گزشتہ چند ہفتوں کی حکومتی کارکردگی پر نظر دوڑاتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ صرف معاشی بحران نہیں‘ گورننس کا بحران بھی ہے‘ افرادِ کار کا بحران بھی ہے‘ طریقِ کار کا بحران بھی ہے اور سب سے بڑھ کر ترجیحات کا بحران بھی ہے۔ میں ماضی کی اس تفصیل میں نہیں جاتا کہ حرمت رسول ﷺکے مقدس نام پر وجود میں آنے والی تحریک اور ٹھنڈے میٹھے مسلک سے تعلق رکھنے والے بعض حضرات تشدد کے راستے پر کیسے چل پڑے۔ میں تو صرف ایک نکتے پر مختصر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں کہ حکومت نے تحریک لبیک سے پہلے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا اور معاملہ پارلیمنٹ میں لے جانے کا معاہدہ کیا۔ پھر ڈیڈ لائن قریب آنے پر مزید مذاکرات جاری رکھنے کے بجائے گرفتاریاں شروع کر دیں۔ سوال یہ ہے کہ حکومت نے گرفتاریوں سے پہلے اُن نتائج و عواقب کی کوئی پیش بندی کیوں نہ کی جو ان گرفتاریوں کے بعد پیش آ سکتے تھے۔گزشتہ روز لاہور کے کچھ تھانوں پر کالعدم تحریک کے بعض کارکنوں کی طرف سے حملے قابل مذمت ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ علمائے کرام اور سیاست دانوں کی وسیع تر مشاورت کے ساتھ عمل اور ردعمل کے دائرے کو پھیلنے سے فی الفور روکے اور حالات کو مزید بگڑنے نہ دے۔ تحریکیں شدید ردعمل سے نہیں‘ حکمت‘ مشاورت اور اچھی گورننس سے روکی جاتی ہیں۔
انہی دنوں حکومت نے کئی وزراء کے قلمدانوں میں تبدیلی کی۔ کیا قلمدانوں کی تبدیلی سے ملکی معیشت و سیاست اور کارکردگی پر کوئی بڑا فرق پڑے گا؟ وزیر وہی‘ مشیر وہی‘ ٹیم وہی‘ قیادت کا وژن وہی‘ رویے وہی‘ ڈائریکشن وہی تو اس سنگ بستہ سیاست کے ہوتے ہوئے محض وزارتوں کے قلمدانوں کی تبدیلی سے کارکردگی میں کسی بڑی تبدیلی کی امید خیالِ خام سے کچھ زیادہ نہیں۔ اگر کسی گاڑی کے ٹائروں میں ہوا نہ ہو تو آپ پچکے ہوئے پچھلے ٹائروں کو آگے لگا دیں اور اگلے ٹائر پیچھے لگا دیں تو اس سے گاڑی ٹس سے مس نہ ہوگی اور اپنی جگہ پر ہی کھڑی رہے گی۔
صرف تین برس میں چار وزرائے خزانہ کی تبدیلی سامنے آچکی ہے۔ پہلے وزیر خزانہ اسد عمر‘ دوسرے حفیظ شیخ‘ تیسرے حماد اظہر اور اب چوتھے شوکت ترین ہیں۔ سچ پوچھیں تو مجھے اعلیٰ تعلیم یافتہ جواں سال‘ جواں فکر اور جواں عزم حماد اظہر کے وزارتِ خزانہ کی شاخ پر بن کھلے مرجھا جانے کا بہت افسوس ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسد عمر سے لے کر شوکت ترین تک جناب وزیراعظم پہلے اپنے ہر وزیر خزانہ کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان رہتے ہیں اور پھر یکایک اُنہیں وجہ بتائے بغیر فارغ کر دیتے ہیں۔ حفیظ شیخ کے بارے میں پہلے قوم کو یہ بتایا گیا کہ وہ نہایت دل جمعی سے کام کر رہے ہیں۔ انہیں مستقل وزیر خزانہ بنانے کے لیے اسلام آباد کی سیٹ سے سینیٹ کا الیکشن بھی لڑایا گیا۔ وہ یہ سیٹ ہار گئے۔ ہارنے کے بعدوہ وزیراعظم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا استعفیٰ پیش کر دیا مگر وزیراعظم نے ان پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔ پھر پرانی روش کے مطابق انہیں چند روز بعد اچانک وزارتِ خزانہ سے فارغ کر دیا گیا۔ ستم بالائے ستم کہ جس حفیظ شیخ کی اقتصادی و مالیاتی پالیسیوں کو حکومت شب و روز سراہتی رہی اُن کے بارے میں یہ کہا گیا کہ مہنگائی کنٹرول نہ کرنے کی پاداش میں انہیں اپنے عہدے سے فارغ کیا گیا ہے۔ حماد اظہر کے ساتھ تو بہت ناروا سلوک کیا گیا۔ بقول علامہ اقبالؒ آ کے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے۔
اب شوکت ترین صاحب کو وزارتِ خزانہ کا قلمدان سونپ دیا گیا ہے۔ شوکت ترین آصف علی زرداری کی حکومت میں پیپلز پارٹی کے وزیر خزانہ رہے ہیں۔ وہ ماہر امورِ مالیات اور بینکر ہیں۔ ایک بینک کے مالک بھی بتائے جاتے ہیں۔ مگر اعدادوشمار سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُن کا بینک خسارے میں جا رہا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی اقتصادی و مالیاتی پالیسی آئی ایم ایف کی ہدایات کے عین مطابق تیار کی جاتی ہے‘ پھر وزیراعظم اور کابینہ اُس کی رسمی منظوری دیتی ہے۔ پھر اس پالیسی پر عملدرآمد کی ذمہ داری وزیر خزانہ کو تفویض کی جاتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جناب شوکت ترین کے پاس وہ کون سا الہ دین کا چراغ ہے کہ جسے رگڑنے سے وارے نیارے ہو جائیں گے اور بے حال عوام خوشحال ہو جائیں گے‘ مہنگائی اُن کے سامنے بے بس ہو جائے گی۔ آئی ایم ایف سے معاہدے کے مطابق اگلے چند ماہ میں حکومت کو بجلی مزید مہنگی کرنا ہوگی۔ وہ بجلی کہ جب ساڑھے آٹھ روپے فی یونٹ تھی تو بحیثیت اپوزیشن رہنما عمران خان نے بجلی کے بل جلا دیے تھے۔ آج یہی بجلی کئی گنا زیادہ مہنگی ہوچکی ہے جسے مزید مہنگا کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق ہر طرح کی سبسڈی بھی ختم کرنا ہوگی۔ اپنی تقرری سے چند روز قبل شوکت ترین نے ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ حکومتی معیشت کی کوئی سمت نہیں اور اس کی کوئی کل سیدھی نہیں۔ بجلی اور گیس بے انتہا مہنگی ہوچکی ہے۔ جب تک کوئی بنیادی قسم کے فیصلے نہیں کیے جائیں گے اُس وقت تک ملکی معیشت ترقی و خوشحالی کے ٹریک پر نہیں آسکتی۔
آج پی ٹی آئی داخلی و فکری انتشار کا شکار ہے۔ ایک طرف پی ٹی آئی کے سابق سیکرٹری جنرل کے ساتھ درجنوں ارکانِ اسمبلی اظہارِ یکجہتی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہفتے کے روز تو حامی ارکانِ اسمبلی نے واضح اعلان کیا ہے کہ اگر جہانگیر ترین کے ساتھ انصاف نہ ہوا تو ہم کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں۔ اس موقع پر جہانگیر ترین نے بھی بینکنگ کورٹ کے باہر نہایت واشگاف الفاظ میں کہا کہ میرا کاروبار شفاف ہے۔ تینوں ایف آئی آرز میں چینی کی قیمت بڑھانے یا کسی مافیا کا کا کوئی ذکر نہیں۔ اگر ترین گروپ کو کوئی غیبی اشارہ ہوگیا تو کئی دھماکا خیز خبریں سامنے آسکتی ہیں۔ جہاں تک فکری انتشار کا تعلق ہے تو اس کا اندازہ آپ اسد عمر کے اس بیان سے لگا سکتے ہیں جو انہوں نے ایک ٹی وی چینل پر دیا کہ شوکت ترین کا معاشی تجزیہ بالکل غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی معیشت جان کنی کی کیفیت میں تھی۔ آج اپنے پیروں پر کھڑی ہے۔ شرح نمو بڑھ رہی ہے۔ اس لیے آج معیشت غلط سمت پر نہیں درست سمت پر جارہی ہے۔ یہ درست سمت حفیظ شیخ کی کارکردگی سے سامنے آئی تھی۔ جب وزیر منصوبہ بندی اور وزیر خزانہ اپنے اپنے تجزیوں کے ساتھ آمنے سامنے کھڑے ہوں تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ معیشت کدھر جائے گی۔
شوکت ترین کی پہلی آزمائش چند ہفتوں کے بعد بجٹ پیش کرنا ہے۔ اس وقت معلوم ہو جائے گا کہ وہ جادو کی کون سی چھڑی گھماتے اور الفاظ کی کس ساحری سے کام لیتے ہیں کہ جس سے مہنگائی آسمان سے نیچے آجائے گی‘ بجلی اور گیس کے بل بہت کم ہو جائیں گے‘ شرح نمو بڑھ جائے گی‘ بے روزگاری کا خاتمہ اور خوشحالی کی آمد آمد ہوگی۔ایک بات سمجھ لیجئے کہ وزراء کی تبدیلی سے مہنگائی کنٹرول ہو گی اور نہ ہی بلندبانگ دعووں سے گورننس بہتر ہوگی۔ جیسا کہ اوپر لکھ چکا ہوں اصل بحران ترجیحات کا ہے۔ جناب وزیراعظم کی اوّلیں ترجیح سیاسی مخالفین کو سزا دلوانا ہے۔ خوشحال معیشت‘ بہترین گورننس‘ کورونا پر کنٹرول اُن کی پہلی ترجیحات میں نہیں۔ 123 ملکوں کی فہرست میں کورونا ویکسین کی فراہمی میں پاکستان کا 120 واں نمبر ہے۔ 22 کروڑ آبادی کے ملک میں صرف دس لاکھ کو ویکسین لگائی جاسکی ہے۔ جب تک جناب وزیراعظم کی ترجیحات میں کوئی بنیادی تغیر نہیں آتا اس وقت تک کوئی تبدیلی آتی دکھائی نہیں دیتی۔