تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     20-04-2021

چارنئی کتابیں… (2)

تیسری کتاب کا نام ہے Islamic Empires: Fifteen Cities that Define a Civilization۔ 464 صفحات کی بلند معیار کی کتاب Justin Marozzi نے لکھی جو صحافی‘ سیاح‘ جزووقتی استاد اور مشرق وسطیٰ پر معیاری کتابوں کے مصنف ہیں۔ یہ کتاب اتنی معلوماتی اور فکر انگیز ہے کہ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک چھوٹی سی کتاب لکھی جا سکتی ہے۔
مصنف نے پندرہ صدیوں میں انسانی تمدن کے اُفق پر اُبھرنے والے جن پندرہ شہروں کا ذکر کیا ہے اُن میں ایک قدرِ مشترک یہ ہے کہ اُن میں حکومت کرنے والے خاندانوں کی تین نسلیں برسر اقتدار رہیں یعنی قریباً ایک سو سال تک ‘اور پھر ان شہروں کا عروج بتدریج زوال میں تبدیل ہو گیا۔ اس کتاب میں مصنف آپ کی ملاقات جن تاریخی کرداروں سے کراتا ہے۔ اُن کے نام یہ ہیں:حضرت امیر معاویہؓ ‘ عبدالرحمن سوم (قرطبہ کا خلیفہ)‘ محمد دوم(Mehmet-II) کئی زبانیں جاننے والا جس نے قسطنطنیہ فتح کیا۔ بابر (در بدر ٹھوکریں کھانے والا شہزادہ جس نے مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی)‘ شاہ عباس (سترہویں صدی میں اصفہان کا شہر آباد کیا جو بدستور اپنے حسن میں بے مثال ہے)۔ فاضل مصنف نے کابل‘ تریپولی (لیبیا)‘ بغداد اور قاہرہ میں خود کافی وقت گزارا۔ قابل ِذکر بات یہ ہے کہ مصنف نے ان شہروں کو بسانے والوں کے ظلم و ستم کی تفصیل پر زور دینے کے بجائے اپنی ساری توجہ صرف ایک سوال پر مرکوز کر دی‘یعنی کیا وہ ایک مؤثر حکومت کو حسنِ انتظام سے چلانے میں کامیاب رہے یا نہیں؟ ایک اور خصوصیت بھی قدرِ مشترک بن کر سامنے آتی ہے کہ مذکورہ بالا شہروں میں کئی مذاہب اور جداگانہ ثقافت اور زبانیں بولنے والے رہتے تھے۔ سماجیات کی زبان میں وہ ہر ایک شہر Plural تھا‘ مختلف پھولوں کے گلدستہ کی طرح۔ کالم نگار کو جس باب نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ ازبکستان کے طلسماتی شہر سمرقند کے بارے میں تھا۔ غالباً اس لئے بھی کہ کالم نگار بھی وہاں دو دن گزار چکا ہے۔
کتاب میں دی گئی چند تفصیلات غیر مستند ہیں اور اس لئے ناقابلِ اعتبار مثلاً یہ کہ آٹھویں صدی میں عباسی عہد کے ایک جرنیل (ابو مسلم) نے محض اپنے قاتلانہ جذبے کی تسکین کی خاطرپچاس ہزار لوگوں کو مار ڈالا یا خلیفہ ہارون الرشید نے اپنے ورثہ میں چار ہزار سنہری پگڑیاں اوراعلیٰ ترین Porcelainکے ایک ہزار برتن چھوڑے اور یہ بھی اس کے ایک جانشین خلیفہ کے قبضہ میں 7000 خواجہ سرا اور 4000 سیاہ فام غلام تھے۔ اس مصنف کی ایک کمزوری سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی‘ مگر اُسے کسی بھی (چاہے وہ کتنا ہی ناقابلِ اعتبار ہو) داستان گو کی لکھی ہوئی آدھی سچی اور آدھی سنی سنائی حکایت کو سچ مان لینے میں کوئی تامل نہیں ہوتا۔ مورخ یا وقائع نگار (کالم نگار کو بھی اس صف میں شامل کر لیں) کی لکھی ہوئی تحریر رضیہ کا دسترخوان تو نہیں ہوتی جو چٹ پٹی چیزوں اور ذائقہ کی وجہ سے شہرت پائے۔
40 برس ہوئے جب میں روسی ایئر لائن پر سفر کرنے کی بدولت پاکستان جاتے ہوئے سوویت یونین (جس کا مطلب ہے ماسکو) میں تین دن ٹھہرا اور وہ بھی ماسکو کے دل ریڈ سکوائر کے سب سے قدیم ہوٹل میں۔ اچھا ہوا کہ میرے دو بیٹے (نوید اور فاروق) میرے ہم سفر تھے مگر یہ اچھا نہ ہوا کہ قیام بے حد مختصر تھا۔ تین کی بجائے اس محل نما عمارت میں چھ دن ٹھہر جاتے توچاردلی خواہشات پوری ہو جاتیں اور وہ تھیں: کریملن (وہ محل نما عمارت جہاں پہلے زارِ روس اور اُس وقت سوویت یونین کے مرکزی دفاتر تھے)کی سیر‘ لینن کی قبر کی زیارت‘ دریائے وولگا( Volga) میں بحری جہاز کا سفراورSaint Petersburgکے محلات اور عجائب گھروں کا دیدار۔ وقت کی کمی کی وجہ سے صرف پہلی دو مرادیں پوری ہوئیں اور دو رہ گئیں۔
وہ سرزمین جس میں وقت کے پانچ خطے (Time Zone) ہوں۔ جب تک آپ وہاں نہ جائیں آپ کو اس کی وسعت کا انداز نہیں ہو سکتا۔ (انیسویں صدی میں نپولین اور بیسوی صدی میں ہٹلر کو اس کا بخوبی پتا چل گیا ہوگا)۔ جو مقامات نہ دیکھ سکا اُن کا تجسس اپنی جگہ مگر کچھ تلافی یوں ہوئی کہ حال ہی میں Saint Petersburg پر کمال کی فلم دیکھی اور Volga پر کمال کی کتاب پڑھی۔ (یہی دوسرے کالم کی دوسری کتاب ہے)۔ یہ روس کانہیں یو رپ کا سب سے بڑا دریا ہے۔ یہ روس کے مشرق میں Valdai Hillsسے نکلتا ہے اور بڑی شان و شوکت‘ تمکنت وقار اور سکون سے بہتا ہوا (2194 میل کا سفر کرتا) آستر خان کے مقام پر وسیع و عریض ڈیلٹا بناتے ہوئے روس کے جنوب مشرق میں Caspian Seaمیں جا گرتا ہے۔ یہ دریا انسانی سفر‘ نقل و حمل‘ آب پاشی اور پن بجلی پیدا کرنے کی وجہ سے روس کی شاہ رگ کا درجہ رکھتا ہے۔ لندن سکول آف اکنامکس میں تاریخ پڑھانے والی خاتون پروفیسر Jane Hartleyریٹائر ہوئیں تو روس گئیں ‘وہاں میری طرح تین دن نہیں بلکہ تین ماہ رہیں اور وہ بھی سارا عرصہ Volga پر تیرتے ہوے بحری جہازوں پر سفر کرتے اور اس دریا پر چھپی ہوئی کتابیں پڑھتے گزارا۔ چار سو صفحات کی کتاب Yale یونیورسٹی پریس نے شائع کی۔ اسے پڑھ کر مجھے دریائے سندھ پر Alice Albiniaلکھی ہوئی کتابEmpires of the Indus: The Story of a River یاد آئی۔ وہ بھی میرے لئے جادوئی کشش رکھتی ہے۔ میں نے اسے اپنی کتابوں کے ذخیرہ سے ڈھونڈ کر نکالا اور پھر ذوق و شوق سے پڑھا۔ فاضل مصنفہ کی کتاب کا پہلا جملہ یہ ہے ''وولگا کے بغیر روس کا تصور ممکن نہیں‘‘ ۔دریائے وولگا کے ساحلوں کے ساتھ جن نہروں کو تعمیر کیا گیا ہے وہ بیگار میں پکڑے ہوئے ہزاروں غلاموں نے بنائیں۔ اس دریا نے نہ صرف روس کی معیشت میں نمایاں کردارا ادا کیا ہے بلکہ اس نے دوسری جنگ عظیم میں روس کو ہٹلر کی فوج کے طوفانی جارحانہ حملہ سے بھی بچایا۔ اس دریا کی بدولت ایک پسماندہ قصبہ (Muscovy) ترقی کرتا کرتا ماسکو اور ایک سلطنت کا صدر مقام بنا۔ یہ کتاب ہزاروں سال پہلے گمنام ریاستوں (Khazaria ) اورBulger Khanateاور Rusنامی بستیوں کے تذکرہ سے شروع ہوتی ہے۔
Volga نے بکھرے ہوئے دانوں کو ایک لڑی میں پرو کر روس میں وہ قابلِ احترام درجہ حاصل کیا جو گھرانے میں ماں کا ہوتا ہے۔ اس دریا کی آغوش میں ادیبوں اور فنکاروں نے جنم لیا۔Nikolay Nekrasovجیسا شاعر‘ میکسم گورکی جیسا بڑا ادیب Ilya Repinجیسا مصور۔ فنکاروں کی عظمت اپنی جگہ‘وولگا پر کشتی چلانے والے ملاحوں کا لوک گیت (Song of the Volga Boatmen) بھی ہمارے دل میں اُس طرح جوت جگاتا ہے جس طرح فیضؔ صاحب نے مشرقی پاکستان کے دریائوں میں نائو چلانے والے ''مانجھی‘‘ کو مخاطب کر کے لکھا تھا اور لکھتے وقت دل میں خون کے آنسو روئے ہوں گے کہ چند برس بعد وہ قیامت ٹوٹے گی جب کئی برساتوں سے بھی خون کے دھبے نہ دُھل پائیں گے۔ صرف یہ نہیں ہم نے یہ قسم بھی کھا رکھی ہے کہ ہم اس المیہ کے نہ اسباب دریافت کریں گے اور نہ اس سے کوئی سبق سیکھیں گے۔ کالم نگار کا یہ جرم یقینا ناقابلِ معافی ہے کہ وہ دن رات سوچتا (اور کڑھتا)تو وطن عزیز کے بارے میں ہے اور رہتا اُس سے چھ ہزار میل کے محفوظ فاصلے پر ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved