شوکت ترین صاحب پاکستان کے نئے وزیر خزانہ تعینات کر دیے گئے ہیں۔ یہ کب تک وزیر رہتے ہیں اس بارے کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن موجودہ حکومت کے طرزِ عمل کو دیکھتے ہوئے یہ بات سامنے آتی ہے کہ بتیس مہینوں میں چار وزیر خزانہ لگائے گئے ہیں۔ اوسطاً ایک وزیر کو کام کرنے کے لیے دس مہینے میسر آئے ہیں۔ ان میں حماد اظہر کے حصے میں سب سے کم وقت آیا جو ممکنہ طور پر ان کی خوش قسمتی کی علامت ہے کیونکہ ماہرین کے مطابق‘ پاکستان کی موجودہ اکانومی کے لیے اگر دنیا کا بہترین وزیر خزانہ بھی منتخب کر لیا جائے تو معیشت کے راہِ راست پر آنے کے امکانات کم ہیں۔ ہمارا معاشی نظام صرف ایک جگہ سے بوسیدہ نہیں ہے بلکہ اس چادر میں سلائی کم اور پیوند زیادہ ہیں۔ سونے پر سہاگا حکومت کا رویہ ہے۔ سرکاری عہدوں پر تعیناتی کے حوالے سے اتنی غیر مستقل مزاجی شاید پہلے کسی حکومت میں نہ تھی جتنی تحریک انصاف کے دور میں دیکھنے کو ملی ہے لیکن افسوس کے سوا کچھ کیا بھی نہیں جا سکتا۔
وزارتِ خزانہ اور ایف بی آر کا چولی دامن کا ساتھ ہے‘ اگر وزارتِ خزانہ میں کام نہیں ہو گا تو ایف بی آر میں بھی حالات مخدوش رہیں گے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے تین زونز کے 1150 کیسز میں اوسطاً ایک کیس سے ریکوری صرف چار ملین روپے ہے جو انتہائی غیر تسلی بخش ہے۔ آف شور ٹیکس چوری کے معاملات پر پیش رفت سست روی کا شکار ہے جبکہ وزیراعظم عمران خان اس بات پر ہمیشہ زور دیتے آئے ہیں کہ جن لوگوں نے ملک کا پیسہ لوٹا ہے یا غیر قانونی طور پر ملک سے پیسہ باہر لے کر گئے ہیں‘ ان کے احتساب کا عمل تیز ہونا چاہیے۔ لوٹی ہوئی دولت پاکستان آئے گی تو ترقی ممکن ہو سکے گی۔ ایف بی آر ہیڈ کوارٹر نے 260 ارب روپے فراڈ ریکوری کے 1580 کیسز لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں آٹومیٹک ایکسچینج آف انفارمیشن کے تین زونز کو منتقل کیے تھے۔ پچھلے ماہ کی رپورٹ کے مطابق‘ 1150کیسز کی ٹوٹل ریکوری چار اعشاریہ چھ ارب روپے یا 30 ملین ڈالرز ہے۔ تحریک انصاف نے لوٹے گئے بلینز آف ڈالر ریکور کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن صورتِ حال یہ ہے کہ ڈائریکٹر جنرل آف انٹرنیشنل ٹیکسز ایف بی آر کا سب سے زیادہ نظر انداز کیا جانے والا شعبہ ہے۔ ریکارڈ کے مطابق تقریباً پچھلے ایک سال سے اس شعبے کا کوئی ڈی جی تعینات نہیں کیا گیا جبکہ سینئر حکومتی وزرا آج بھی یہ اعلان کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ وزیراعظم صاحب کے لیے سب سے پہلی ترجیح لوٹی ہوئی دولت واپس لانا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس طرح کی غیر سنجیدگی سے دولت واپس لائی جا سکتی ہے؟ یہ باتیں زیر گردش ہیں کہ مبینہ طور پر بوجوہ کیسز کو طول دیا جا رہا ہے، اس کے علاوہ بھی بہت زیادہ شکایات درج ہوئی ہیں جس میں ڈیپارٹمنٹ افسران پر رشوت لے کر ملی بھگت کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ شکایت کنندہ یہ کنفرم کر رہے ہیں کہ انہوں نے یہ سارے معاملات سابق وفاقی وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ صاحب کے بھی گوش گزار کیے تھے۔
اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ ایف ٹی او آفس نے معاملے کی تحقیقات کے لیے سوموٹو ایکشن لیا ہے تاکہ معاملے کی جڑ تک پہنچا جا سکے۔ واضح رہے کہ ایف ٹی او ایک سرکاری ادارہ ہے جس کا کام ایف بی آر افسران کے خلاف شکایات سننا، جانچ پڑتال کرنا اور سزا کا تعین کرنا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ملک کے کچھ دوسرے اداروں کی طرح اس سے بھی زیادہ امیدیں وابستہ نہیں ہیں لیکن کاغذی کارروائی کی حد تک کام ہو رہا ہے۔ چند روز قبل ایف ٹی او نے ایف بی آر کو ایک نوٹس بھیجا جس میں پوچھا گیا ہے کہ تینوں زون کے کن افسران کے خلاف ایکشن لیا جانا چاہیے؟ معاملے کو شفاف رکھنے کے لیے ایف ٹی او اور ایف بی آر سے ایک ایک آفیسر لیا گیا ہے جو سارے معاملے کی تحقیقات کرے گا۔ تحقیقات میں ایف بی آر کا نمائندہ اس لیے شامل کیا جاتا ہے کہ یہ اعتراض نہ اٹھایا جا سکے کہ تحقیقات یک طرفہ ہوئی ہیں جبکہ ایف ٹی او آرڈیننس کے آرٹیکل 9 کے مطابق ایف ٹی او اگر چاہے تو اکیلا بھی ریونیو ڈویژن اور ایف بی آر آفیشلز کے خلاف تحقیقات کر سکتا ہے۔
اس وقت ایف بی آر کی کارکردگی کی صورتِ حال یہ ہے کہ 260 ارب روپے کے کیسز میں سے صرف 53 ارب قابل ٹیکس رقم نکالی گئی ہے جس میں سے محض 14 ارب کی ٹیکس ریکوری کی نشاندہی کی گئی ہے اور اس میں سے بھی صرف چار اعشاریہ چھ ارب روپے ریکور کیے گئے ہیں۔ 430 کیسز اب بھی التوا کا شکار ہیں جن پر تاحال فیصلہ نہ ہونے کی کوئی مضبوط دلیل موجود نہیں ہے۔ لاہور‘ کراچی اور اسلام آباد زونز کی اگر بات کی جائے تو کراچی کی کارکردگی سب سے کمزور ہے۔ جتنی ویلیو کے کیسز کراچی بھیجے گئے تھے ان میں سے صرف 15 فیصد پر کام ہوا ہے۔ لاہور میں یہ شرح 26 فیصد اور اسلام آباد میں 29 فیصد ہے۔ ایف بی آر نے 152 ارب روپے کے 900 کیسز کراچی بھجوائے تھے جن میں صرف 23 ارب روپے کے کیسز قابل ٹیکس تھے۔ 900 میں سے 624 کیسز پر پانچ اعشاریہ ایک ارب روپے کی ٹیکس ڈیمانڈ بنائی گئی اور تین اعشاریہ ایک ارب روپے ریکوری کی گئی۔ 275 کیسز اب بھی زیر التوا ہیں۔ لاہور زون میں 368 کیسز بھجوائے گئے جن کی ویلیو 49 ارب روپے تھی۔ اس میں سے 13 ارب روپے کی قابل ٹیکس رقم نکالی گئی اور 4 ارب روپے کی ٹیکس ڈیمانڈ بنائی گئی جس میں سے ایک اعشاریہ ایک ارب روپے ریکور کیا گیا۔ 82 کیسز پر فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ اسلام باد کو 60 ارب روپے کے 312 کیسز بھجوائے گئے تھے جس میں سے قابل ٹیکس رقم 17 ارب روپے تھی۔ پانچ اعشاریہ ایک ارب روپے کی ٹیکس ڈیمانڈ بنائی گئیں اور 305 ملین روپے ریکور کیے گئے۔ 74 کیسز ابھی زیر التوا ہیں۔ ایف بی آر کے ایک آفیسر کے مطابق قابل ٹیکس رقم اور بھجوائے گئے کیسز میں زیادہ فرق کی وجہ بیرونِ ملک مقیم ایسے پاکستانی ہیں جن پر پاکستان میں ٹیکس لاگو نہیں ہوتا۔ چونکہ معاملے پر تحقیقات ہو رہی ہیں‘ اس لیے کسی دعوے کو من و عن تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایف بی آر کے ایک چھوٹے سے شعبے کی کارکردگی ہے‘ اگر مکمل پرفارمنس کا جائزہ لیا جائے تو مایوسی مزید بڑھ جائے گی۔ اس کے علاوہ اگر تحقیقی جائزہ دیگر محکموں تک بڑھا لیا جائے تو تسلی بخش رپورٹ آنے کے امکانات بالکل معدوم ہو جاتے ہیں۔
اس وقت جو مسئلہ ہر شعبے میں نمایاں ہو کر سامنے آ رہا ہے وہ پالیسی میں عدم تسلسل اور عدم استحکام کا ہے۔ ایک شخص کو ایک سیٹ پر تعینات کیا جاتا ہے تو چند دنوں یا چند ہفتوں بعد ہی اسے وہاں سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ اربابِ اختیار کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ملک میں ترقی کی سمت اس وقت تک درست نہیں ہو سکتی جب تک فیصلوں میں پختگی اور مستقل مزاجی کو یقینی نہیں بنایا جاتا۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ افسران اور وزرا کی تبدیلی میں مستقل مزاجی دکھائی جائے اور اس پر فخر کیا جائے۔ جب کسی فرد کو کسی عہدے پر تعینات کر دیا جائے تو اس کے بعد اسے فری ہینڈ دیا جائے اور مناسب وقت دیا جائے تاکہ وہ اپنی پالیسیوں کا نفاذ یقینی بنا کر ان کے نتائج حاصل کر سکے۔ ہر چند ہفتوں بعد نیا بندہ تعینات کر دینا‘ ایسا رویہ شاید کھیل کے میدان میں تو کامیاب ہو سکتا ہو‘ جہاں بار بار فیلڈر بدل کر بہتر کارکردگی دکھائی جا سکتی ہے کہ فیصلہ اگر غلط بھی ثابت ہو جائے تو اگلے سیکنڈ میں دوبارہ پرانی فیلڈنگ بحال کر کے اس کا ازالہ کیا جا سکتا ہے لیکن ملک چلانے بالکل بھی معاون ثابت نہیں ہوتا۔ کھیل اور ملک چلانے میں فرق ہوتا ہے۔ یہاں ایک تبدیلی پورے ملک میں روزگار اور کاروبار کے مستقبل کا فیصلہ کرتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ذہن نشین رکھیں کہ ضروری نہیں ہے کہ اگر ایک فارمولے سے آپ ایک شعبے میں کامیاب ہوئے ہیں تو اسی فارمولے سے دوسرے شعبے میں بھی کامیاب ہو جائیں گے۔