گزشتہ ہفتے ایل ڈی اے سٹی میگا پروجیکٹ کے ساڑھے چار ہزار گھروں کی تعمیر کے منصوبے کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے ایل ڈی اے سے لے کر پنجاب اور مرکز کے بڑے بڑے افسران کے علاوہ چند بینکوں کے صدور کا نام لے کر زبردست خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے ان کی خدمات کو سراہا۔ اچھا کام کرنے والے افسران اور اداروں کیلئے وزیر اعظم کی تعریف ایک اچھا شگون ہوتا ہے۔ اچھے افسران کی محنت اور کارکردگی کو ملک کے چیف ایگزیکٹو کی طرف سے سراہا جانا دوسرے اہل کاروں کیلئے رشک کے جذبات ابھارتا ہے۔ رہائشی منصوبے شروع دن سے تحریک انصاف کے منشور کا حصہ رہے ہیں اور وزیراعظم عمران خان اقتدار کے حصول سے پہلے بھی یہ کہتے رہے ہیں کہ پاکستان میں پچاس لاکھ گھروں کی کمی ہے‘ اگر غریب افراد کو کرائے کے گھر سے آزاد کر کے اپنا گھر دے دیا جائے تو اس کا اثر سارے خاندان اور پوری نسل پر پڑتا ہے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اب تک سب سے زیادہ مراعات کنسٹرکشن کے شعبے کو ہی دی گئی ہیں کیونکہ یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ جب کنسٹرکشن کا شعبہ چلتا ہے تو یہ اکیلا نہیں چلتا بلکہ اس کے سبب مزید درجنوں شعبے بھی فعال ہو جاتے ہیں۔ اس کی مثال ٹرین کے انجن کی سی ہے جو اپنے ساتھ کئی بوگیوں کو لے کر چلنے کی صلاحیت رکھتا ہے، گزشتہ سال کورونا لاک ڈائون کے دوران بھی کنسٹرکشن کے شعبے کو استثنا دیا گیا جس کا ایک مثبت نتیجہ یہ نکلا کہ ملکی معیشت کا پہیہ ایک دن کے لیے بھی تعطل کا شکار نہیں ہوا اور مسلسل چلتا رہا۔ وزیراعظم جب افسران کی تعریفیں کر رہے تھے تو ایک قومی ادارے اور اس ادارے کے ان لوگوں کاذکر کرنا بھول گئے جنہوں نے فائلوں کے قبرستان میں دفن فائلوں اور ٹھیکیداروں کو ڈھونڈ کر باہر نکالا تاکہ وہ لوگ جن کی عمر بھر کی کمائیاں اپنے لئے ایک پلاٹ اور گھر کا خواب دیکھنے میں ضائع ہو گئی ہیں اور وہ دل تھامے انتظار میں بیٹھے تھے‘ انہیں ان کے خوابوں کی تعبیر دلائی جائے۔ ایل ڈی اے سکینڈل میں چند شخصیات کے نام میڈیا پر ہم سب سنتے رہے ہیں اور شہر کی سڑکوں پر گزشتہ آٹھ برسوں سے ہزاروں لوگوں کو روتے پیٹتے اور دہائیاں دیتے ہوئے احتجاج کرتے کس نے نہیں دیکھا؟ ان کی کہیں بھی شنوائی نہیں ہو رہی تھی‘ اقتدار اور اختیار کے ہر دروازے کو کھٹکھٹا کر یہ تھک چکے تھے لیکن کسی نے ان کی جانب توجہ نہیں دی۔
جولائی 2018ء میں جیسے ہی انتخابات میں کامیابی کے بعد وزیراعظم عمران خان نے حلف اٹھایا تو ان تمام متاثرین کی داد رسی کیلئے احکامات جاری کر دیے اور پھر سب نے دیکھا کہ نامی گرامی لیڈران کے نام اور چہرے اراضی سکینڈلز میں ایک ایک کر کے سامنے آنا شروع ہو گئے۔ ایسے تمام لوگوں کے خلاف قانون بے رحمی سے حرکت میں آیا اور پلاٹ کے حصول کیلئے جن بوڑھے پنشنرز اور اپنے گھر کا خواب دیکھنے والے ہزاروں خاندانوں اور نوجوانوں نے اپنی ماہانہ تنخواہوں اور بچتوں سے جو سرمایہ کاری کر رکھی تھی‘ وزیراعظم کے حکم کے بعد ان سب کو اپنی لٹی ہوئی رقوم کی واپسی کی امیدیں بندھ گئیں۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ 2018ء میں جب تحریک انصاف برسر اقتدار آئی تو لٹے پٹے سینکڑوں متاثرین زمان پار ک اور پریس کلب کے باہر اپنے بیوی بچوں سمیت احتجاج کرنے لگے‘ ان کا مطالبہ تھا کہ وزیراعظم اپنے وعدوں کے مطابق ان پر ہوئے ظلم کا نوٹس لیں اور عوام کی تکالیف کا ازالہ کریں۔ اس پر وزیراعظم عمران خان نے چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال سے معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کی درخواست کی جنہوں نے نیب پنجاب کو یہ خصوصی ٹاسک سونپ دیا۔ قومی احتساب بیورو نے اس سکینڈل پر تحقیقات کا آغاز کیا اور ڈائریکٹر جنرل نیب پنجاب اور ان کی ٹیم نے دن رات ایک کرتے ہوئے ان کاغذی پلاٹوں کو حقیقت کا روپ دینے کیلئے انتھک محنت شروع کر دی‘ جن کا وجود اب تک مشکوک تھا۔ اس راہ میںبڑی بڑی پیشکشوں کو ٹھکراتے ہوئے ہزاروں لٹے ہوئے خاندانوں کے چہروں پر پھر سے خوشیاں بکھیری گئیں۔ یہ کام کس قدر مشکل تھا‘ اس کا اندازہ کئی سالوں بعد پلاٹ کی ملکیت حاصل کرنے والے ہی کر سکتے ہیں۔
جب وزیراعظم ساڑھے چار ہزار گھروں کے اس منصوبے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اپنے دل کی باتیں کر رہے تھے تو اس وقت سننے والوں اور وہاں موجود حاظرین میں سے کسی کو علم نہ تھا کہ نیب پنجاب نے محض دو سال کے قلیل عرصے میں نہ صرف 11 ہزار 300 پلاٹوں کے متاثرین کو ان کے پلاٹس کی فراہمی یقینی بنائی بلکہ ترقیاتی کاموں کی باقاعدہ نگرانی بھی کی اور یہ نگرانی صرف دیکھنے کی حد تک نہیں تھی بلکہ وہ استعمال ہونے والے میٹریل کا ٹھوک بجا کر جائزہ بھی لیتے رہے۔ کسی بھی قومی ادارے کی اجتماعی اور اس کے کسی اہلکار کی انفرادی کارکردگی کو سراہنے میں بخل سے کام نہیں لینا چاہئے‘ جو اچھا ہے اس کی کھل کر تعریف کریں اور جو ناکارہ، کرپٹ اور بددیانت ہے اس کی پردہ پوشی اور مدح سرائی سے گریز کرنا چاہئے۔ ہماری قوم کی آج تک کی نا کامی کی سب سے بڑی وجہ ہی یہ ہے کہ ہم نے غلط کو غلط کہنے کی روایات ہی نہیں پروان چڑھنے دیں۔ منافقت اور ذاتی پسند نے ہم سے اچھا مستقبل بھی چھین لیا۔
ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک جہاں بھی چلیں جائیں بدقسمتی سے آپ کو جعلی اور فراڈ قسم کے رہائشی منصوبوں کے ڈسے ہوئے لوگ مل جائیں گے۔ یہ لوگ دو چار کی تعداد میں یا چند ایک نہیں ہوں گے بلکہ ایسے لاکھوں افراد ملیں گے۔ ان میں بوڑھے پنشنرز بھی ہوں گے اور وطن سے ہزاروں میل دور روزی کمانے کیلئے گئے ہوئے اوور سیز پاکستانی بھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنا گھر ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے اور اپنے گھر کا تصور صرف انسانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ چرند‘ پرند بھی اپنے لئے ایک الگ ٹھکانہ بنانے کی کوشش ضرور کرتے ہیں‘ جہاں وہ کچھ وقت آرام سے گزار سکیں۔ اپنے گھر کا خواب دیکھنے والے پُرکشش اشتہارات اور بروشرز دیکھنے کے بعد اپنی جمع پونجی کا ایک ایک پیسہ تک خرچ کر دیتے ہیں مگر بدلے میں انہیں دھکوں، خواری اور ہزیمت کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
ایک ادارے کی حیثیت سے نیب سے ملک کی سیاسی شخصیات یا افسران سمیت کاروباری افراد کو شکوے اور شکایات ہو سکتی ہیں‘ مگر یہ ایک علیحدہ موضوع ہے؛ تاہم اگر نیب کی خدمات کا احاطہ کریں تو اس کی یہ خدمات ہی کافی ہیں کہ اپنے گھر کا خواب دیکھنے والی آنکھوں میں روشن امید کے دیے اس نے بجھنے نہیں دیے اور ایسے بااثر افراد کو قانون کی گرفت میں لیا جو غریب افراد کی رقمیں ہڑپ کر بیٹھے تھے۔ کہیں سے 25 ارب روپے وصول کر کے حق داروں کے حوالے کیے گئے تو کہیں سوا دو ارب روپے کی پلی بارگین کر کے کئی برسوں سے ڈوبی ہوئی رقوم متاثرین کو واپس دلائی گئی۔ پھر دو سال کے عرصے میں 8 برسوں سے ڈوبی ہوئی میگا سکیموں کو نیب نے ایک نئی زندگی عطا کی۔ یہ سب کچھ یقینا خدائے ذوالجلال کی رحمت، نیک نیتی اور نیب پنجاب کی بے لوث اور انتھک محنت کی وجہ سے ہی ممکن ہو پایا ہے۔ نیت نیک ہو‘ دل میں قوم و ملک کی محبت کا جذبہ موجزن ہو تو راستے کی تمام رکاوٹیں آہستہ آہستہ دور ہوتی چلی جاتی ہیں۔ وزیراعظم پاکستان جب اس میگا پروجیکٹ کا افتتاح کر رہے تھے تو اس وقت تک ڈی جی نیب پنجاب ناامیدی اور مایوسی کے سمندر میں غوطے کھانے والے 25 ہزار سے زائد خاندانوں کو ان کے پلاٹس کی فراہمی یقینی بنا چکے تھے۔