیں‘ مال بٹورنا ہے‘ سب ایک ہی زبان استعمال کرتے ہیں: ہمارے خلاف انتقامی کارروائی ہو رہی ہے‘ حکومت کے پاس کوئی ثبوت نہیں‘ ہمیں انصاف نہیں مل رہا۔ انتظامیہ کمزور ہو تو احتساب کے اداروں‘ عدلیہ اور تفتیشی افسروں پر ملزم چڑھائی کرتے ہیں۔ یہ کون سا نظام یا جمہوریت ہے کہ کسی ملزم کو دولت کے انباروں کا حساب دینے کے لیے بلایا جائے‘ اور وہ ہزاروں کا مجمع لے کر دھاوا بول دے‘ اہلکاروں پر پتھرائو کرائے اور توڑ پھوڑ کرنے کے بعد فتح کا نشان بناتے ہوئے سب گھروں کو چلے جائیں۔ میرا اشارہ لاہور کے بادشاہی خاندان کی طرف ہے۔ دوسری مرتبہ پہلے سے بھی بڑا لشکر لانے کی دھمکی دی تو پوچھ گچھ کرنے والے ڈھیر ہو گئے‘ حاضری اس بہانے ملتوی کر دی کہ کورونا کے پھیلنے کے خدشات ہیں۔ اداروں میں کوئی سکت نہیں رہی کہ طاقتور مجرموں کو کٹہرے میں لا سکیں۔ ان کی کمزوریاں اپنی جگہ مگر ملزموں کو یہ کیسی آزادی ہے کہ وہ حملہ آور ہو جائیں اور دھمکیوں اور لشکر کشی سے مرعوب کریں۔
چند دن پہلے جہانگیر ترین صاحب کسی عدالت میں پیش ہوئے تو انہوں نے بھی وہی پاور شو کیا‘ جو اس طبقے کے ہمارے حکمران کرتے ہیں۔ جمہوری دنیا میں‘ جن کی مثالیں یہ دیتے ہیں‘ کسی کے خلاف الزامات ہوں تو وہ خود اور وکیلوں کے ساتھ پیش ہوتا ہے۔ یکجہتی کے لیے خاندان کے قریبی افراد ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو سیاست کا مقصد ہی دھڑے بندی ہے۔ جس پارٹی میں رہنا ہو‘ اپنا دھڑا ضروری ہے کہ کابینہ میں مناسب نمائندگی مل سکے‘ اور اگر حکومت کمزور اتحادوں کے زور پر چل رہی ہو‘ تو ہر جائز اور ناجائز کام اپنی گروہی طاقت کو بروئے کار لا کر ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ میں ذاتی طور پر ابھی تک جہانگیر ترین صاحب کے بارے میں حسنِ ظن رکھتا ہوں‘ شک کا فائدہ دینے کے لیے تیار ہوں‘ جب تک کہ ان کے خلاف کسی عدالت میں الزامات ثابت نہ ہو جائیں‘ مگر عدالتوں کو موقع تو دیں۔ فیصلے کی نوبت تو بعد میں آئے گی۔ ابھی مقدمہ ہی نہیں چلا‘ یا ابتدائی مرحلے میں ہے۔ ایسے میں یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ''انصاف‘‘ نہیں مل رہا کا واویلا شروع کر دیں اور اصرار کریں کہ عمران خان بطور وزیر اعظم پاکستان مداخلت کر کے کسی قریبی دوست کے خلاف تمام الزامات ردی کی ٹوکری میں ڈال دیں۔ ترین صاحب نے بھی اسی راستے کو منتخب کیا ہے جو سب حکمران گھرانوں کا پسندیدہ ہے۔ گروہ اکٹھا کرو‘ حکومت کو دھمکی دو کہ ہمارے راستے علیحدہ ہو سکتے ہیں‘ اور دیکھو کہ پچیس یا اس سے بھی کچھ زیادہ پنجاب اور قومی اسمبلی کے اراکین میری جیب میں ہیں‘ آپ کی حکومت گرا سکتے ہیں۔ انگریزی میں اسے ''بلیک میلنگ‘‘ کہتے ہیں‘ دھونس اور دھاندلی۔
دیکھتے ہیں جہانگیر ترین صاحب کا دھڑا کب تحریکِ انصاف سے علیحدہ ہو کر حزبِ اختلاف کی صفوں میں بیٹھتا ہے‘ یا فرداً فرداً ان کے حامی خواتین و حضرات اپنی پُرانی سیاسی جماعتوں میں واپس جانے کا اعلان فرماتے ہیں۔ ابھی تک تو مجھے یقین ہے کہ کپتان صاحب گیدڑ بھبکیوں سے مرعوب نہیں ہوں گے۔ وہ درست کہتے ہیں کہ اگر طاقتور کا احتساب نہیں ہو گا تو پھر دوسروں کا حساب کتاب کرنے کا جواز کیا ہے بنتا ہے؟ دو بڑے بادشاہی خاندانوں کی سیاسی زبان اب ہر زیرِ احتساب پاکستانی بولتا ہے کہ سازش کی گئی ہے‘ حکومت اداروں کو استعمال کر رہی ہے‘ تفتیش میں جانب داری برتی گئی ہے۔ چلو ہماری بات چھوڑ دیں کہ ہماری کیا اوقات کہ اس ملک کے حکمرانوں کی نیک نامیوں پر دھبہ لگائیں۔ پاناما پیپرز جو دنیا کے سامنے آئے تو پاکستان تک محدود نہ تھے۔ ساری دنیا کے ہیر پھیر کرنے والے اس میں شامل تھے۔ پانچ سو پاکستانیوں کے نام اس فہرست میں شامل تھے۔ ہمیں تو کبھی ان کی امانت داری یا ایمان داری پر یقین نہ تھا‘ کہ بین الاقوامی اخبارات اور رسائل میں تب سے ان کے قصے پڑھ رہے تھے‘ جب انہوں نے ایوانِ اقتدار کی دہلیز پر قدم رکھا تھا۔ جو راز پاناما پیپرز میں کھلے کوئی نئی بات نہ تھی‘ مگر وہ جو خدامِ پاکستان اور پنجاب بنے ہوئے تھے‘ ان کے اصلی چہرے دنیا کے سامنے آ گئے۔ پاکستانی عوام تو بس اتنا ہی شعور رکھتے ہیں‘ جتنا ہم انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کر سکے ہیں۔ یقین مانیں‘ ہر جگہ ان ارب پتیوں کی جگ ہنسائی ہوتی ہے۔ عزت صرف انہیں پاکستان کا عہدے دار ہونے کی وجہ سے ملتی ہے۔ دنیا بھر میں کہیں بھی غریبوں اور غریب ملکوں کا پیسہ لوٹ کر محل خریدنے والوں کی کوئی عزت نہیں۔ جاننے والے اشارے کر کے کہتے ہیں‘ یہ وہی ہیں‘ جو اپنے ملک کا پیسہ لوٹ کر یہاں عیش کر رہے ہیں۔ مغربی دنیا کے ممالک کے بڑے شہر ایسے حکمرانوں سے بھرے پڑے ہیں۔
بات انصاف کی ہو رہی تھی‘ کیسے ہو ؟ وہ پٹی تو آپ نے دیکھی ہو گی کہ ہماری حکومت کا لندن میں تعینات سفیر دستاویزات کے ڈبے رات کی تاریکی میں بذاتِ خود ہتھ ریڑھی پر لاد کر گاڑی میں ڈال رہا ہے۔ کوئی بات رہ جاتی ہے عزتِ نفس کی؟ بات عدالتوں میں آگے نہ بڑھ سکی کہ دفاع میں دلیل یہ دی گئی کہ نقل نہیں اصل ثبوت اور دستاویزات پیش کریں۔ یہ تو پُرانی باتیں ہو گئیں۔ کچھ کا خیال تھا جو ہو گیا‘ اب آگے رکاوٹیں ڈالیں۔ شاید کچھ بچت ہو جائے‘ بادشاہی خاندانوں کے سینکڑوں نہیں ہزاروں بے نامی کھاتے نوکروں کے نام‘ ریڑھی والوں کے نام کروڑوں جمع تفریق‘ بینک بھی اپنے‘ بینک کار بھی ذاتی ملازم‘ اور بھی بہت کچھ اثر میں‘ تو انصاف کہاں ہو گا؟
کپتان نے کرپشن کو ایک قومی مسئلہ تو ضرور بنایا ہے‘ عوام نے ان کا ساتھ بھی دیا ہے‘ مگر آخر میں سہارا انتخابی دھڑوں اور ایسے سیاسی اتحادیوں کا لیا جن کے خلاف ان کا بیانیہ تھا۔ آج وہ آنکھیں دکھا رہے ہیں‘ اور کیوں نہ دکھائیں کہ اگر پنجاب اسمبلی کے پچیس اراکین حکومت کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں تو بزدار صاحب کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانا کوئی مشکل نہ ہو گا۔ اگر عمران خان صاحب نے بھی حکومت برائے حکومت ہی کرنی ہے تو احتساب پر سمجھوتے بازی کئے بغیر یہ کیسے ممکن ہو گا؟ اگر گجرات کے چودھریوں کے خلاف احتساب کا عمل اس دلیل پر روکا جا سکتا ہے کہ اب یہ پُرانی باتیں ہیں تو یہ حربہ ہر سیاسی خاندان استعمال کرتا رہا ہے کہ جب ثبوت پکے ہوں‘ نا قابلِ تردید ہوں تو فیصلہ ہی نہ ہونے دیں۔ سالوں بلکہ دہائیوں سے مقدمات چل رہے ہوں تو کون سے شواہد اور کون سے گواہ باقی رہ جائیں گے کہ قبروں سے اُٹھ کر عدالتوں میں حاضر ہوں گے؟ اس بگڑے ہوئے نظام میں دھونس‘ دھاندلی کرنے والے معصومیت کی اداکاری خوب کرتے ہیں‘ اور کیا خوب نعرے لگاتے ہیں کہ ہمارے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا۔ یقین مانیں‘ اگر ان کے ساتھ انصاف ہو تو یہ باقی ساری زندگیاں جیل کی سلاخوں کے پیچھے بسر کریں۔ ظلم تو یہ ہے کہ اس ملک اور اس کے عوام کے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا کہ ہر ملزم آنکھیں دکھاتا ہے‘ رعب ڈالتا ہے اور عدالتوں پر چڑھائی کرتا ہے۔