تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     19-04-2021

ڈھلتی عمر کا فسانہ

جو آیا ہے‘ اُسے جانا ہے۔ دنیا میں کسی کا قیام ہمیشہ کے لیے نہیں۔ ہمیشہ کی زندگی آخرت کی ہے۔ اگر کوئی اس دنیا میں اپنے آپ کو زندہ رکھنا چاہتا ہے تو لازم ہے کہ کچھ ایسا کرکے جائے کہ لوگ اچھے الفاظ میں یاد رکھیں۔ لوگ کسی کو اچھے الفاظ میں اُسی وقت یاد رکھتے ہیں جب وہ رفاہِ عامہ کا خیال رکھتے ہوئے کچھ کرتا ہے۔ جس کی ذات سے کسی کو بہت زیادہ فائدہ پہنچے اُسے تادیر یاد رکھا جاتا ہے۔
ہر دن ہمیں ایک دن بوڑھا کرکے رخصت ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ ہم ہر روز بڑھاپے کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔ عمر واحد معاملہ ہے جس میں صرف اضافہ ہوتا ہے۔ ہمارا جسم رفتہ رفتہ کمزور پڑتا جاتا ہے۔ جسم لاپروائی برتنے کی صورت میں بھی کمزور پڑتا ہے۔ اگر کوئی کھانے پینے کے معاملات میں احتیاط نہ برتے یا غیر صحتمند ماحول میں وقت گزارنے کو ترجیح دے تو صحت کا گراف نیچے آتا ہے مگر یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ انسان اگر اپنا بہت خیال رکھے تب بھی جسم ڈھلتی عمر میں ڈھلنے لگتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ بڑھاپا تین مراحل میں وارد ہوتا ہے؛ 34، 60 اور 78 سال کی عمر میں۔ عمر کے مختلف مراحل میں جسم کی کیفیت مختلف ہوتی ہے۔ عمر کا ہر مرحلہ جسم کے لیے مختلف اثرات لاتا ہے۔ جوانی میں پورا جسم بہترین حالت میں ہوتا ہے۔ ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں، خون میں طاقت پائی جاتی ہے، خون کی روانی بھی جوبن پر ہوتی ہے۔ تمام اعضائے رئیسہ بہترین حالت میں کام کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں انسان ڈھنگ سے جیے جاتا ہے۔ بڑھاپے کی ابتدا جوانی کے گزرتے ہی ہوتی ہے۔ یہ عمل قدرے غیر محسوس ہوتا ہے۔ ہمارے جسم میں کمزوری پیدا ہوتی ہے مگر ہمیں فوری طور پر اس کا اندازہ و احساس نہیں ہو پاتا۔ ماہرین کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ بڑھاپا یکساں رفتار سے نہیں آتا۔ ہم عمر کے مختلف ادوار مختلف نوعیت یا کیفیت کے بڑھاپے کے حامل ہوتے ہیں۔
جوانی کا زمانہ گزرتے ہی وارد ہونے والا بڑھاپے کا مرحلہ ہمارے لیے زیادہ الجھنیں نہیں لاتا۔ جسم خاصی بہتر حالت میں ہوتا ہے اور کمزوری کے اثرات ہمیں زیادہ محسوس نہیں ہوتے۔ ماہرین کے خیال میں یہی وقت اپنے آپ پر دھیان دینے کا ہوتا ہے۔ جسم کی مجموعی طاقت اور حرارت خامی یا کمزوری کا احساس نہیں ہونے دیتی۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ خامی یا کمزوری موجود نہیں ہوتی۔ ماہرین کی رائے یہ ہے کہ عمر کے جن جن مراحل میں بڑھاپے کی آمد ہوتی ہے یعنی جسم کے کمزور پڑنے کا عمل تیز ہوتا ہے اُن مراحل میں غیر معمولی احتیاط برتی جانی چاہیے۔ جسم کو زیادہ سے زیادہ توانا رکھنے کے لیے جو کچھ بھی کرنا ناگزیر ہو‘ وہ کیا جائے اور جن چیزوں سے اجتناب برتنا لازم ہو اُن سے اجتناب ہی برتا جائے۔
کیا ہم بڑھاپے کے لیے خود کو تیار کرتے ہیں یا تیار کرنے کا سوچتے ہیں؟ افسوس کہ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ ہم میں سے کون ہے جسے بوڑھا نہیں ہونا؟ کون ہے جو بڑھاپے کی سختیاں جھیل کر دنیا سے رخصت نہیں ہوگا؟ یہ دونوں سوال بہت اہم ہیں کیونکہ ہم میں سے ہر ایک کو بچپن، لڑکپن اور جوانی کے بعد بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھنا ہی ہوتا ہے۔ اس مرحلے کے لیے خود کو تیار کیے بغیر چارہ نہیں۔ جن کی طرزِ فکر و عمل میں لاپروائی واضح ہو وہ ڈھلتی عمر میں اپنے سامنے صرف مشکلات کو پاتے ہیں۔ ڈھلتی عمر کا سب سے بڑا تقاضا سنجیدگی ہے۔ انسان نے جوانی چاہے جتنی شوخ گزاری ہو، ڈھلتی عمر میں سنجیدگی اُس کی بنیادی ضرورت ہوتی ہے اور ماحول کا بھی اُس سے یہی تقاضا ہوتا ہے۔ بڑی عمر کا انسان تجربے کا حامل ہوتا ہے‘ وہ اپنے تجربے سے دوسروں کو مستفیض کرسکتا ہے۔ نئی نسل کو بڑی عمر کے لوگوں سے بہت کچھ سیکھنے کو مل سکتا ہے۔ یہ سب کچھ اس وقت ممکن ہے جب ڈھلتی عمر کے لوگ سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے دوسروں کو کچھ دینے کے لیے تیار ہوں۔ بوڑھا ہونے کا عمل عموماً انسان کو مایوسی میں مبتلا کرتا جاتا ہے۔ جو بالغ نظری کے حامل نہ ہوں وہ ڈھلتی ہوئی عمر میں یہ سوچ سوچ کر پریشان رہتے ہیں کہ اب اِس دنیا سے جانا ہے۔ عمر کا ہر مرحلہ ہمیں کچھ نہ کچھ سکھانے ہی کے لیے ہوتا ہے۔ ڈھلتی ہوئی عمر بھی ہمیں بہت کچھ دیتی ہے۔ انسان نے زندگی بھر جو کچھ کیا ہو اُسے یاد کرے، یادوں کو منظّم شکل میں دنیا کے سامنے پیش کرے۔ ڈھلتی عمر انسان کا تھوڑا سا رجحان مذہب کی طرف بھی کرتی ہے۔ جن کے ذہن میں آخرت کا تصور زندگی بھر موہوم سا رہا ہو وہ ڈھلتی عمر میں آخرت کے حوالے سے زیادہ سوچنے کی تحریک پاتے ہیں۔ اس دنیا کو چھوڑ کر جانے کا تصور انسان کو ایک طرف تو مایوس کرتا ہے اور دوسری طرف اس بات کی تحریک بھی دیتا ہے کہ نئی نسل کو اپنے تجربے سے مستفیض کرے، کچھ سکھائے، معیاری زندگی بسر کرنے کی تحریک دے۔
زندگی کو ہم نعمت گردانتے ہیں تو لازم ہے کہ اِس کے ہر حصے کو اہم گردانیں اور اُس کی مناسبت سے اپنی طرزِ فکر و عمل کی اصلاح کریں۔ ہر عمر کے چند تقاضے ہوتے ہیں۔ جو کچھ جوانی میں اچھا دکھائی دیتا ہے وہ بڑھاپے میں اچھا نہیں لگتا۔ ڈھلتی عمر اور واضح بڑھاپا‘ دونوں ہی انسان سے برد باری اور سنجیدگی کا تقاضا کرتے ہیں۔ بچپن اور لڑکپن کی شوخی جوانی میں کِھل کر اور کُھل کر سامنے آتی ہے مگر ڈھلتی عمر میں بالکل اچھی نہیں لگتی۔ کم ہی لوگ ہیں جو ڈھلتی عمر میں شوخ و چنچل طرزِ عمل اختیار کریں اور لوگوں کو اُن کا ایسا کرنا بُرا نہ لگے۔ کھانے پینے کے معاملات میں احتیاط برت کر اور ورزش کی صورت میں دن رات محنت کرکے جو لوگ اپنے جسم کو غیر معمولی توازن اور استحکام کی حالت میں رکھتے ہیں اُن کا ہر انداز اچھا لگتا ہے۔ وہ اگر ساٹھ سال کی عمر میں بھی جوانوں جیسی تیزی اور پھرتی دکھانے کی کوشش کریں تو بُرے نہیں لگتے۔ انسان پر عمر کا ہر دور آتا ہے اور گزر جاتا ہے۔ بڑھاپا البتہ صرف آنے کے لیے ہوتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ یہ ہماری خصوصی توجہ کا طالب بھی ہے۔ کسی نے خوب کہا ہے ؎
جو جا کے نہ آئی وہ جوانی دیکھی
جو آ کے نہ جائے وہ بڑھاپا دیکھا
جس زمانے کو آنے کے بعد جانا ہی نہیں اُس کے لیے غیر معمولی ذہنی تیاری بھی لازم ہے۔ اس حوالے سے مذہبی پس منظر کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ مذہب سے گہری مگر حقیقی جذباتی وابستگی رکھنے والوں کو بڑھاپے میں ڈھنگ سے جیتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ کائنات کے خالق پر ایمان رکھنے والوں کی سوچ بھی الگ ہوتی ہے اور رویہ بھی عام آدمی سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ اُن کی زندگی میں نظم و ضبط، اطمینان اور استحکامِ فکر و نظر دور سے دکھائی دے جاتا ہے۔ بڑھاپے کا سب سے بڑا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنی رفتار کم کرے، قدرے سکون کی حالت میں زندگی بھر کے معاملات کا جائزہ لے، کوتاہیوں پر غور کرے، خامیوں کا اندازہ لگائے، ذہنی پیچیدگیوں کو دور کرنے کا سوچے، اپنے رویے میں توازن، نرمی اور اخلاص پیدا کرے۔ یہ سب کچھ اس لیے لازم ہے کہ ڈھلتی ہوئی عمر بالعموم اپنے احتساب کے لیے ہوتی ہے۔ اپنے افکار و اعمال کا جائزہ لینے کی توفیق نصیب ہو تو باقی زندگی ڈھنگ سے بسر کرنا قدرے آسان ہو جاتا ہے۔ بڑھاپے میں پلٹنے اور معاملات کو درست کرنے کی گنجائش کم ہوتی ہے اس لیے بہتر یہی ہے کہ انسان اس عمر میں ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھائے۔ دانش کے سہارے زندگی بسر کرنے والے ہر انسان کے لیے لازم ہے کہ ڈھلتی عمر میں خود کو تبدیل کرنے پر متوجہ ہو اور سنجیدگی کے ساتھ ایسے افکار و اعمال کی طرف جائے جو اُس کی شخصیت کا حُسن بڑھانے میں معاون ثابت ہوں۔
بڑھاپا اپنے اور دوسروں کے لیے اُسی وقت کارآمد ثابت ہوسکتا ہے جب اُس کی نزاکت محسوس کرتے ہوئے خود کو بدلنے کی کوشش کی جائے۔ زندگی کا ہر انگ اور ہر رنگ الگ جاذبیت اور خوشبو رکھتا ہے۔ جو لوگ زندگی کو ایک اِکائی کے طور پر لیتے ہیں وہی اس حقیقت کے ادراک سے حِظ کشید کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved