تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     19-04-2021

ہونی روکیاں رُکدی نئیں…

یوں لگتا ہے آئی ایم ایف کے سر پر حکومت سے سبھی پرانے حساب چکانے کی دھن سوار ہے۔ آئی ایم ایف کے خلاف شعلہ بیانیاں ہوں یا کنٹینر پر کھڑے ہو کر تبرّے‘ اقتصادی بدحالی کا ذمہ دار ٹھہرا کر آئی ایم ایف کے لتّے لینے والے کس طرح معاشی پالیسیوں پر وائٹ پیپر لہرایا کرتے تھے۔ برسرِ اقتدار آنے کے بعد آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے بجائے خود کشی کو ترجیح دینے والے آج انہی کی شرائط پر‘ انہی کا ماڈل اپنا چکے ہیں۔ وطنِ عزیز کی اقتصادی بساط پر ایک اور مہرہ اپنی پوزیشن سنبھال چکا ہے۔ تعجب ہے اس پر بھی حکومت کس قدر نازاں اور اترائی پھر رہی ہے۔ الغرض آئی ایم ایف کے خلاف سبھی بڑے بول ڈھول کا پول کھولتے دکھائی دے رہے ہیں۔
ہونی ہو کر رہتی ہے‘ ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔لگتا ہے عوام کے ساتھ ایک بار پھر ہاتھ ہو گیا‘ عوام کو بتایا گیا تھا کہ آپ کی معاشی بدحالی کی ذمہ دار وہ اقتصادی پالیسیاں ہیں جو آئی ایم ایف کے مطالبے پر بنائی جاتی ہیں۔ ٹیکسز کا نظام ہو یا پٹرولیم اور انرجی کی قیمتوں کا تعین‘ سبھی آئی ایم ایف کے اشاروں کا مرہون منت ہے۔ کنٹینر پر کھڑے ہو کر عوام کو یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ماہرین کی ایسی ٹیم کام کر رہی ہے جو برسرِ اقتدار آکر نا صرف آئی ایم ایف کا طوق ملک کے گلے سے اُتار پھینکے گی بلکہ ایسی آزادانہ اقتصادی اصلاحات کی جائیں گی جس کے براہِ راست اثرات عام آدمی کے چولہے تک جا پہنچیں گے۔ ہر طرف خوشحالی ہوگی‘ ترقی کا دور دورہ ہوگا‘ کاروبار چمک اٹھیں گے‘ صنعتوں کی چمنیوں سے نکلنے والا دھواں محنت کشوں کے لیے روزگار کی علامت ہوگا‘ پٹرول‘ گیس اور بجلی کی قیمتوں میں راتوں رات اضافہ کر کے عوام کی جیبوں پر ڈاکہ نہیں ڈالا جائے گا۔ پون صدی سے لٹتے اور مٹتے عوام ان سبھی بیانیوں اور وعدوں کو سچ مان کر 2018ء کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کو مینڈیٹ دے کر اپنے مقدر ان کے ہاتھ میں دے بیٹھے۔
برسرِ اقتدار آتے ہی وزیراعظم کی پہلی تقریر نے عوام کی خوش گمانیوں اور سنہرے مستقبل کے خوابوں کو چار چاند لگا دیے‘مگرخوش گمانیوں سے بھرے یہ لمحات بس عارضی ہی ثابت ہوئے۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا طرزِ حکمرانی کے جوہر عوام پر آشکار ہوتے چلے گئے‘ توں توں عوام کو یہ احساس ہوتا چلا گیا کہ ان سے ایک بار پھر وہی ہاتھ ہو گیا جو ہر الیکشن میں ہوتا رہا ہے۔ اس بار بھی وہ جسے نجات دہندہ سمجھتے رہے پھر اُس سے نجات حاصل کرنے کے لیے دعائیں مانگتے نظر آئے ۔ جو ٹیم اقتصادی اصلاحات پر کام کر رہی تھی اس نے معیشت کو فوری سنبھالا دینے کے لیے ایک اچھوتا فارمولا ایجاد کیا کہ وزیر اعظم ہاؤس کی بھینسیں اور گاڑیاں نیلام عام کے لیے لگا دی جائیں کہ اس طرح سے حاصل ہونے والی رقم سے قومی خزانے کا خسارہ پورا کیا جائے۔یہ نیلامی کئی مہینے چلتی رہی اور اس کا اختتام کسی قدر جگ ہنسائی پرہوا۔
حکمران ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے طرزِ حکمرانی اور من مانی سے لے کر عوام کی حالتِ زار تک لکھنا بھی چاہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے الفاظ دھاڑیں مار رہے ہوں‘ سطروں سے خون ٹپک رہا ہو‘اعراب آبلہ پا ہوں‘ قلم کے ساتھ کاغذ بھی سینہ کوبی پر آمادہ ہو‘ برس ہا برس بیت گئے‘ کتنے ہی حکمران بدل گئے‘ کتنی ہی رتیں اور موسم آکر گزر گئے‘ لیکن عوام کی قسمت بدلنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ کوئی آسیب ہے یا نظر بدکہ عوام کی حالت ِزار جوں کی توں اور بد سے بدتر ہوتی چلی جارہی ہے۔ہر آنے والا حکمران خرابی سابقہ حکمرانوں کے کھاتے میں ڈال کر اوراپنے حصے کی خرابی کرکے‘ خود کو دودھ کا دھلا بتاکر چلتا بنا۔ اہم اور ملکی استحکام سے منسوب اداروں کو نقصان پہنچانے سے لے کر سرکاری وسائل کو لوٹنے تک یوں محسوس ہوتا ہے کہ بدترین طرز ِحکمرانی کا ایک مقابلہ ہے۔ نیت اور ارادوں سے لے کر فیصلوں اور اقدامات تک ہر طرف خرابی ہی خرابی دکھائی دیتی ہے۔ دورِ حکومت نواز شریف کا ہو یا بے نظیر کا‘ پرویز مشرف کاہو یا آصف علی زرداری کا‘ سبھی نے اپنے ہی عوام سے اپنے اپنے حصے کا تاوان وصول کرنے کے بعد ملک و قوم کو ادھ موا کرڈالا۔ اقتصادی اور معاشی ماہرین سمیت گورننس اور میرٹ کے چیمپئنز کی ایک ٹیم پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی صورت میں برسراقتدار تو آگئی لیکن ان سبھی کی قابلیت اور اہلیت نامعلوم اور کارکردگی صفر سے بھی گئی گزری نکلی ہے۔
اقتصادی ٹیم کے چیمپئن اسد عمر ابتدائی چند اوورز میں ہی بولڈ ہو گئے اور اس کے بعد یہ عقدہ کھلا کہ نہ ماہرین کی کوئی ٹیم تھی اور نہ ہی کوئی ہوم ورک ہو رہا تھا۔ سب زبانی جمع خرچ اور الفاظ کا گورکھ دھندا تھا جسے انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔ معین قریشی سے لے کر شوکت عزیز تک‘ حفیظ شیخ سے لے کر رضا باقر تک‘ حفیظ پاشا سے لے کر شوکت ترین تک ‘نجانے کتنے کردار ہیں جن کی اس ملک و قوم سے کوئی وابستگی ہے اور نہ ہی درد۔ دورِ حکومت کسی کا بھی ہو‘ یہ سبھی ادوار میں بیرونی ایجنڈوں کے ساتھ نازل ہوتے ہیں اور اپنے اپنے ٹارگٹ پورے کر کے چلتے بنتے ہیں۔ ان کی نیت اور ارادوں کے نتیجے میں ہونے والے تباہی کی ندامت کا بوجھ ہر حکمران ہنسی خوشی اٹھائے پھرتا ہے۔ حفیظ شیخ کے بعد حکومت نے حماد اظہر کو وزارتِ خزانہ کا قلمدان دے کر یہ تاثر دیا تھا کہ حکومت میں کوئی ایسا گوہرِ نایاب بھی ہے جو اقتصادی اصلاحات کے ساتھ ساتھ معیشت کو سنبھالا دے سکتا ہے لیکن انہوں نے ابھی وزارت کا قلمدان چھوا بھی نہیں تھا کہ شوکت ترین کو وزیر خزانہ بنانے کی چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں‘ جس پر شوکت ترین نے پہلا مطالبہ یہ رکھا کہ اگر انہیں وزیر خزانہ بنانا ہے تو ان پر نیب کے جو کیسز چل رہے ہیں پہلے وہ ختم کئے جائیں۔ حکومت نے شوکت ترین کی خواہش کو اتنا سیریس لیا کہ انہیں نیب زدہ ہونے کے باوجود وزیر خزانہ بنانے میں دیر نہ کی۔ ایسا کرتے ہوئے نہ کسی کو آرٹیکل 62‘63 یاد آیا اور نہ ہی سماجی انصاف اور کڑا احتساب جیسے بیانیوں کی لاج آئی۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت انہیں مقررہ مدت میں سینیٹ یا قومی اسمبلی میں پہنچانے کے لیے کیا حکمتِ عملی اختیار کرتی ہے۔ احتساب کا بوجھ اٹھائے وہ کس طرح منتخب ہوں گے‘ ان کے کاغذات نامزدگی منظور کرنے کے لیے کیسے کیسے عذر اور جواز تراشے جائیں گے ؟ تاہم یہ دردحکومت کا ہے کیونکہ ؎
جو دِل کو لبھانے کا ڈھب جانتے ہیں
وہ ترکیب ورکیب سب جانتے ہیں
اولین ترجیح تو ان احکامات کی پاسداری ہے جو آئی ایم ایف سے آتے ہیں۔ یہ احکامات کوئی نئے نہیں ہیں‘ یہ ہمیشہ سے ہی آتے رہے ہیں اور ان احکامات پر عملداری کے لیے وہ اپنے ٹرینڈ بندے بھی بھجواتے رہتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ماضی کے حکمران اچھے بچوں کی طرح چپ چاپ‘ صرف اشاروں پر حکم بجا لاتے تھے جبکہ موجودہ حکومت کو یہ کڑوی گولی اس طرح کھلانا پڑی جیسے کسی بچے کو جکڑ کر دوا پلائی جاتی ہے‘ تاہم تنقید سے تائید کا یہ سفر انصاف سرکار نے ریکارڈ مدت میں طے تو کر لیا ہے اور آئندہ بھی یہ عمل یونہی جاری رہے گی کیونکہ اقتدار کی نصف مدت تو پوری کی جا چکی ہے‘ بقیہ مدت بھی مٹھی میں ریت کی مانند سرکتی جارہی ہے۔ ایسے میں باقی ماندہ مدت اقتدار کے بقیہ شوق پورے کرنے کے لیے غنیمت ہے۔ چلتے چلتے عرض کرتا چلوں کہ حکومت کو یہ باور ہو چکا ہے کہ ان کے بیانیے ہوں یا دعوے اور وعدے ‘ان سبھی کی اہمیت اور حیثیت آئی ایم ایف سے بڑھ کر نہیں ہے۔ یہ وہ ہونی ہے جو ہر دور میں ہو کر رہتی ہے؎
جو ہویا اے ہونا ای سی
ہونی روکیاں رُکدی نئیں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved