تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     05-07-2013

چراغ جلتا رہے

مفاد پرستی سے بھرے حبس زدہ معاشرے میں عبدالستار ایدھی تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح، ایک روشن چراغ ہے جو غربت، بے کسی اور بے بسی کے اندھیروں میں لوگوں کو امید کی روشنی دیتا ہے۔ وہ برگد کا ایک ایسا گھنا پیڑ ہے جو تپتی دھوپ میں جلتے لوگوں کو سائے کی ٹھنڈک مہیا کرتا ہے۔ دشمن بھی جو چاہے تو مری چھائوں میں بیٹھے میں ایک گھنا پیڑ سرِراہ گزر ہوں اس کا کام اور اس کی زندگی اس شعر کے ایک ایک لفظ کی تفسیر ہے۔ وہ مذہب، مسلک، فرقوں اور ذات پات کے فرق سے ماورا ہو کر معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے ،رد کیے ہوئے ،گرے ہوئے لوگوں کو اپنے سینے لگاتا ہے، ان کے آنسوئوں کو اپنی پوروں میں جذب کرتا ہے۔ مائیں جن بچوں کو کوڑے دانوں میں پھینک جاتی ہیں، وہ انہیں اپنی محبت کے جھولے میں پروان چڑھاتا ہے۔ وہ بے گھر اور لاوارث لوگوں کو چھت مہیا کرتا ہے، معاشرے کی دھتکاری ہوئی بیٹیوں کا باپ بن کر ان کے سر پر ہاتھ رکھتا ہے اور ہر ممکن کوشش کرکے ان کے گھروں کو بسانے کی سعی کرتا ہے۔ اداس اور بجھے ہوئے چہروں پر مسکراہٹ کی ایک رمق لانے کے لیے وہ کیا کیا جتن نہیں کرتا۔ وہ لاوارث بچوں کے ساتھ اپنی عیدیں اور تہوار مناتا ہے، جنہیں ان کے خون کے رشتے ٹھکر ا دیتے ہیں، وہ ان رد کیے ہوئے لوگوں کے لیے زندگی کی علامت بن جاتا ہے۔ آج بھی بے حس اور سنگدل لوگ جب اپنے معذور رشتوں کو اپنے اوپر بوجھ سمجھتے ہیں تو رات کے اندھیرے میں ایدھی سنٹر چھوڑ آتے ہیں، اس یقین کے ساتھ کہ یہاں وہ شخص موجود ہے جو اس بوجھ کو بخوشی اٹھا لے گا۔ ایک رفوگر کی طرح، عبدالستار ایدھی پھٹے ہوئے اور ادھڑے دلوں کی رفوگری کرتاہے۔ یہ عظیم انسان پاکستان کا فخر ہے۔ لوگوں کے ساتھ اس کا اعتماد اور اعتبار کا وہ رشتہ ہے کہ مخیر لوگ امداد دے کر رسید بھی نہیں لینا چاہتے۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کی خیرات کی ایک ایک پائی، خیر اور فلاح کے رستے میں استعمال ہوگی۔خدمت خلق کے اس ادارے کے دفاتربھی دیکھیں تو انتہائی غریبانہ اور درویشانہ ’’انٹیرئیر‘‘ نظر آتا ہے۔ جو مکمل طور پر ایدھی کی اپنی شخصیت کا عکس ہے۔ دنیا بھر کے لوگوں کے زخموں کا مسیحا یہ شخص کھدر کے اونچے کرتے میں ملبوس سر پر جناح کیپ رکھے ہوئے اپنے درویشانہ حلیے کے ساتھ ہجوم میں بھی نمایاں نظر آتا ہے۔ سب کے دکھوں کو اپنا دکھ سمجھنے والا ایدھی بھی ایک انسان ہی تو ہے۔ جسے لوگ مسیحا سمجھتے ہیں، خود وہ بھی تو بیمار ہوسکتا ہے۔ اس کا احساس اس وقت ہوا جب چند روز پیشتر مختلف ٹی وی چینلز پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے، پاکستان کے معروف یورالوجسٹ ڈاکٹر ادیب رضوی نے بتایا کہ مسیحا خود ایک تکلیف دہ بیماری کا شکار ہوگیا ہے۔ اس میں ان کے دونوں گردے فیل ہوگئے ہیں اور اب اس کا فوری علاج یہی ہے کہ بیرونی طور پر گردوں کو صفائی کے عمل سے گزارا جائے۔ یعنی ڈائیلاسسز کیا جائے اور دوسرا علاج یہ ہے کہ صحیح صحیح Match ملنے پر گردے کی پیوندکاری کی جائے۔ اس پریس کانفرنس میں عبدالستار ایدھی خود بھی موجود تھے۔ لوگوں کے دکھوں پر تڑپنے والا ایدھی، اپنی تکلیف پر خاموش اور با صبر دکھائی دیا۔ وہی بے رنگ سا کھدر کا کرتا اور سر پر جناح کیپ پہنے ہوئے، اپنے ڈاکٹر کے ہمراہ بیٹھا ایدھی بہت مطمئن سا دکھائی دیا۔ مجھے یقین ہے کہ ایدھی کی بیماری کی خبر سب کے دلوں کو اداس کر گئی ہوگی۔ سچی بات ہے مجھے تو یہ ایک انہونی سی لگی، کہ ایسا کیسے ہوگیا، جس شخص کو ربّ نے ہزاروں لوگوں کے درد کا مداوا بنا یا ہو، جسے ہزاروں لوگوں کے دل کی دعائیں لگتی ہوں، وہ کیسے اتنا شدید بیمار ہوسکتا ہے۔ پھر خیال آیا کہ ربّ اپنے پیارے بندوں ہی کو تو آزمائش کے لیے چُنتا ہے۔ کتاب مبین میں بھی یہی ارشاد ہے جس کا مفہوم ہے کہ خدا تمہیں جان ، مال اور اولاد کے نقصان سے آزمائے گا۔ اپنی زندگی خدا کے بندوں کے لیے وقف کرنے والا ایدھی حقیقتاً اس آزمائش پر بھی پورا اترے گا۔ کچھ عرصہ پہلے ایدھی کی زندگی پر بنائی گئی ایک خصوصی ڈاکومنٹری دیکھی جس میں ایدھی کی زندگی کے ایک بڑے دکھ سے پردہ اٹھایا گیا۔ یہ عجیب واقعہ دیکھیے کہ ربّ اپنے بندوں کو کیسے کیسے آزماتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ایدھی کا چار سالہ نواسہ بلال اپنے نانا کی آنکھ کا تارا تھا۔ دن بھر کی تھکن کے بعد بلال، ایدھی کے لیے آرام اور آسودگی کا باعث تھا۔ اپنے لاڈلے نواسے کے ساتھ ایدھی کھانا کھاتے، کھیلتے اور بے پناہ مصروف شب و روز میں بھی یہ ننھا بچہ اپنے نانا کا وقت چرا لیتا۔ پھر ایک روز عجیب سانحہ ہوا۔ لاوارث عورتوں کے مرکز کے ساتھ ہی بلال اپنی والدہ، نانی بلقیس ایدھی کے ساتھ رہتا تھا۔ ایدھی مرکز میں رہنے والی ایک ذہنی معذور عورت نے اُبلتا ہوا گرم پانی بلال پر ڈال دیا۔ ننھا بچہ جھلس کر رہ گیا اور زخموں سے جانبر نہ ہو سکا۔ ایدھی کے قریبی لوگوں کا کہنا ہے‘ آج بھی انہوں نے کئی بار اس ننھی قبر پر سر جھکائے ایدھی کو آنسو بہاتے دیکھا ہے۔ وہ شخص جو شہر بھر کی لاوارث لاشوں کو بڑے حوصلے اور ہمت سے کفن پہناتا ہے، ایک ننھی سی قبر پر جا کر اپنا ضبط کھو دیتا ہے۔ یہاں ایدھی کا امتحان تھا کہ وہ اُس ذہنی معذور عورت کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ اس شخص کی عظمت پر آفرین ہے۔ ایدھی نے اُسے معاف کردیا۔ شاید وہ آج بھی ایدھی سنٹر میں رہ رہی ہو گی۔ جب میں نے یہ واقعہ سنا تو میں حیرت میں گُم ہو گئی کہ ربّ بھی کتنا بے نیاز ہے ۔جو شخص سینکڑوں لاوارث بچوں کو خوشیاں دیتا ہے‘ اس کی واحد خوشی‘ ننھا بلال قدرت کس طرح اس سے واپس لے لیتی ہے۔ ایدھی اس امتحان میں بھی پورا اترا۔ اس شعر کا مطلب شاید اب سمجھ میں آ جائے کہ مکتبِ عشق کا دستور نرالا دیکھا اُس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا ہر پاکستانی کا دل دعا گو ہے کہ ایدھی کو اللہ تعالیٰ صحتِ کاملہ عطا کرے۔ ابھی انٹرنیٹ پر جا کر دیکھیں۔ ایدھی سے محبت کرنے والے سینکڑوں لوگ اپنا گردہ ایدھی کو ڈونیٹ کرنے کے لیے حاضر ہیں۔ اس لیے برگد کا پیڑ سلامت رہے… اور اُمید کا چراغ جلتا رہے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved