تحریر : عبداللہ بابراعوان تاریخ اشاعت     19-04-2021

تسلسل اور مسلسل

اگر ہم بڑے کینوس پر دیکھیں تو تین کردار تاریخ کے پہلے ورق پر صاف دکھائی دیتے ہیں۔ اس سے مراد پری پارٹیشن تاریخ ہے‘جہاں پہلے نمبر پر لارڈ مائونٹ بیٹن اور سیرل ریڈکلف فرنگی استعمار کی طرف سے ‘ دوسرے نمبر پر اکھنڈ بھارت کی حامی ہندو قیادت ہے‘ جس کے خیال میں بھارت کے اندر ہی ایک چھوٹی سی بغلی یا طفیلی ریاست کو پاکستان کا نام دے دیا جائے بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ پلیٹ پہ رکھا ہوا ایک ایسا تَر نوالہ جس کو جب چاہے ہندو راج ڈکار لئے بغیر اپنے حلق سے اُتار کر ہضم کر دکھائے۔ تیسرے نمبر پر کانگریسی مولوی ہیں جن کی سوچ پر اُن کے اپنے اورخاندان کے علاوہ کوئی دوسرا لیڈر پورا نہیں اُترتا تھا۔ ان کے پاس سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ بانیٔ پاکستان حضرت قائد اعظم تقسیم ِہند کی 'غلطی‘ کر رہے تھے‘ جس کی وجہ سے بھارت میں مسلمانوں کی طاقت پر زَد پڑ جانے کی مسلسل پیش گوئی کی جا رہی تھی۔ اُس دور کے کانگریس کے حامی مولویوں کی تقریریں سنیں‘ آرکائیو سے ان کے پمفلٹ دیکھ لیں یا پھر اخباروں اور رسالوں میں ان کے بیانات پر نظر ڈالیں تو دنیا کی کوئی ایسی گالی اور عالمِ انسانیت کا کوئی ایسا الزام نہیں جو انہوں نے بر صغیر کے مسلمانوں کے سب سے بڑے محسن پر نہ لگایا ہو۔ اکثر الزامات ناقابلِ اشاعت تھے مگر دھڑلے سے شائع ہوتے رہے۔ اکثر تقریریں‘ جلسے اور مبارزے ناقابلِ بیان تھے‘ مگر گلیوں چوراہوں اور برٹش انڈیا کے کمپنی باغوں میں چسکے لے لے کر انہیں بیان کیا گیا۔ اس حوالے سے کانگریس کے خدمت گزاروں کے ناموں کی فہرست بڑی طویل ہے۔ ایسے خدمت گزار جو بر صغیر کے مسلمانوں کی سب سے بڑی تحریک کو بغیر کسی انجام کے ناکام اور بے مرام ٹھہرانے کے خواب دیکھتے رہے۔
پھر 1940ء کا سال آیا اور صرف سات سال ‘چارماہ اور22دن کے اندر پاکستان جیت گیا اور پاکستان کے تینوں طرح کے مخالفین کو حضرت قائد اعظم ؒ کی قیادت کے سامنے دھول چاٹنا پڑی۔ تاریخ نے تسلسل کے ساتھ ان تینوں طبقوں کو مسلسل غلط ثابت کیا۔اس تناظر میں کچھ باتیں بڑی دلچسپ ہیں ‘لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دلچسپ باتوں کو جان بوجھ کر بیان ہی نہیں کیا جاتا۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ 1947ء سے سال 1965ء تک بھارت سے آنے والے سکھ اور دوسرے مذہبی یاتریوں کے لیے اور پاکستان سے بھارت میں رہ جانے والے عزیزوں کو ملنے کے لیے جانے والے مسافروں کو پاک و ہند مشترکہ پاسپورٹ جاری کیا جاتا تھا۔ برٹش پاسپورٹ کے سرخ کلیجی رنگ والے اس پاسپورٹ کے باہر پاکستان اور انڈیا دونوں کا نام لکھا ہوتا تھا۔ اس تاریخی ٹریولنگ ڈاکیومنٹ کا حوالہ سامنے رکھنا اس لئے ضروری تھا کہ اس طرح کے بہت سے دوسرے اقدامات سے بھی بھارت دو طرح کے پروپیگنڈے کی مہم چلا رہا تھا۔ پہلا پروپیگنڈا مشرقی پنجاب کے سکھوں کو پارٹیشن میں علیحدہ شناخت نہ دینے کے بارے میں دلائل پر مبنی تھا جبکہ اسی کا دوسرا حصہ وہ مسلسل مہم تھی جس میں کانگریس نواز مسلم موقع پرست لیڈر اور ہندوئوں کے بڑے بڑے پولیٹیکل آئیکون واہگہ اور اٹاری بارڈر کے دونوں طرف کے انتظام کو عارضی کہتے تھے۔اتنا عارضی کہتے تھے کہ ساتھ یہ بھی کہہ جاتے کہ پاکستان ایک سال سے لے کر تین سال کے عرصے سے زیادہ بطور ریاست چل ہی نہیں سکتا ۔
اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اسلامیانِ پاکستان کی یہ ریاست تاریخ کا دھارا بدل کر آگے ہی بڑھتی چلی گئی اور آج اسلامی جمہوریہ پاکستان مسلم دنیا کی پہلی اور شاید آخری نیوکلیئر پاور سٹیٹ ‘سب سے بڑی فائٹنگ آرمی اور ایک دستوری نظام رکھنے والی آزاد‘ خود مختار اور طاقتور ترین ریاست ہے۔ پارٹیشن آف انڈیا ایکٹ اور اعلانِ آزادی کے بعد اس بحث میں اربوں کھربوں ڈالر اور روپے جھونکے جاتے رہے کہ دو قومی نظریے کا کوئی وجود نہیں ‘اس لئے پاکستان کے علیحدہ وجود کا بھی کوئی جواز نہیں تھا۔ بھارت میں اسی دوران مودی آگیا۔جس کے آتے ہی انڈیاکی ریاست کا اندرونی چہرہ کھل کر دنیا کے سامنے آگیا ‘جسے دیکھ کر بھارت میں جمہوری نازی اِزم کا پردہ چاک ہوگیا۔اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے بھارت کی تازہ ترین سٹریٹیجی کو ''کولڈ سٹارٹ‘‘ کا نام دیاگیا ہے‘ جس کو پاکستان کی سکیورٹی کے ذمہ دار اداروں نے پاکستان کے خلاف ''فِفتھ جنر یشن وار‘‘ کا نام دیا۔
پلوامہ فالس لیگ آپریشن کے نتیجے میں بھارتی فوج کی جانب سے مقبوضہ وادی ٔجموں و کشمیر کے مسلمانوں پر جس طرح کا غیر انسانی‘ ظالمانہ اور شرمناک کریک ڈائون کیا گیا ‘اس نے پاکستان کے اندر امن کی آشا والی '' فنڈنگ سَپری‘‘ کا حشر کر کے رکھ دیا۔اس سہولت کے چھن جانے سے جو لوگ بے روزگار ہوئے ‘ انہوں نے پاکستان کے خلاف ففتھ جنریشن وار کا محاذ چھوڑا نہیں‘ بلکہ بڑی محنت سے وہ نئے سپانسر اور فنانسر تراشنے میں کامیاب ہوگئے جس کے کچھ بہت ہی واضح اشارے اس طرح سے ہیں:
پہلا اشارہ:ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ امن کی آشا والی شناخت رکھنے والوں سے تیسری بار لائے گئے وزیر اعظم نے خطاب کرتے ہوئے یہ حیران کن انکشاف کیا کہ وہ اور بارڈر کی دوسری جانب‘ ایک ہی رب کی پوجا کرتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان ایک لکیر سی آ گئی ہے‘ ورنہ ہم ایک ہیں۔ موصوف یہاں تک آگے بڑھ گئے کہ گائو رَکھشا والوں سے کہہ ڈالا کہ ہم اور آپ ایک ہی طرح کا آلو گوشت کھاتے ہیں۔ پھر مودی کو خاندانی دوست کہہ کر بغیر ویزے اور امیگریشن کے اہل ِخانہ کے ساتھ اندر بٹھایا گیا اور پاکستان کی سلامتی کے ذمہ دار ادارے باہر جاتی اُمرا کی سڑک پر کھڑے دیکھتے رہ گئے۔ ریکارڈ کے لیے یہ کہنا ضروری ہے کہ جاتی امر ایک نہیں بلکہ دو ہیں‘ایک بھارت کے اندر اور دوسراضلع لاہور میں۔ اس حرکت شریف کا ری ایکشن بڑا زور دار تھا۔ جس کا ثبوت چھوٹے بھائی کی حکومت کے دوران چلائی جانے والی بڑے بھائی کی ''مجھے کیوں نکالا؟‘‘ والی مہم کی تاریخی ناکامی تھی۔
دوسرا اشارہ:پاکستان کے اندر عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے مختلف جتھوں کی ہائرنگ اینڈ فائرنگ کرنا ہے۔انڈین قومی سلامتی کے مشیر ہی نہیں بلکہ اُن کے فوجی بڑوں کے بار بار ایسے ویڈیو کلپ وائرل ہو رہے ہیں جن میں وہ پارلیمانی سیاست اور مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے مخصوص پاکستانیوں کو بھارت کے مفادات اور مؤقف کے حق میں استعمال کرنے کے دعوے کرتے ہیں۔یہی نہیں بلکہ یہاں تک کھل کر کہہ دیا گیا کہ ایسے قابلِ فروخت جتھوں کو مڈل ایسٹ کے بعض ملکوں کی کمپنیاں پے منٹ کر رہی ہیں ۔اتفاق سے یاد آگیا کہ پاکستان کے وزیر اعظم‘وزیر داخلہ ‘وزیر خارجہ اور وزیر دفاع تک انہی خلیجی ملکوں کی کمپنیوں میں ملازمت کے اقامے اور تنخواہ لینے کا اعتراف کر چکے ہیں۔ لاہور کے ایک بڑے سیاسی گھرانے کے سربراہ کو اسی حوالے سے ایک ویڈیو ٹاک میں بھارت کی انویسٹمنٹ اور بھارت کا سٹریٹیجک اثاثہ تک قرار دیا گیا۔ پاکستان کی اندرونی وحدت کسے مسلسل کھٹکتی ہے!بات صاف ظاہر ہے۔
پاکستان کے مصور نے ضربِ کلیم میں ''ہندی اسلام ‘‘کے عنوان سے اسی تسلسل پر مسلسل ضرب یوں لگائی۔
ہے زندہ فقط وحدتِ افکار سے ملت
وحدت ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد
وحدت کی حفاظت نہیں بے قوتِ بازو
آتی نہیں کچھ کام یہاں عقلِ خداداد
ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved