حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : جب نبی ﷺ کے اصحاب نجاشی کے پاس پہنچے اور انہوں نے قرآن کریم پڑھا اور ان کے علماء اور راہبوں نے قرآن مجید سنا‘ تو حق کو پہچاننے کی وجہ سے ان کے آنسو بہنے لگے‘ اس کیفیت کو ساتویں پارے کی ابتدائی آیات میں بیان کیا گیاکہ '' اور جب وہ اس( قرآن کو سنتے ہیں )‘ جو رسول کی طرف نازل کیا گیا‘ تو حق کو پہچاننے کی وجہ سے آپ ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کو بہتا ہوا دیکھتے ہیں‘ وہ کہتے ہیں : اے ہمارے رب! ہم ایمان لائے‘ تو ہمیں (حق کی) گواہی دینے والوں کے ساتھ لکھ لے‘‘۔ اس کے بعد ان کے لئے اجرِ آخرت اور دخولِ جنت کی نعمتوں کا ذکر ہے۔ آیت 89میں قسم کا حکم بیان کیا گیا ہے‘ یعنی کوئی شخص مستقبل میں کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم کھائے‘ اگر وہ اس قسم پر قائم رہتا ہے‘ تو فقہی اعتبار سے کہا جاتاہے کہ وہ قسم میں بری ہے اور اگر وہ قسم کو توڑ دیتا ہے‘ یعنی جو کہا ہے‘ اس کے برعکس کرتاہے‘ تو فقہی اعتبار سے اسے ''حانث‘‘ ہونا کہتے ہیں۔ اس آیت میں قسم کا کفارہ بیان ہوا ہے‘ جو دس مسکینوں کو اپنے اوسط معیار کے مطابق دو وقت کا کھانا کھلانایا ان کو لباس دینا یا غلام آزاد کرناہے (آج کل غلامی کا رواج نہیں ) اگر کوئی ان چیزوں پر قادر نہ ہو تو تین دن کے روزے رکھنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ اپنی قسموں کی حفاظت کروتاکہ کفارے کی نوبت نہ آئے۔ آیت90اور 91میں فرمایا : ''اے مومنو! شراب‘ جوا‘ بتوں کے پاس (قربانی کیلئے) نصب شدہ پتھر اور فال کے تیر محض ناپاک شیطانی کاموں سے ہیں۔ سو‘ تم ان سے اجتناب کرو‘ تاکہ تم فلاح پاؤ۔ شیطان تو بس یہ چاہتاہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان بغض اور عداوت پیدا کرے اور تمہیں اللہ کے ذکر اور نماز سے روک دے‘ تو کیا تم باز آنے والے ہو؟‘‘۔ آیت 100میں رسولﷺ سے غیر ضروری سوالات کرنے سے منع فرمایا گیاکہ اگر بہت سی باتیں تم پر ظاہر ہوجائیں تو تمہیں ناگوار گزریں۔ زمانۂ جاہلیت میں مشرکوں نے بعض حلال جانوروں کو بتوں کے نام پر وقف کرکے ان کا دودھ دوہنا‘ ان پر سامان لادنا اور ان کا گوشت کھانا ممنوع قرار دے رکھا تھا۔ آیت 104میں بتایا گیا کہ جب اہلِ کتاب اور دین سے انحراف کرنے والوں کو دعوت دی جاتی ہے کہ اللہ کے نازل کردہ دین اور رسول کی طرف اتباع کیلئے چلے آؤ‘ تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے آبائواجداد کو اسی روش پر پایا ہے اور ہم اپنے آبائواجداد کے شِعار کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں‘ خواہ ان کے آبائواجداد جاہل اور راہِ ہدایت سے بھٹکے ہوئے ہوں۔ ظاہر ہے کہ رسولﷺ کو اس رویے سے تکلیف پہنچتی تھی‘ تو اللہ نے اہلِ ایمان کی تسلی کیلئے فرمایاکہ جب تک تم خود ہدایت پر ہو کسی کی گمراہی تمہارے لئے نقصان دِہ نہیں۔ آیت 106 میں وصیت کیلئے دو عادل گواہ مقرر کرنے کا حکم دیا تاکہ بعد میں تنازع پیدا نہ ہو اور یہ بھی حکم دیا کہ حق کی گواہی کو چھپانا نہیں چاہیے۔ ابتدائے اسلام میں وصیت کو فرض قرار دیا گیا تھا لیکن احکامِ وراثت نازل ہونے کے بعد صرف اس کی اِباحت اور خیر کے کاموں کیلئے استحباب باقی ہے۔ آیت 110 اور 111 میں اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام پر اپنی نعمتیں بیان کیں: (1) روح القدس سے مدد کرنا(2) گہوارے میں لوگوں سے کلام کرنا(3) کتاب وحکمت‘ تورات اور انجیل کی تعلیم (4) عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات‘ مثلاً: اذنِ الٰہی سے مٹی سے پرندہ بنا کرجان ڈالنا‘ مادر زاد اندھے اور برص کے مریض شفایاب کرنا‘ مردے کو زندہ کرنا‘ بنی اسرائیل کی ایذا رسانی سے بچانا‘ وغیرہ۔ آیت 112 عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں کا اُن سے استدعا کرناکہ اللہ آسمان سے ہماری لئے تیار خوانِ نعمت نازل کرے‘ اس سے ہم کھائیں اور قلبی اطمینان پائیں۔ اس پر اللہ نے فرمایا ''میں یہ نعمت نازل تو کردوں گا‘ مگر پھر جو شخص (مطلوبہ نشانی دیکھنے کے بعد) کفر کرے گا تو اسے ایسا عذاب دوں گا‘ جو جہان والوں میں سے کسی کو بھی نہ دوں گا‘‘۔ اس کے بعد کی آیات میں نصاریٰ پر حجت قائم کرنے کیلئے فرمایا کہ ''اے عیسیٰ ! کیا آپ نے لوگوں کو یہ کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ کے سوا خدا بنالو‘‘۔ ظاہر ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نے اس سے برأ ت کا اظہار کیا۔
سورۃ الانعام
اس سورت کے آغاز میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کا بیان ہے کہ اس نے آسمانوں‘ زمین‘ ظلمت اور نور کو پیدا کیا‘ اسی نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا‘ پھر اس کیلئے ایک مدتِ حیات اور قیامت کا وقت مقرر فرمایا‘ لیکن کافر پھر بھی اپنے رب کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں اور اس کی قدرت کے بارے میں شک میں مبتلا ہوتے ہیں؛ حالانکہ وہ ظاہر وباطن اور انسان کے ہر عمل کوجانتا ہے۔ منکروں کا ایک شِعار یہ ہے کہ اللہ کی قدرت کی نشانیاں آنے کے باوجود ان میں غور نہیں کرتے۔ آیت 7 میں فرمایا کہ کافروں کا حال تو یہ ہے کہ اگر لکھی ہوئی کتاب ان کے پاس اتار دی جائے‘ جسے وہ اپنے ہاتھوں سے چھو کر دیکھ لیں‘ تو پھر بھی ایمان نہ لائیں‘ بلکہ اسے جادو قرار دیں‘ اسی طرح اگر ان کے پاس فرشتہ اتر کر آجائے‘ تو ملکوتی شکل میں تو وہ دیکھ نہ پائیں اور ؛اگر بشری لباس میں آئے‘ تو پھر وہ کہیں گے کہ یہ تو ہم جیسا بشر ہے۔ آیت 14 میں رسولﷺ کو حکم ہوا کہ آپ کافروں اور مشرکوں کو بتائیں کہ کیا میں زمین وآسمان کے خالق اور سب کے روزی رساں کو چھوڑ کر کسی اور کو اپنا کارساز مان لوں ؟ آپ کہہ دیں کہ میں سب سے پہلے اسلام لانے والا ہوں۔ اللہ جس کوضرر پہنچائے‘ اس کے سوا کوئی نجات دینے والا نہیں‘ وہ ہر خیر کا مالک ہے۔ مجھے اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ میں ہر مخاطَب کو اللہ کے عذاب سے ڈراؤں اور اس کی توحیدکی دعوت دوں۔ آیت 22 میں فرمایا کہ قیامت کے دن ہم سب مشرکوں کو جمع کریں گے اور پوچھیں گے کہ تمہارے باطل معبود اب کہاں ہیں‘ تو وہ اپنے ماضی کو جھٹلائیں گے۔ آیت 25 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ منکرین آپ کی بات کو توجہ سے سنتے ہیں‘ لیکن ان کی بداعمالیوں کے سبب ان کے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں اور ان کے کانوں میں بندش ہے۔ آخرت میں وہ تمنا کریں گے کہ کاش ہمیں واپس دنیا میں بھیج دیا جائے اور ہم ایمان لانے والوں میں سے ہو جائیں۔ آیت 31 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انہوں نے اللہ کے حضور پیش ہونے کی حقیقت کو جھٹلایا‘ وہ اپنی بداعمالیوں کا بوجھ اپنی پُشت پر اٹھائے ہوئے ہیں اور جب اچانک قیامت آپہنچے گی تووہ اپنی کوتاہی پر افسوس کریں گے۔ رسول اللہ ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : آپ غمگین نہ ہوں‘ یہ آپ کو نہیں جھٹلارہے بلکہ در حقیقت آیاتِ الٰہی کا انکار کر رہے ہیں اور آپ سے پہلے بھی رسولوں کو جھٹلایا گیا اور انہوں نے صبر کیا۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو سب کو جبراً ہدایت پر جمع فرما دیتا‘ لیکن بندے کو اختیار دے کر آزمانااور جزا وسزا کا نظام قائم کرنا‘ اس کی حکمت کا تقاضا تھا۔ آیت 46 میں فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہاری سننے اور دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں کو سَلب فرما لے‘ تو کون ہے جو تمہیں نعمتیں عطا کرسکتاہے۔ مشرک آپﷺ سے طرح طرح کے فرمائشی مطالبات کرتے تھے‘ تو اللہ نے فرمایا: آپ کہہ دیں میں نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں از خود غیب جانتاہوں اور نہ میں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ میں فرشتہ ہوں‘ میں تو فقط اسی چیز کی پیروی کرتاہوں‘ جس کی مجھے وحی کی جاتی ہے۔ آیت 59 میں فرمایا: ''اور غیب کی کنجیاں اُسی کے پاس ہیں‘ اِس کے سوا (از خود) ان کو کوئی نہیں جانتا‘ وہ ہر اُس چیز کو جانتا ہے‘ جو خشکی اور سمندر میں ہے‘ وہ درخت سے گرنے والے ہر پتے کو جانتا ہے اور زمین کی تاریکیوں میں ہر دانہ کو جانتاہے اور تر اورخشک ہرچیز لوحِ محفوظ میں لکھی ہوئی ہے‘‘۔ آیت 61 میں فرمایا '' اللہ اپنے بندوں پر غالب ہے اور وہ اُن پرنگرانی کرنے والے فرشتے بھیجتاہے اور جب کسی کی موت کا وقت آجائے‘ تووہ فرشتے کسی کوتاہی کے بغیر اُس کی رُوح کو قبض کرلیتے ہیں‘‘۔ آیت 63 میں فرمایاکہ بَر و بحر کی ظلمتوں میں کون تمہیں نجات دیتاہے‘ جس کو تم عاجزی سے اور چپکے چپکے پکارتے ہوکہ اگر وہ ہمیں اِس مصیبت سے بچالے توہم ضرور شکر گزاروں میں ہوجائیں گے‘ اے رسول! کہہ دیجئے اللہ ہی تم کو اس مصیبت اور ہرتکلیف سے نجات دیتاہے‘ پھربھی تم اُس کے ساتھ شرک کرتے ہو۔ آیت 64 میں فرمایا : اللہ اِس پر قادر ہے کہ تمہارے اوپر سے اور تمہارے پاؤں کے نیچے سے تم پر عذاب بھیجے اور تمہیں ایک دوسرے سے بھڑادے اور تمہیں ایک دوسرے سے لڑائی کا مزا چکھادے۔ آیت 73 میں فرمایا: اللہ وہ ہے‘ جس نے آسمانوں اور زمینوں کو برحق پیداکیا اوروہ‘ جس دن کسی فنا شدہ چیز کو فرمائے گا کہ ہوجا‘ تو وہ ہو جائے گی۔ آیت 74 تا 81 حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر ہے۔